تازہ ترین

پولیس میں اصلاحات کی ضرورت

police main islahaat ki zaroorat
  • واضح رہے
  • نومبر 17, 2021
  • 1:14 صبح

کسی بھی معاشرے میں پولیس عوام کے جان و مال کے تحفظ کی ذمہ دار ہوتی ہے لیکن پاکستانی معاشرے میں ”پولیس دہشت کی علامت“ ہے

وڈیروں، جاگیرداروں، سرمایہ داروں، سیاستدانوں، قبضہ گروپوں سمیت بااثرافراد کو پروٹوکول دینا اور ان کے مفادات کو تحفظ فراہم کرنا، جبکہ کمزوروں، مظلوموں کے ساتھ نارو اسلوک اور غیر اخلاقی برتاﺅ، اساتذہ، ڈاکٹرز، نرسوں پر ڈنڈے برسانا، خواتین پرگولیاں چلانا، مساجد اور مدارس کے تقدس کی پامالی، جعلی مقابلوں میں ماﺅں سے ان کے بیٹوں، سہاگنوں سے ان کے سہاگ کو چھیننا اور طلباء و طالبات پر تشدد کرنا پولیس اپنا فرض سمجھتی ہے۔

پولیس کے محکمہ میں موجود کالی بھیڑوں نے پولیس کو بے حس، ظالم، جابر، حاکم اور نانصافی کی علامت بنا دیا ہے پولیس جیسے ملک کے اہم سیکورٹی ادارے میں جرائم پیشہ افراد نہ صرف اپنے محکمے بلکہ ایمانداری و جانفشانی سے کام کرنے والے اہلکاروں کی بدنامی کا بھی باعث بن رہے ہیں ہر آنے والی حکومت نے پولیس کو درست سمت میں گامزن کرنے کے بلند و بانگ وعدے اور دعوے بھی کئے لیکن وہ سب ہوائی باتیں ثابت ہوئیں۔

اگر ہم پاکستانی پولیس کے سفاکانہ رویے کا تاریخی پہلوﺅں سے جائزہ لیں تو یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ ہندوستان کے عوام کو اپنا غلام بنائے رکھنے، ان کا استحصال کرنے اوراپنے قومی مفادات کو تحفظ دینے کے لیے برطانیہ کی پارلیمنٹ نے پولیس ایکٹ 1861ء بنایا۔

جب یہ ایکٹ منظور ہوا تو اس وقت کے ہندوستان کے لیڈروں نے اسے کالا قانون قرار دیا تھا۔ ہندوستان اور پاکستان کی آزادی سے پہلے بھی اس پولیس ایکٹ کے ذریعے عوام کو جبر اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ پولیس ایکٹ 1861ءنے تھانہ کلچر پیدا کیا جو عوام دشمن اور اشرافیہ نواز ہے۔

قیام پاکستان کے بعد آزادی کے تقاضوں کے مطابق اس پولیس ایکٹ کو فوری طور پر تبدیل کر دینا چاہیے تھا مگر چونکہ کہ برطانیہ نے پاکستان کو صرف جغرافیائی آزادی دی تھی اور انگریزی نظام سے آزادی پاکستان کے مسلمانوں نے خود حاصل کرنی تھی مگر بدقسمتی سے بانیان پاکستان کی رخصتی کے بعد پاکستان پر ایسے طبقات قابض ہوگئے جو انگریز نواز تھے۔

چنانچہ برطانیہ اور پاکستان کی اشرافیہ کے درمیان ایک خاموش معاہدہ طے پا گیا کہ پاکستان میں انگریزوں کے جاری و ساری ریاستی نظام کو تبدیل نہیں کیا جائے گا تاکہ برطانیہ اور پاکستان کی اشرافیہ پاکستان کی ریاست سے اسی طرح مفادات حاصل کرتے رہیں جس طرح وہ آزادی سے پہلے حاصل کرتے تھے۔ چنانچہ لازم تھا کہ تھانہ کلچر کو برقرار رکھا جاتا پولیس حکمران اشرافیہ کا ایک ہتھیار بن چکی ہے۔

اشرافیہ پولیس کے ذریعے عوام پر حکمرانی کرتی ہے۔ عوام کے منتخب نمائندے اپنے انتخابی حلقوں میں اپنے پسندیدہ تھانے دار تعینات کراتے ہیں۔ انگریزوں کا دیا ہوا پولیس ایکٹ 2002ء تک جاری رہا۔ کسی حکمران نے پولیس ایکٹ کو تبدیل کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہ کی حالاں کہ اس دوران حکومت کی نامزد کردہ مختلف کمیٹیوں نے انگریزوں کے ایکٹ کو تبدیل کرنے کے لئے 30 رپورٹیں تیار کیں مگر ان پر عمل نہ کیا گیا۔

جنرل پرویز مشرف کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے پاکستان کے ریاستی نظام کی تشکیل نو کے لیے ایک قومی بیورو قائم کیا جس نے بڑی سنجیدگی اور عوامی مشاورت کے ساتھ پولیس ایکٹ 2002ءتیار کیا جس کو پولیس کے تمام ماہرین نے سراہا۔ پاکستانی ایکٹ پر پوری طرح عمل درآمد بھی نہیں ہوا تھا کہ 2004ء میں انہی کی حکومت نے اپنے سیاسی مفادات کے تحفظ کے لئے اس میں من مرضی کی ترامیم کرلیں۔

پولیس کے ماہرین کا یہ خیال ہے کہ ان ترامیم کے باوجود پولیس ایکٹ 2002ء ایک قابل عمل اور شاندار ایکٹ ہے جس پر عمل کرکے پاکستان میں جرائم کو کنٹرول کیا جا سکتا تھا اور عوام کی خدمت کی جا سکتی تھی۔ پولیس ایکٹ 2002ء تین بنیادی اصولوں کے مطابق تیار کیا گیا تھا پہلا اصول یہ تھا کہ پولیس کو مکمل طور پر غیرسیاسی کر دیا جائے۔

دوسرا اصول یہ تھا کہ پولیس کو انتظامی اور آپریشنل آزادی دی جائے، تیسرا اصول یہ تھا کہ پولیس کے احتساب کے لیے شفاف نظام وضع کیا جائے اور پولیس کی مانیٹرنگ پبلک کو دی جائے تاکہ عوام اور پولیس کے درمیان اعتماد بحال ہو سکے اور کوئی بھی پولیس کو عوام کے خلاف استعمال نہ کر سکے۔ پولیس ایکٹ 2002ء کے بعد بیوروکریسی اور سیاستدانوں کا پولیس پر کنٹرول کافی حد تک ختم ہوگیا۔ افسوس حکمرانوں نے اس عوام دوست پولیس ایکٹ پر پر عمل درآمد نہ ہونے دیا۔

انصاف کی بالادستی، قانون کی حکمرانی، ظلم کی بیخ کنی اورانسانوں کی بستیاں قانون، ضابطے اور قاعدے کے تابع ہوں تو پرُ امن اور مثالی معاشرہ وجود میں آتا ہے۔ انصاف کی بالادستی، قانون کی حکمرانی، ظلم کی بیخ کنی اور مظلوم کی داد رسی سے مثالی معاشرے کے قیام کی راہ ہموار ہوتی ہے۔

استحصال، محرومی، ناانصافی مل کر جرم کو جنم دیتے ہیں جو آگے چل کر سنگین جرائم میں بدل کر مجرم پید اکرتے ہیں۔ اسلام اور انسانیت کے سنہرے اصول برابری، عدل، ایثار، صلہ رحمی اور انسان دوستی کا سبق دیتے ہیں۔ بنیادی انسانی شخصی وقار کے اس شہرہ آفاق سبق کو اگر معاشرے سے منہا کردیا جائے تو سفاکیت و بربریت، ظلم و زیادتی، قتل وغارت جیسے خوفناک جرائم تاریکیاں بڑھانے کا موجب بنتے ہیں۔

مثالی معاشرے کی عملی تصویر جاہ و منصب سے بے نیاز ہوکر شہریوں کو انسان ہونے کے معیار پر عزت اور وقار، حقوق کی فراہمی، مال، جان، عزت و آبرو کے محفوظ ہونے کے تصور سے ہی حقیقت میں ڈھلتی ہے۔ حکومت کا پہلا کام عوام الناس کے جان و مال کا تحفظ ہوتا ہے۔

حکمران مدینہ ریاست کی روشنی تو دکھلاتے ہیں مگر ان روشن روایات سے سبق نہیں سیکھتے جس نے مدینہ کی ریاست کو عدل وانصاف میں سب سے ممتاز کیا تھا امیر المومنین حضرت عمر ؓفاروق کا یہ فرمانا ”کہ اگر فرأت کے کنارے کتا بھی بھوک سے مر گیا تو مجھ سے سوال ہوگا۔“

خوف الٰہی و خوف آخرت کا واضح ثبوت ہے اور جس اسلامی ریاست میں حکومت خود ہی پولیس کے ہاتھوں عوام کا قتل عام ہوتا دیکھ کر تماشائی بنی رہے اور روک تھام کیلئے کوئی اقدامات نہ کرے تو ایسی ریاست کا خود کو ”اسلامی جمہوریہ“ کہلوانا بھی ایک سوالیہ نشان ہو گا۔

پاکستان تحریک انصاف نے اپنے انتخابی منشور میں پولیس اصلاحات کا نعرہ بلند کیا تھا۔ وزیراعظم عمران خان بار بار پولیس کو غیر سیاسی بنانے کا عہد کرتے رہے مگر ایسا اب تک نہ ہوسکا۔ ”غضب کیا تیرے وعدے پہ اعتبار کیا“۔

تحریر: حافظ محمد صالح

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے