تازہ ترین

عرب معاشرہ اور کردار نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

arab mashra aur kirdar nabi saww
  • ارسلان خالد سندھو
  • اکتوبر 28, 2020
  • 9:37 شام

اللہ تعالیٰ نے حضور اقدسؐ کو تمام جہاں کے لئے رحمت بناکر بھیجا۔ حضورؐ کی آمد سے قبل پوری دنیا شرک و بدعت، گمراہی اور معصیت و نافرمانی کے عمیق گڑے میں گہری ہوئی تھی

نبی اکرمؐ کی آمد سے پہلے دنیا میں انسانیت نام کی کوئی چیز نہ تھی لڑکیوں کو زندہ درگو کیا جاتا تھا۔ عورتوں اورغلاموں کے ساتھ جانوروں سے بھی بد تر سلوک کیا جاتا مرد و عورت بیت اللہ کا برہنہ طواف کرتے ایک خدا کو چھوڑ کر اپنے ہاتھوں سے تراشیدہ بتوں کی پرستش کی جاتی حتی ٰ کہ خانہ کعبہ میں اس مقصد کےلئے 360بت رکھے ہوئے تھے

فسق و فجور اور بدکاریوں پر ندامت و شرمندگی کے بجائے اس پر فخر کیا جاتا تھا ،شراب نوشی اور قمار بازی ان کا پسند یدہ و محبوب مشغلہ تھا حسب و نسب پر تفاخر کیا جاتاانتقام وکینہ پروری کو وصف خوبی سمجھاجا تا

،بعض و عداوت میں کوئی عار نہ ہوتی بتوں کے نام پر جانور ذبح کئے جاتے اور چڑھاوے چڑھائے جاتے زندہ جانور کا گوشت کاٹ کر کھایا جاتا ہر قبیلہ دوسرے قبیلہ کو کمتر اور ذلیل سمجھتا گھوڑدوڑ پر بازی لگا ئی جا تی سود لین دین عام تھا. معمولی معمولی باتوں پر لڑائی جھگڑے صدیوں چلتے گویا کہ دنیا تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی تھی ان حالا ت میں جبکہ ہر طرف انسانیت سسکتی اور دم توڑتی دکھائی دے رہی تھی.

حضوراقدس ﷺ دنیا میں رحمتہ للعالمین بن کر تشریف لاتے ہیں

اور عبداللہ کے گھر سے طلوع ہونے والے اس آفتاب و ماہتا ب کی روشنی سے پوری دنیا فیض یاب ہو نے لگی، آپ ﷺ کی آمد و تشریف آوری ایسی نعمت عظمی ہے کہ جس کو خدا تعالیٰ نے قرآن پاک میں مسلمانوں پر احسان عظیم سے تعبیر فرمایا ہے آپ ﷺسراپا رشدہ ہدایت اور قیامت تک آنے والے لوگوں کے لئے کامل نمونہ ہیں آپ ﷺ کے اسوئہ حسنہ میں دنیا و آخرت کی فلاح و کامیابی کو مضمرکر دیا گیا ہے۔

آپ ﷺ ابر رحمت بن کر انسانیت پر برسے اور ان کو کفر و شرک اور ضلالت و گمراہی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں سے نکال کر توحید و رسالت کی روشنی سے منور کیا ۔آپ ﷺنے انسانیت سے گری ہو ئی ایک ایسی قوم میں مثالی پاکیزہ اور باکردار روشن زندگی گزاری کہ جن کی بد اعمالیوں کی وجہ سے کوئی ان پر حکومت کر نا بھی اپنے لئے توہین و عیب سمجھتا تھا.

اس کی نقشہ حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے شاہ حبش نجاشی کے دربارمیں ان الفاظ میں کھینچا،اے بادشاہ سلامت !ہم بے دین اور کم علم تھے بتوں کی پرتش کرتے مردارکھاتے بے حیائی کے دلدادہ تھے اپنے بھائیوں پر ظلم ڈھاتے ہمسائیوں کو تکلیف پہنچاتے تھے ہم میں سے طاقت و کمزور پر ستم کیا کرتا تھا ہم میں انسانیت نام کی کوئی چیز موجودہ نہ تھی کوئی قاعدہ قانون نہ تھا اچانک ایک نور کی کرن چمکی اللہ رب العزت نے آخری پیغمبر ﷺ بنا کر مبعوث فرمایا جس کے حسب و نسب سچائی ،امانت و دیانتداری ،پاکدامتی ،تقویٰ و طہارت ،ہمدردی و پاکیزگی کو ہم خوب جانتے تھے

اور دریتیم نے ہم کو بتایا کہ ہم سب کا پروردگار ایک اللہ ہے اس کاکوئی شریک نہیں اور وہ ماں باپ اور اولاد سے پاک ہے وہ اللہ رب العزت ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ ہمیشہ رہے گا وہی سب کا خالق و مالک اور رازق ہے نفع و نقصان اس کے ہاتھ میں ہے یہ بت کسی چیز کے مالک نہیں ہیں ایک اللہ تعالیٰ کی ذات ہی سب کی حاجت روا اور مشکل کشا ہے اس کے ساتھ ساتھ حضور ﷺنے ہمیں یہ بھی ہدایت فرمائیں ہیں کہ ہمیشہ سچ بولاکرو اپنا وعدہ پورا کیا کرو حرام چیزوں اور بُری باتوں سے بچو،خون ریزی اور یتیم کا مال کھانے سے دور رہو کسی کانا حق ما ل نہ کھاﺅ اسی طرح پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانے سے منع کیا اور ساتھ ہی نماز پڑھنے کا حکم دیا روز ہ رکھنے اور زکوةادا کرنے کی تاکید فرمائی مہمان نوازی کا درس دیا ہم سب ان پر ایمان لائے اور ان کی اتباع کرتے ہوئے ان پر دل وجان سے فد ا ہوئے

۔اعلان نبوت سے قبل ہی آپ ﷺ صادق اور امین کے لقب سے پکار ے جاتے تھے لو گ آپ ٬ﷺ کے پاس امانتیں رکھواتے اور معاملات کے فیصلے کرواتے لیکن جب رحمتہ للعالمین ﷺنے اللہ تعالیٰ کے حکم سے اعلان نبوت کرتے ہوئے ان کو بتوں کی پرستش ترک کرکے ایک خدا کی عباد ت کرنے اور آپ ﷺ کی رسالت کی گواہی دینے کے بارے میں کہا تو یہی قوم جو آپ ﷺ کی پاک دامنی اور صدق و امانت کی قسمیں کھانے والی تھی وہی آپ ﷺ کے خلاف ہو گی پھر آپﷺ کے راستہ میں کانٹے بچھائے جانے لگے آپ ﷺ کو ہر طرح تنگ کرتے ہوئے ستایاجاتا طائف کے میدانوں میں آپ ﷺکو توحید کی دعوت دینے کی عوض پتھر ما ر مار کر لہو لہا ن کر دیا جا تا تھا ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہانے ایک مرتبہ آپﷺ سے سوال کیا کہ کیا آپ ﷺ پر ”احد“سے بھی زیادہ سخت کوئی دن آیا ؟

تو آپ ﷺ نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ سب سے زیادہ مجھے اذیت و تکلیف (کافروں) سے طائف کی گھاٹی میں پہنچی جس دن میں نے اہل طائف پر (دعوت و تبلغ کے لئے ) اپنے آ پ کو پیش کیا ۔

دعوت توحید دینے کے بدلے آپ ﷺ پر گندگی پھینکی جاتی اور آپکو مجنوں دیوانہ اور جادوگرتک کہا گیا آپ پر ایمان لانے کی وجہ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنا دیا جاتا ،شعب ابی طالب میں آپ ﷺ اورآپ کے جانثار صحابہ کرام رضی اللہ ؑ کو تین سال تک محصور کر دیا جاتا ہے آپ ﷺ کے ساتھ اس قید میں ام المومنین حضرت سید ہ خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا سمیت عورتیں بچے اور بوڑھے تک تھے آپ ﷺ کا مکمل مقاطعہ اور سوشل بائیکاٹ کر دیا جاتا ہے

کھانے پینے کی کوئی چیز بھی آپ تک اور آپ کے ساتھیوں تک نہ پہنچے دی جاتی تھی تاکہ یہ بھوک و پیاس سے تنگ آکر حضور ﷺ کا ساتھ چھوڑ دیں ۔دودھ پیتے بچے بھوک سے روتے بلکتے تو کفار خوش ہوتے ان مشکل ترین حالات میں بھی آپ ﷺ کے جانثار صحابہ اکرام ؑ نے جانثاری وفد کاری کی اعلیٰ اور بے نظیر مثال قائم کر تے ہوئے درختوں کے پتے چبا کر اور خشک چمڑے کو پانی میں بھگو کر نگل لیتے لیکن آپ ﷺ کا ساتھ اور ایمان کو نہیں چھوڑا حضور پا ک کو احد کے میدا ن میں زخمی کیا گیا آپ کے دانت مبارک شہید کیے گئے

آپ پر ایمان لانے کی پاداش میں حضرت بلا ل ؑحضرت خباب ؑاور یاسر ؑو عمارؑسمیت دیگر صحابہ اکرام رضی اللہ عنہم کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا گیا کفار ان کو گرم ریت اور دہکتے ہوئے انگاروں پر لٹا دیتے لیکن اس سب کے باوجود رحمتہ للعالمین نے بھی ان ظالموں کےلئے بد دعا نہیں کی بلکہ ہدایت کےلئے ہی دعا کی ان حالات میں بھی محسن انسانیت اپنے مشن کو زندہ اور جاری رکھتے ہیں مکہ کے لوگوں نے جب ظلم و تشدد کی انتہا کر دی تو آپ ﷺ نے خدا تعالیٰ کے حکم سے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کر جاتے ہیں مدینہ میں انصار نے حضور ﷺ اور ہجرت کرکے آنے والے صحابہ کرام کے ساتھ اخوت و محبت کا وہ بے مثال مظاہر ہ کیا کہ تاریخ انسانی اس کی نظیر وہ مثال پیش کرنے سے عاجز ہے۔اور پھر چشم فلک نے وہ منظر بھی دیکھا کہ جب آپ ﷺ اپنے دس ہزار جانثار صحابہ کرام ؑ کے لشکر کے ہمرا ہ اسی مکہ میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوتے ہیں جہاں سے آپ ﷺ اور صحابہ کو دس سال قبل ظلم و تشدہ کر کے نکالا جاتا ہے حضور ﷺ کے سر مبارک کی قیمت سو سرخ اونٹ مقرر کی گئی تھی لیکن یہ کیسا فاتح ہے اور کیسا انقلاب ہے نہ تو قتل عام کیا جارہا ہے اور نہ ہی فتح کا جشن منا یا جا رہا ہے آج انتقام فتح کا نشہ اور تکبرہ غرور نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی ’رحمتہ للعالمین‘اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرتے ہوئے عاجزی و انکساری کے ساتھ سواری پر اس قدر جھکے ہوئے ہیں کہ آپ ﷺ کا چہر ہ انور سواری کی پشت کے ساتھ ملا ہو ا نظر آتا ہے مکہ سے نکالنے والے خوف زدہ ہیں کہ آ پ ﷺ ان کے ساتھ کیا سلوک کر تے ہیں اور انتقام کا
کونسا راستہ اختیار کرتے ہیں ۔ان میں وہ بھی ہیں جنہوں نے آپ ﷺ کے راستے میں کاٹنے بچھائے تھے وہ بھی تھے جو آپ ﷺکے خون کے پیاسے تھے وہ بھی تھے جنہوں نے پتھر ما ر مار کا آپ کے جسم اطہر کو لہو لہاں کیا تھا وہ بھی تھے جنہوں نے آپ ﷺکے جانثار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر ایمان لانے کی پاواش میں ظلم و تشد کے پہاڑ توڑتے ہوئے جلتی ریت پر لٹا کر ان کے سینو ں پر وزنی پتھر رکھے تھے ان صحابہ کرام ؑکو دھکتے ہوئے کوئلوں پر لٹا یا گیا اور ان کے جسموں کو گرم سلاخوں کے ساتھ داغا کیا ان میں وہ بھی تھے جنہوں نے حضور ﷺ اور صحابہ کرام کو شعب ابی طالب کی قید میں درختو ں کی پتے اور کھال چبانے پر مجبور کر دیا تھا آج یہ سب بارگاہ رسالت ﷺ میں مجر م کی حیثیت سے کھڑے تھے آپ ﷺ نے ان سب پر نگاہ ڈالتے ہوئے پو چھا کہ جانتے ہو آج میں تمہارے ساتھ کیا معاملہ کرنے والا ہوں ؟بے بسی اور ندامت کے عالم میں ہر طرف سے ایک ہی رحم طلب صدا گونجی رحمتہ للعالمین ﷺ نے سب کے لئے معافی کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا کہ آج سے تم پر کوئی گرفت نہیں ہے جاﺅ تم سب آزاد ہو حضور ﷺ نے عام اعلا ن فرمایا کہ جو شخص بیت اللہ میں داخل ہو گا اس کو بھی امان ہے اور جو شخص حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ کے گھر داخل ہو گیا اس کو بھی امن دیا جائے گا جو شخص اپنے گھر کا دروازہ بند کررکھے گا اس کی بھی جان بخشی اور امان ہے اور جو شخص بغیر ہتھیار کے ملے گا اس کے لئے بھی امن ہے ہر کسی کو امان مل رہی ہے جو بھی آپ ﷺ کی بارگاہ میں آیا اس نے اپنے آپ کو مامون پایا۔

پھر حضور ﷺ کی بارگار میں بڑے بڑے دشمن اسلا م اپنے کفر سے تائب ہو کر دائر ہ اسلام میں داخل ہوکر آپ کو نور ایمان سے منور کرتے ہوئے نظر آتے ہیں جو فتح مکہ کے موقہ پر حضورﷺ کے انتقام کے خوف سے بھا گ رہے تھے وہ بھی آپ ﷺ کی شان رحمیی و کریمی اور معافی کے معاملے کو دیکھ کر اور سن کر اسلام کی دولت سے مالامال ہورہے تھے اس موقع پر ابو جہل کا بیٹاعکرمہ اور آپ ﷺ کے چچا سید الشھداءسیدنا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے والے و حشی بھی آپ ﷺ کے درگاہ میں حاضر ہوکر آپﷺ کے ہاتھ پر ایمان لاتے ہوئے صحابیت کے اعلی ٰ عہدہ پر فائز ہو کر حضرت عکرمہ اور حضرت و حشی رضی اللہ عنہ کہلاتے اور پھر رحمتہ للعالمین ﷺبیت اللہ میں داخل ہو کر 360بتوں کو توڑتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا کلمہ بلند کرکے حق کے آجانے اور باطل کے مٹ جانے کا اعلان کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ،چشم فلک نے پھر یہ منظر بھی دیکھا کہ جب مکہ کی گلیوں میں ایمان لانے کی پاداش میں ظلم و تشدد کا نشانہ بننے والے سیدنا حضرت بلال رضی اللہ عنہ حضور ﷺ کے حکم سے ’خانہ کعبہ ‘کی چھت پر چڑھ کے اذان دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت و کبریائی اور حضور ﷺ کی رسالت کا اعلان کرتے ہیں اللہ ہمیں اسوئہ حسنہ پر عمل پیرا ہونے اور حضور ﷺ کی سیرت و صورت اپنانے کی توفیق عطا فرمائیں آمین۔

ارسلان خالد سندھو

ارسلان خالد سندھو کالم۔نگار سکھیکی منڈی نمائندہ روزنامہ عام لوگ نیوز پیپر لاہور قلم سے جہاد

ارسلان خالد سندھو