تازہ ترین

سکولوں میں کورونا کے حفاظتی اقدامات اور کچھ حقائق

  • وحید احمد
  • اکتوبر 1, 2020
  • 1:05 صبح

اسکول میں طلباء صرف 5 سے 6 گھنٹے گزارتے ہیں جبکہ دن کا بیشتر حصہ وہ اپنے گھر میں گزارتے ہیں، کیا ہم ان گھنٹوں کے دوران بچوں پر وہی پابندیاں نافذ کرنے کے اہل ہوں گے جو ہم اسکولوں میں کرواتے ہیں؟

کورونا کی عالمی وباء کے مہیب سائے جیسے ہی کرہ ارض پر پڑے کاروبار زندگی معطل ہوگیا اور ساتھ ہی تمام ممالک میں سکول، کالجز، یونیورسٹیز اور پرائیوٹ تعلیمی ادارے بند کردیے گئے۔ پاکستان میں ملک کے بیشتر گورنمنٹ اور پرائیوٹ تعلیمی ادارے 6 ماہ کی مسلسل بندش کے بعداب مرحلہ وار کھولے جا رہے ہیں، اب پرائمری سکول بھی کھل رہے ہیں۔ اس بات میں شک کی کوئی گنجائش نہیں کہ ملک کے بیشتر سرکاری و پرائیوٹ تعلیمی اداروں میں سیکنڈری کلاسوں کی نسبت مڈل اور پرائمری حصہ میں تعداد کہیں زیادہ ہوتی ہے۔اب جبکہ سکول باقاعدہ کھل گئے ہیں اور طلباء نے آناشروع کر دیا ہے تو گورنمنٹ، محکمہ صحت،محکمہ تعلیم اور دیگر تمام متعلقہ اداروں کو یہ بات سوچنے کی اشد ضرورت ہے کہ "کیا ہم تیار ہیں؟"

پرائیوٹ اور خاص طور پر حکومتی تعلیمی اداروں نے کورونا کی حفاظتی تدابیر پراساتذہ اور افسران بالا کی آن لائن تربیتی ورکشاپس کا انعقاد کیا تھا، ان ورکشاپس کا عملی فائدہ کہاں تک ہوا؟زوم یا گوگل کلاس روم پر دی جانے والی بیشتر ورکشاپس کو غیر متعلقہ لوگوں اور فیملی ممبرز نے حاصل کیا جن کا اس سے کوئی تعلق تک نہیں تھا تو کیسے توقع کی جا سکتی ہے کہ یہ لوگ بچوں کو احسن انداز میں حفاظتی اقدامات کی تربیت دے پائیں گے؟
حکومت پنجاب طلباء کو فری ٹیکسٹ بکس فراہم کرتی ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ آدھا نصاب انگریزی میڈیم مہیا کیا جاتا ہے جبکہ صوبہ بھر کے بیشتر سکولوں میں اردو میڈیم نصاب رائج ہے جسے بازار سے خریدنا طلباء پر اضافی معاشی بوجھ ہے ایسے میں طلباء کو کتابوں کے تبادلہ یا مل جل کر پڑھنے سے کیسے روکا جائے گا؟

بچوں اور خاص طور پر چھوٹے بچوں سے پورا دن ایک دوسرے سے 6 فٹ دور رہنے کی ہرگز توقع نہیں کی جا سکتی اس پر مستزادیہ کہ یہاں سینکڑوں پرائمری سکول صرف اور صرف ایک کمرے پر مشتمل ہیں، کیا گورنمنٹ اور متعلقہ تعلیمی اداروں نے زمینی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ سوچنے کی زحمت کی ہے کہ وہاں پر طلباء و طالبات کو سخت موسمی حالات میں 6 فٹ کے فاصلے کو مدنظر رکھتے ہوئے کیسے بٹھایا جائے گا؟
اساتذہ کرام دوران سکول ہر لمحہ بچوں پر نظر نہیں رکھ سکتے اور نہ ہی انہیں سماجی فاصلہ اختیار کرنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔چھوٹے بچوں سے سکول میں اس بات کی توقع بھی نہیں کی جا سکتی کہ وہ ہر وقت ماسک پہنے رکھیں گے،بچے ماسک کے ساتھ کھیلنے لگ جاتے ہیں جبکہ ایس او پیز کے تحت چیزوں کو یہاں تک کہ اپنے چہرے کو بھی بار بار چھونے کی ممانعت ہے۔چھوٹے بچے صرف چھ گھنٹوں کے دوران خود کو یاد دلانے کے قابل نہیں ہوتے کہ وہ ایک دوسرے کے قریب نہ آئیں۔سکولوں میں ایسے کمرے جہاں روشنی اور ہوا کی آمدورفت کا مناسب انتظام نہیں ہے وہاں ماسک اتارنا بھی پڑ سکتا ہے یہاں تک کہ بالغ طبی پیشہ ور بھی بریک لیتے وقت ماسک اتار دیتے ہیں جبکہ ایسے کمروں میں مسلسل ماسک لگا کر بیٹھنے سے بچوں کوسانس لینے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے یہاں تک کہ کچھ سکولوں میں دم گھٹنے سے بچوں کے بے ہوش ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔

اسکولوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ طلباء اور اساتذہ کے باہمی روابط کو فروغ دیں، جس کا مطلب قریب قریب رہناہے۔ ہمارے اسکولوں میں اتنی گنجائش نہیں ہے کہ وہاں طلباء کی سماجی دوری کو لاگو کیا جا سکے کیونکہ بیشتر سکولوں کا رقبہ انتہائی کم ہے اور ان کا بیشتر رقبہ بلڈنگ پر محیط ہے، گراؤنڈ یا کھلی جگہیں ندارد ہیں۔طلباء اور اساتذہ سے اپنے آس پاس کم از کم تین فٹ کا سماجی فاصلہ برقرار رکھنے کی توقع کرنا حقیقت پسندانہ نہیں ہے۔کلاس روم،دفاتر اور دوسری جگہوں کے دروازوں،ریلنگ،ڈائس اور ڈیسکوں بارے اس بات کی یقین دہانی کیسے کی جائے گی کہ بچوں یا سکول کے عملے نے دن بھراسے نہیں چھوا ہوگا؟

سکول ٹرانسپورٹ استعمال کرنے والے بچے اور اساتذہ بسوں میں سماجی دوری کیسے قائم رکھ سکتے ہیں کیونکہ بسیں اتنی بڑی نہیں ہیں کہ آسانی سے معاشرتی دوری کو ایڈجسٹ کر سکیں۔پبلک ٹرانسپورٹ،کیری،ہائی ایس یا رکشوں پر آنے والے طلباء وطالبات کسی بھی صورت میں سماجی دوری پر عمل نہیں کر سکتے کیونکہ گاڑیوں کے مالکان زیادہ پیسوں کے لالچ میں گنجائش سے کہیں زیادہ سواریاں بٹھاتے ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ میں چند انچ سے بھی کم کی دوری پر سفر کرنے والے طلباء اوراساتذہ کرام کو حکومتی ادارے یا محکمہ صحت کیسے اس بات کا سرٹیفیکیٹ دیں گے کہ ان بسوں میں کوئی بھی کورونا کا مریض نہیں تھا؟

اسکول میں طلباء صرف 5 سے 6 گھنٹے گزارتے ہیں جبکہ دن کا بیشتر حصہ وہ اپنے گھر میں گزارتے ہیں، کیا ہم ان گھنٹوں کے دوران بچوں پر وہی پابندیاں نافذ کرنے کے اہل ہوں گے جو ہم اسکولوں میں کرواتے ہیں؟کیا یہی پابندیاں گلی کوچوں، محلے اور بازاروں میں نافذ کی جا سکتی ہیں؟
ماسک پہننے کی ہدائیت حفاظتی تدابیر کے طور پر دی جاتی ہیں لیکن کیا یہی ماسک تعلیمی اداروں میں سیکیورٹی رسک کا باعث نہیں بنیں گے، سیکیورٹی پر مامور اہلکار کیسے جان پائیں گے کہ اندر داخل ہونے والاماسک پوش شخص سکول ملازم ہی ہے یا کوئی اور ہے؟بہت سے تعلیمی اداروں نے کووڈ 19 کے بعد اپنی تمام تر توجہ ماسک چیک کرنے اور ٹمپریچر گن کی طرف مرکوز کر دی ہے، آنے جانے والے اشخاص کی شناخت کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے، کسی بھی نقصان کی صورت میں ذمہ داران کا تعین کیسے کیا جائے گا؟

ان تمام حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ ضروری ہے کہ کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے بچنے کے لیے پہلے سے احتیاطی تدابیر اپنائی جائیں، اسکولوں میں سکاؤٹس کوکورونا کی حفاظتی تدابیر کی ٹریننگ دی جائے۔سوالات ہزاروں ہیں لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ بچوں اور اساتذہ کرام کی صحت کو اولین ترجیح دی جائے یہ نہ ہو کہ حکومتی پالیسیاں،عوامی محکموں کی غفلت یا محکمہ تعلیم کا کام کرنے کا طریقہ کار ہی بچوں کی صحت و تندرستی کی راہ میں حائل نہ ہوجائے۔

وحید احمد

وحید احمد کا تعلق میاں چنوں، ضلع خانیوال سے ہے، پیشے کے لحاظ سے استاد ہیں، ماسٹر ٹرینر بھی ہیں اور بطور کالم نگار ملکی اور علاقائی اخبارات و جرائد میں مختلف علمی، ادبی، حالات حاضرہ، قومی شخصیات اور قومی و بین الاقوامی طور پر منائے جانے والے دنوں کے بارے میں لکھتے ہیں،ان کے کالم مختلف ویب سائٹس پر بھی شائع ہوتے ہیں، اور اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک سماجی کارکن بھی ہیں۔

وحید احمد