تازہ ترین

چال بھول گئے ہم

chaal bhool gae hum
  • شاہد الرحمان
  • اکتوبر 28, 2020
  • 12:06 شام

مشرقی معاشرے میں تہذیب تمدن کی بڑی اہمیت ہے۔ لوگ تہذیب و روایات کے پابند ہوتے ہیں، لیکن گزرتے وقت کیساتھ ساتھ روایات میں جدت آ رہی ہے

مغرب سے متاثر ہو کر ہندو، مسلم  و دیگر مذہب کے لوگ اپنی روایات ترک کرنے لگے۔ اب مسلم گھرانوں کی ہی مثال لی جائے تو ماضی میں مسلمان خواتین پردے کے بغیر گھر سے باہر نکلنا معیوب سمجھتی تھیں۔ اب یہ روایت بھی دم توڑتی جا رہی ہے۔ خواتین مغربی معاشرے سے متاثر ہوکر برقعہ کو ترک کرنے لگی ہیں۔ حقوقِ نسواں کے نام پر انہیں شعائر اسلام سے دور کرنے اور ماڈرن بننے کی چاہ میں انہیں اپنی تہذیب اور روایات سے بھی ہاتھ دھونا پڑا۔ ان کا خیال تھا کہ ترقی کی دوڑ میں مغربی ممالک کی خواتین سے آگے بڑھنا ہے تو ان کے رنگ میں ڈھلنا ہوگا۔

پاکستان میں 1980ء کی دہائی میں خواتین میں برقعہ سے دوری کا رواج بڑھتا گیا کیونکہ اسی عرصے میں پاکستان میں خواتین کے پہناوے میں نت نئے فیشن آنا شروع ہوگئے۔ مردوں کی طرح خواتین بھی مختلف پیشے میں ملازمت اختیار کرنے لگیں۔ نوکری کرنے میں کوئی حرج نہیں، یہ اچھی بات ہے۔ مردوں کے ساتھ خواتین بھی معاشرے میں فعال کردار ادا کرنے کے لیے جدوجہد کریں، مگر انسان کو اپنی تہذیب و روایات کی بھی پاسداری کرنی چاہیئے اور انہیں یکسر فراموش نہیں کرد ینا چاہیئے۔

ہم مغربی طرز عمل اپنانے میں ایسے چل پڑے کہ پوری طرح مغربی معاشرے میں ڈھل بھی نہ سکے۔ ان کے اچھے کام نہیں اپنائے۔ بس اپنی خواہشات کی پیروی کرنے لگے اور درمیان کے ہوکر رہ گئے۔ یہاں میں یہ بھی واضح کرتا چلوں کہ برقعہ کو متروک کرنے میں مردوں کا بھی بہت عمل دخل ہے۔ بعض دفاتر میں روایتی مشرقی خواتین کو مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ انہیں دفاتر کی انتظامیہ کی جانب سے ہی ڈریس کوڈ ''درست'' کرنے پر زور دیا جاتا ہے۔ اسی لئے با پردہ خواتین کو ملازمت مشکل سے ملتی ہے۔

دفاتر میں استقبالیہ کے لیے ماڈرن لڑکیوں کی تلاش رہتی ہے اور اکثر مغربی لباس والی لڑکیوں کو استقبالیہ میں ملازمت ملتی ہے۔ برقعہ تو در کنار سر پر دوپٹہ رکھنے والی لڑکیوں کو استقبالیہ پر نہیں رکھا جاتا۔ دوسری جانب یورپ تک میں اسکارف پہننے والی خواتین کو استقبالیہ اور نیوز اینکر کی ملازمت مل جاتی ہے، لیکن ہم یورپ کے اس طرز عمل کو کیوں نہیں اپناتے۔

بات ہو رہی تھی فیشن کی تو معاشرے میں نت نئے فیشن آتے رہے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ سوٹ سے دوپٹہ بھی غائب ہوتا چلا گیا۔ یہ فیشن ٹی وی ڈرراموں، فلم اور میگزینز کے ذریعے عام ہوا، پھر مختلف برانڈ نے شلوار قمیض کے ساتھ دوپٹہ دینا ہی چھوڑ دیا۔ ٹو پیس متعارف ہونا شروع ہوگئے۔ دوپٹہ اوڑھنے والی خواتین کی مشکلات بڑھ گئیں، ان کو شلوار سوٹ کے ساتھ دوپٹہ الگ سے خریدنا پڑتا، جو کہ ان کی جیب پر ایک اضافی بوجھ ہے۔ برانڈ تو ٹو پیس میں ہی پوری قیمت وصول کرلیتا ہے اور متوسط طبقے کی خاتون کو ڈوپٹہ کیلئے الگ بجٹ بنانا پڑتا ہے۔

زمانہ بدلتا گیا برقعے کی جگہ عبایا نے لے لی، عبایا کو پردے کے ساتھ ساتھ فیشن کے طور پر بھی استعمال کیا جانے لگا۔ مختلف ڈائزین کےعبایا بازار اور مختلف بوتیک میں فروخت کیے جانے لگے۔ نوجوان لڑکیاں بھی بڑے شوق سے عبایا استعمال کرنے لگی ہیں۔ لیکن پردے کی غرض سے یہ کم ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ بس لالج، یونیورسٹی یا پھر بازار جانے کے لیے ہی رہ گیا ہے۔ بعض خواتین عبایا کو صرف اتوار بازار یا بدھ بازار جانے کے لیے استعمال کرتی ہیں، تاکہ کوئی عزیز رشتہ دار پرانی، سستی اور سیکنڈ ہینڈ چیزوں کی خریداری کرتے ہوئے نہ دیکھ لے۔

بعض لڑکیاں ٹیوشن سینٹرز جاتے ہوئے اس لیے عبایا استعمال کرتی ہیں کہ چلو پرانے کپڑے ہی ڈھک جائیں گے، نہایت ہی معذرت کے ساتھ یہ بات کہنے کی اجازت چاہتا ہوں کہ بعض لڑکیاں تو بوائے فرینڈ سے ملاقات یا ڈینٹنگ کے لیے بھی عبایا کا استعمال کرتیں ہیں، تاکہ غلطی سے بھی والدین یا بہن بھائیوں یا کسی عزیز و اقارب کی نظروں میں نہ آ جائیں۔ یہ عبایا ہی تو ہے جو سب کچھ چھپا لیتا ہے۔

دور حاضر میں پردے کا مفہوم بالکل تبدیل ہو کر رہ گیا ہے کچھ خواتین جو کہ مکمل شعائر اسلامی کے مطابق پردہ کرتی ہیں ایسے پردے کو زمانہ شرعی پردے کا نام دتیا ہے۔ میں ان لوگوں کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ پردہ کرنا شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم میں شامل ہے تو پھر ہم معاشرے میں پردے کو دو حصوں میں کیوں تقسیم کررہے۔ کیا ہم نے یہ سوچا ہے کہ اس طرح کہہ کر ہم شعائر اسلام کا مذاق ہی تو نہیں اُڑا رہے ہیں جب چاہا برقعہ یا عبایا پہن لیا اور جب چاہا اتار دیا۔ یہ مذاق نہیں تو اور کیا ہے۔ ہمارا مذہب ہمیں کوئی بھی جائز کام کرنے سے منع نہیں کرتا بس کچھ حدود کا تعین کر رکھا ہے، جس میں رہ کر ہمیں زندگی گزارنی ہے ہماری حدود کیا ہیں یہ میں اسلامی تعلیمات کا مطالعے سے معلوم ہوگا۔

شاہد الرحمان

بچپن سے ہی ریڈیو پاکستان سے منسلک رہا ہوں۔ کالج کے زمانے میں پرنٹ میڈیا سے وابستہ ہوکر عملی صحافت کا آغاز کیا۔ قیام پاکستان کی تحریک میں شامل کئی شخصیات کے انٹرویوز کا اعزاز حاصل ہے۔ گزشتہ برس ہی کالم نگاری کا سلسلہ شروع کیا۔

شاہد الرحمان