تازہ ترین

محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبد القدیر خان

mohsin e pakistan dr abdul qadeer khan
  • واضح رہے
  • اکتوبر 10, 2021
  • 11:34 شام

قومی ایٹمی پروگرام کے بانی معروف سائنسدان ڈاکٹر عبد القدیر خان تمام سازشوں کا مقابلہ کرتے کرتے دنیا سے رخصت ہوگئے

پچھلے چند برس میں بڑے بڑے بزرگ ہمیں داغِ مفارقت دے گئے۔ عالم اسلام کے عظیم ہیرو، رشک پاکستان اور جوہری سائنسدان محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبد القدیر خان آج 10 اکتوبر 2021ء بروز اتوار کو 85 برس کی عمر میں داعیِ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ اللہ تعالی ان کی کامل مغفرت فرمائے اور اپنی خاص رحمتوں میں جگہ دے۔

یومِ تکبیر یعنی جس دن پاکستان دفاعی سطح پر ناقابل تسخیر بنا! اس موقع پر کیا گزشتہ 20 برس میں ہمارے کسی حکومتی نمائندہ نے ڈاکٹر عبد القدیر خان کو فون کرکے مبارکباد دی!! آج جب ڈاکٹر عبد القدیر خان ہم میں نہیں رہے تو ہر ایک سیاستدان، حکومتی نمائندہ اور وہ تمام جو ان کی لمبی قید میں برضا شامل رہے، وہ سب اظہارافسوس کا بیان دے کر فرض کفایہ ادا کر رہے ہیں۔

بھوپال چھوڑ کر اور پاکستان کو اپنا مسکن بنا کر بھارت کے مقابلے میں ایک ایٹمی قوت بنانے والا ہیرو جب گیا تو نجانے کیا کیا ادھورے خواب سجائے رخصت ہوا ہے! حقیقتِ حال یہ ہے کہ ڈاکٹر عبد القدیر خان جمہوری و غیر جمہوری قوتوں سے کافی نالاں نظر آتے تھے۔

ستم ظریفی دیکھئے کہ ہمارے حکمرانوں نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کیساتھ کیا سلوک کیا!! جب جنوری 2004 میں عبد القدیر خان کو امریکہ کی بش انتظامیہ نے جوہری پھیلاؤ کے ثبوتوں کے حوالے سے مشرف کو بریفنگ دی کہ ڈاکٹر قدیر نے یورینیم کے پھیلاؤ میں کردار ادا کیا تو عبد القدیر خان کو نہ صرف گھر میں نظر بند کر دیا گیا بلکہ اس وقت کے آرمی چیف و صدر پرویز مشرف نے ڈاکٹر قدیر سے کہا کہ الزامات تسلیم کر لیں، نہیں تو امریکہ کے حوالے کر دیا جائے گا۔

میر ظفر اللہ خان جمالی نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ مشرف نے اپنے ساتھیوں سے ڈاکٹر اے کیو خان کے خلاف یورینیم کے پھیلاؤ کے ثبوت مانگے تھے مگر وہ کہتے تھے کہ ایسے کوئی ثبوت نہیں۔ ان پر زبردستی چارج لگایا گیا تھا جس پر میں نے بحیثیت وزیر اعظم سائن نہیں کیے تھے۔

اندازہ لگائیں!! ان الزامات کے باوجود بھی ملک و قوم کی ساخت بچانے کے لیے ڈاکٹر اے کیو خان نے خود پر الزامات لے لئے اور اعتراف کر لیا۔ اس پاداش میں ڈاکٹر اے کیو خان تادمِ مرگ گھر پر نظر بندی میں چلے گئے۔

اپنے ادارے کے آر ایل کو بھی چھوڑنا پڑا اور اس پروگرام سے بھی الگ ہونا پڑا۔ حالانکہ 2019ء میں جب عدالت نے ڈاکٹر عبد القدیر خان کو آزاد شہری قرار دیا، تب بھی انہیں باہر آنے کی یا آزادانہ گھومنے کی اجازت نہ تھی۔

ڈاکٹر عبد القدیر خان کا فٹ پاتھ پر بیٹھ کر ایک معروف صحافی کو دیا گیا انٹرویو ہمارے سامنے ہے جس میں وہ عوام کی بے رخی اور حکومتوں کی مکاری کا رونا رو رہے ہیں۔ جب ان کا انٹرویو کیا گیا تو کوہسار مارکیٹ میں جگہ نہ ملنے کی وجہ سے مجبوراً کچرے کے ڈبے کے سامنے فٹ پاتھ پر بیٹھ کر ہی انٹرویو دیا۔

عبد القدیر خان کو پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کے پروگرام کا ’’باپ‘‘ کہا جاتا ہے۔ ہندوستان میں ایٹمی تجربات کے بعد جنوبی ایشیائی خطے میں توازن لانے کے لیے ڈاکٹر عبد القدیر نے پاکستان کو اس مقام پر پہنچایا جسے کبھی کوئی میلی آنکھ دیکھنے کی جراٗت نہیں کر سکتا۔

1951ء میں پاکستان سے ہجرت کرنے والے عبد القدیر خان نے مغربی یورپ کی ٹیکنیکل یونیورسٹیوں میں میٹالرجیکل انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ سے تعلیم حاصل کی جہاں انہوں نے دھاتی مرکب، یورینیم دھات کاری، اور گیس سنٹری فیوجز پر مبنی آسوٹوپ علیحدگی کے مرحلے میں تعلیم حاصل کی۔

1976ء میں خان ریسرچ لیبارٹریز (کے آر ایل) کی بنیاد پر ایٹمی ہتھیار تیار کرنے کی اپنی قوم کی خفیہ کوششوں میں شمولیت اختیار کی اور کئی سالوں تک اس کے چیف سائنسدان اور ڈائریکٹر رہے۔

ڈاکٹر صاحب سے پوچھا گیا کہ ’’آپ کسی سے ناراض ہیں؟ تو بتایا کہ عوام سے نارض نہیں ہوں، عوام تو بہت محبت دیتے ہیں۔ میں ملک فروشوں اور نمک حراموں سے نارض ہوں۔‘‘

ایک دوسرے سوال ’’کہ آپ کی خوشی کا اور غمزدہ لمحہ کون سا تھا؟‘‘ تو ڈاکٹر صاحب کہنے لگے کہ جب 6 اپریل 1998ء کو غوری میزائل فائر کئے اور پھر 28 مئی کو ایٹمی دھماکے کیے تو بے حد خوشی ہوئی اور غمزدہ لمحہ یہ ہے کہ جو میرے ساتھ ناروا سلوک کیا گیا وہ ناقابل برداشت تھا، اور جو لوگ خود غدار نکلے وہ ہمیں زندگی بھر غدار کہتے رہے۔

پاکستان کے ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبد القدیر خان پہلے پاکستانی ہیں جنہیں 3 صدارتی ایوارڈز سے نوازا گیا۔ ڈاکٹر صاحب کو دو بار نشان امتیاز اور ایک بار ہلالِ امتیاز سے بھی نوازا گیا۔ 10 اکتوبر 2021 کی صبح پھیپھڑوں سے خون بہنے اور دیگر پیچیدگیوں کی وجہ سے اسپتال میں داخل کرایا گیا جہاں وہ جانبر نہ ہو سکے اور خالقِ حقیقی سے جا ملے۔

انا للہ وانا الیہ راجعون

تحریر: شہزاد سلیم عباسی

 

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے