تازہ ترین

کراچی کو بجلی فراہم کرنے والی کمپنی۔۔۔۔ سابق واپڈا چیئرمین کی نظر میں!!

kesc ya k electic ex chairman wapda ki nazar main
  • محمد علی اظہر
  • جنوری 25, 2021
  • 10:40 شام

کے ای ایس سی جو اب کے الیکٹرک بن چکی ہے، میں سیاسی مداخلت اور اعلیٰ سطح پر مالی بے ضابطگیاں عروج پر رہی ہیں

یہ انکشاف واپڈا کے سابق چیئرمین لیفٹننٹ جنرل (ر) زاہد خان نے اپنی کتاب ’’جرنی تھرو ہسٹری‘‘ میں کیا ہے۔ ان کے مطابق کے ای ایس سی/ کے الیکٹرک عوام کو اچھی سروس فراہم کرنے والی کمپنی بن سکتی تھی، مگر یہ سیاست کی نذر ہوگئی۔ کمپنی میں ہونے والی کرپشن کا حکومت کو پوری طرح ادراک ہوتا تھا۔

پیپلز پارٹی دور میں وفاقی وزیر پانی و بجلی فاروق لغاری نے وزیر اعظم بینظیر بھٹو کو کے ای ایس سی کے منیجنگ ڈائریکٹر (ایم ڈی) کو مالی بے ضابطگیوں میں ملوث ہونے کی وجہ سے عہدے سے ہٹانے کو کہا۔ تاہم انہیں برطرف نہیں کیا گیا۔

واپڈا کے سابق چیئرمین نے اپنی کتاب جرنی تھرو ہسٹری کے باب ’’دی کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی‘‘ میں جو واقعات اور انکشافات کئے ہیں، ان کا ’’واضح رہے‘‘ کے قارئین کیلئے کیا گیا ترجمہ پیش خدمت ہے:

’’کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی (کے ای ایس سی) واپڈا چیئرمین کے ماتحت کام کرتی تھی۔ اس کا اپنا منیجنگ ڈائریکٹر تھا جو کے ای ایس سی بورڈ آف ڈائریکٹرز کا چیئرمین ہوتا تھا۔ کمپنی کے اس کی لیبر یونین کے ساتھ دائمی مسائل تھے، جس میں بہت زیادہ سیاست تھی۔

kesc ya k electic ex chairman wapda ki nazar main

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے رہنما فاروق ستار کے ای ایس سی بورڈ آف ڈائریکٹرز کے رکن تھے۔ کے ای ایس سی کے دفتر پر ڈائریکٹرز کی ایک میٹنگ ہونا تھی۔ لیکن اجلاس سے پہلے فاروق ستار نے مجھے کال کرکے کہا کہ اسے ملتوی کر دینا چاہئے۔ کیونکہ کے ای ایس سی لیبر فورس کے افراد ہزاروں کی تعداد میں دفتر کے باہر جمع ہو رہے ہیں اور انہوں نے عمارت کا گھیراؤ کرلیا ہے۔ وہاں جانا خطرے سے خالی نہیں ہوگا۔

میں نے فاروق ستار کو کہا کہ ہمیں لیبر یونین کے ڈراوے میں نہیں آنا چاہئے اور ان سے درخواست کی کہ وہ میرے ریسٹ ہاؤس آجائیں اور پھر میں انہی کے ساتھ کے ای ایس سی دفتر جاؤں گا۔

وہ پوری طرح مسلح دو باڈی گارڈ کے ساتھ تشریف لائے۔ میں نے انہیں قائل کیا کہ گارڈ کو ساتھ نہ لے کر جائیں اور انہیں ان کی حفاظت کی یقین دہانی کرائی۔

ہم کے ای ایس سی دفتر پہنچے تو لیبر یونین کے لوگوں نے ہماری گاڑی کو روک لیا اور مشتعل ہوگئے۔ میں نے ان کا غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی اور ان کے رہنماﺅں کو مذاکرات کیلئے مدعو کیا۔ میں نے انہیں کہا کہ ہم آپ کے مطالبات سے آگاہ ہیں۔ لیکن ان کی منظوری بورڈ میٹنگ کے بغیر نہیں ہوسکتی۔

میں نے انہیں یقین دلایا کہ ان کے تمام جائز مطالبات تسلیم کئے جائیں گے۔ لہٰذا انہوں نے ہمیں دفتر جانے دیا۔ بورڈ میٹنگ میں ان کے 6 مستند مطالبات میں سے 2 کو مان لیا گیا، جس سے صورت حال کی سنگینی کو کم کرنے میں مدد ملی۔

کراچی میں کچھ نو گو ایریاز تھے، جو زیادہ تر ایم کیو ایم کے مضبوط گڑھ ہوتے تھے۔ وہاں بڑے پیمانے پر بجلی چوری کی جاتی تھی اور کے ای ایس ای عملے کو میٹر چیک کرنے یا میٹر ریڈنگ کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔

میں نے بجلی چوری روکنے اس وقت کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ سے پولیس کی خدمات حاصل کرنے کی درخواست کی۔ انہوں نے کہا کہ یہ ممکن نہیں ہے، کیونکہ یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے۔ لہٰذا میں نے کے ای ایس ای کو ہدایت دی کہ مذکورہ علاقوں کی بجلی کاٹ دی جائے۔

میری منظوری کے بغیر نجی شعبے کا ایک امیدوار کے ای ایس سی کا منیجنگ ڈائریکٹر لگا دیا گیا اور وہ مالی بے ضابطگیوں میں ملوث ہوگیا۔ میں نے اسے تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ ایسی سرگرمیوں سے باز رہے۔
لیکن اس نے جواب دیا کہ اس نے نوکری حاصل کرنے کیلئے پیپلز پارٹی کی بڑی شخصیت کو 5 کروڑ روپے دیئے ہیں۔ میں نے اس حوالے سے اپنے بجلی و پانی کے وفاقی وزیر فاروق لغاری کو آگاہ کیا۔

فاروق لغاری نے وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کو سخت الفاظ میں ایک نوٹ لکھا۔ جس میں کہا گیا ”ہم نے ایک ایسے شخص کو کے ای ایس سی کا ایم ڈی لگایا ہے جو نہ صرف چور ہے بلکہ ڈاکو ہے۔ اسے فوری طور پر ہٹایا جانا چاہئے“۔ بہرحال کچھ ہوا نہیں۔

kesc ya k electic ex chairman wapda ki nazar main

میں نے کے ای ایس سی کے بڑے پاور پروجیکٹ کی فزیبلٹی رپورٹ کی تیاری کے سلسلے میں ایک غیر ملکی کنسلٹنٹ کی تقرری کی تھی۔ یہ منصوبہ ایشیائی ترقیاتی بینک کی منظوری اور مالی معاونت سے آگے بڑھنا تھا۔

کے ای ایس سی کے ایم ڈی نے میری اجازت کے بغیر ایشیائی ترقیاتی بینک کو بلیک لسٹڈ کنسلٹنسی فرم کو مقرر کرنے کیلئے خط لکھ دیا۔ میں نے فوری طور پر مداخلت کرکے بینک کیلئے ایم ڈی کے کارنامے کو سبوتاژ کر دیا۔

اس کے بعد مجھے وزیر خزانہ وی اے جعفری کی کال موصول ہوئی۔ انہوں نے مجھے کہا کہ اپنی ہدایت واپس لے لیں۔ میں نے انہیں بتایا کہ یہ خواہش پوری نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ مجوزہ کنسلٹنسی فرم اس کی اہلیت نہیں رکھتی۔

تاہم حکومت نے فیصلہ کیا کہ جعفری صاحب منیلا میں ایشیائی ترقیاتی بینک جاکر بینک کو کے ای ایس سی کے ایم ڈی کی تجویز کردہ کنسلٹسنی فرم کی توسیع کرنے پر قائل کریں گے۔ میں نے جعفری صاحب سے کہا نہ جائیں، شرمندگی اٹھانا پڑی گی، کیونکہ بینک یہ درخواست منظور نہیں کرے گا۔ بالکل ایسا ہی ہوا۔

1994ء میں جب پرائیویٹ پاور پالیسی مرتب کی گئی تھی اور فیصلہ کیا گیا تھا کہ بجلی کی انتظامی تقسیم کا معاملہ وفاق سے علیحدہ کردیا جائے گا تو کے ای ایس سی واپڈا سے الگ ہوگئی تھی۔

2005ء میں اس کی نجکاری ہوگئی اور یہ سعودی عرب اور کویت کے انویسٹرز کو دے دی گئی۔ 2009ء میں اسے ابراج گروپ کو فروخت کر دیا گیا جو بعد میں انتظامی معاملات میں انوالو ہوگئی اور اسے چلانے والے پھر تبدیل ہوگئے۔

ایک سہولت جو واپڈا کے ماتحت اطمینان بخش انداز میں پہنچائی جا رہی تھی۔ وہ سیاسی مداخلت کی وجہ سے اپنی سمت کھو بیٹھی۔‘‘

محمد علی اظہر

محمد علی اظہر نے ایک دہائی کے عرصے میں سب ایڈیٹنگ سمیت اسپورٹس اور کامرس رپورٹنگ میں اپنی صلاحیت منوائی ہے۔ وہ کراچی پریس کلب کے ممبر ہیں اور اردو نیوز ویب سائٹ "واضح رہے" کے بانیوں میں سے ہیں۔

محمد علی اظہر