تازہ ترین

فرشتہ صفت سیاستدانوں کی تلاش۔۔۔۔

سیاستدانوں کی تلاش
  • راؤ عمران سلیمان
  • اپریل 18, 2019
  • 12:32 صبح

ماضی میں مختلف حکومتوں کے دوران کابینہ کا حصہ رہنے والے پچاس فیصد لوگ اب دودھ کی دھلی حکومت میں اپنی اپنی گزشتہ سے پیوستہ ذمہ دارویوں کو ادا کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔

جنرل ضیاء الحق کی قیادت میں ایک کیبنٹ میٹنگ کے دوران تمام ملٹری ڈکٹیٹر، مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر سمیت بہت سے دوسرے لوگ بھی بیٹھے تھے، اس وقت جنرل ضیاء الحق نے اپنی ایک انوکھی خواہش کا اظہار کیا اور کہا کہ میرا خیال ہے کہ لوگوں کو ہم سے بہت سی شکایات ہیں کہ تمام پاور ہمارے پاس موجود ہے، اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ ایک ایسی باڈی ‘‘مجلس شوریٰ’’ کی ہو جس میں تمام صوبوں کے ایسے لوگ شامل ہو جس میں مندرجہ زیل خوبیاں ہوں جن کو دیکھتے ہوئے لوگ ان کی باتوں پر یقین کرسکیں۔ جنرل ضیاء الحق کے ہاتھ میں فرشتہ صفت انسانوں کی تلاش میں بنائی گئی ایک لسٹ موجود تھی اور اس محفل میں بیٹھے جنرلز کو جو گورنر بھی تھے کہا کہ اپنے اپنے صوبوں سے مجھے یہ لوگ تلاش کرکے دیں جن میں یہ تمام خوبیاں موجود ہوں۔ لسٹ میں لکھی پہلی خوبی یہ تھی کہ اس شخص نے کبھی شراب نہ پی ہو، نمبر دو کہ کبھی وہ آدمی غیر شرعی معاملات میں نہ پھنسا ہو اور نمبر تین کہ صوم و صلوۃ کا پابند ہو، اس حکم نامے کے ساتھ ہی جنرل ضیاء الحق نے کہا کہ مجھے یہ تمام خوبیوں والے آدمی تین ہفتوں کے اندر اندر چاہئیں۔

اس موقع پر جنرل ضیاء الحق کے ساتھ ہی بیٹھے جنرل فضل حق نے لب کشائی کی کہ جہاں تک میری لسٹ کا معاملہ ہے اس میں آپ تین ہفتے کی دیری کا انتظار نہ کریں بلکہ میں ابھی ہی آپ کو بتا دیتا ہوں کہ میرے صوبے میں ان تمام خوبیوں والا کوئی بھی بندہ موجود نہیں ہے، جنرل فضل حق نے کہا کہ آپ نے مجھے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنایا ہوا ہے ور میں گورنر بھی اور چیف منسٹر بھی ہوں تو کیا آپ نے مجھ میں یہ تمام خوبیاں دیکھ کر یہ سب کچھ بنایا تھا؟ جنرل فضل حق نے کہا کہ ان میں سے کونسا ایسا عیب ہے جو مجھ میں نہیں ہے پھر بھی آپ نے مجھے اس منصب پر فائز کیا ہوا ہے؟ جنرل فضل حق نے کہا کہ یہ جو آپ کی کیبنٹ میٹنگ بیٹھی ہوئی ہے اب زرا میں ان کا بھی تعارف کرواتا چلوں!! یہ جو فلاں صاحب بیٹھے ہیں ان میں کیا یہ تمام خوبیاں موجود ہیں؟ جنرل فضل حق صاحب جب باری باری باقی لوگوں کی طرف آنے لگے تو جنرل ضیاء الحق صاحب نے انہیں مزید بولنے سے روک دیا۔ وہ سمجھ گئے کہ یہ اب کسی کو نہیں چھوڑیں گے اور سب کا ہی ذکر خیر کرکے رہیں گے اور انہیں خاموش رہنے کا کہتے ہوئے کہا کہ فضلی فضلی تم کبھی سنجیدہ نہیں ہوتے۔

جن فرشتہ صفت خوبیوں والا سابق یا موجودہ عوامی نمائندہ ڈھونڈنے کیلئے جنرل ضیاء الحق صاحب بے چین تھے آج کل ایسا ہی لیڈر ڈھونڈنے کیلئے ہمارا میڈیا اور عوام بے چین دکھائی دیتے ہیں۔ فی الحال اس وقت تمام بدکرداریاں جس انداز میں آصف علی زرداری اور میاں نوازشریف کے نام سے لگائی جارہی ہیں اس پر سب کو ہی ایک اعتماد سا ہوچلا ہے۔ اور جس لسٹ کو جنرل ضیاء الحق نے اپنی خواہش کے مطابق تیارکیا تھا اس کی کابینہ شاید حکومتی بینچوں پر بیٹھی ہے، جو یقیناً سارے کے سارے دودھ کے دھلے سیاستدانوں پر مشتمل ہے جو اپنی مجلس شوریٰ کیلئے جنرل ضیاء الحق کو درکار تھی، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ شریف خاندان اور زرداری خاندان نے قومی خزانے کو نقصان نہ پہنچایا ہو مگر معاملہ ان دونوں خاندانوں کا ہی نہیں ہے بلکہ ان لوگوں کو بھی شامل تفتیش کرنا چاہیئے جو ان کی حکومتوں کے دوران ان کی کابینہ کا حصہ رہے اور جن میں سے پچاس فیصد سے زائد لوگ آج دودھ کی دھلی حکومت میں اپنی اپنی گزشتہ سے پیوستہ ذمہ دارویوں کو ادا کرنے میں لگے ہوئے ہیں ،جنرل فضل حق نے جس انداز میں ایک بڑے جنرنیل کے سامنے حق بات کہی تھی لگتا ہے آج پاکستان میں کوئی بھی ایک آدمی ایسا نہیں ہے جو اچھے اور برے سیاستدان کی تشریح اس انداز میں کرسکے۔

جنرل ضیا نے پاکدامنوں کی مجلس شوریٰ کا انتخاب اس لئے کرنے کی ٹھانی کہ ان کی نظر میں وہ لوگ عوام کو زیادہ اچھے طریقے سے سمجھا سکیں گے کہ عوام حکومت کیلئے جو سوچ رہے ہیں ایسا ہرگز نہیں ہے۔ جبکہ وہ لوگ جو صوبے میں بیٹھ کر عوام کی اصلاح کریں گے وہ لوگ نہ تو شرابی ہوں گے نہ ہی زانی اور بدکردار ہوں گے اور سب سے بڑھ کر صوم وصلوۃ کے مکمل پابند ہونگے اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اس زمین پر ایسے لوگوں کو ڈھونڈے تو کہاں جاکر ڈھونڈیں، کیا ہمارے منتخب ایوانوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جن پر بلکل ایسے ہی اعتبار کیا جاسکے کہ یہ سچے ہیں اور ہمارے لئے ہمیشہ حق گوئی کا راستہ اختیار کرتے ہوئے تمام وعدے پورے کر رہے ہیں جو انہوں نے انتخابات سے قبل کئے۔ یعنی ایک کروڑ نوکریاں پچاس لاکھ مکانات، قرضے سے نجات، مہنگائی نہیں کریں گے، اور ایک ایسی اسلامی ریاست کی طرز پر حکومت بنائیں گے جو مدینے کی ریاست کی طرز پر ہوگی۔ یعنی، کسی کم عمر حافضے قرآن کی بجائے فحش اداکارہ کو قومی اعزاز سے بھی نہیں نوازیں گے۔ 2013 میں 126 دن کا تاریخی دھرنا، پی ٹی وی پر حملہ اور اربوں روپے کا معاشی نقصان کس نے کیا، آج جب کوئی اور اس قسم کا مجمع اکھٹا کرنے کا کہتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ حکومت اس قسم کی سوچ والوں کو اسلام آباد میں کنٹینر بھی مہیا کرے گی، پوچھنا یہ ہے کہ تحریک انصاف کہتی ہے کہ پیپلزپارٹی اور ن لیگ اپنے لیڈروں کو سزاؤں سے بچانے کیلئے یہ سب کچھ کررہی ہے۔ اس وقت تحریک انصاف بھی تو اقتدار کیلئے ایسا کر رہی تھی۔ ایک منتخب حکومت، وزیراعظم پر کیا کیا دباؤ نہیں ڈالا گیا استعفیٰ کیلئے، اس لئے کہ وہ کرسی چھوڑے گا تو ہم اس پر بیٹھ جائیں گے، اگر وہ وزیراعظم اس وقت عوام کو کچھ دینے کے قابل نہیں تھا تو کیا آج آپ اس کرسی پر ڈلیور کر پا رہے ہیں، پوچھنا یہ ہے کہ وہ وعدے اب کب پورے ہوں گے؟ جو نوازشریف کو گھر بھیجنے اور اقتدار کیلئے عوام سے کیئے گئے۔ ایک سوال اور بھی بنتا ہے۔ مجرم نوازشریف اور زرداری ہی کیوں ہیں؟ کیا کبھی اس اسپیکر پنجاب اسمبلی سے سوال ہوگا جو اسی نوازشریف اور شہباز شریف کو اپنے کاندھے پر بٹھا کر داتا دربار کی حاضری لگوانے کیلئے آیا کرتے تھے، کیا کچھ سوالات ان حکومتی وزرا سے پوچھے جائیں گے جو ہر دور میں ہی پارلیمنٹ میں پہنچ جاتے ہیں جن کے کئی کئی ایکڑوں پر پھیلے گھروں کی آمدنی کا ذریعہ ہی حکومت میں رہنا بن چکا ہے۔

جہاں تک جنرل ضیاء الحق کی ایک نیک مجلس شوریٰ کا تعلق ہے اس میں شیخ رشید صاحب کی کم از کم غیر شرعی معاملات میں نہ پھنسنے والی خوبی موجود ہے، جن کے ہر فلسفے اور نہ پوری ہونے والی پیش گوئی کو الیکٹرونک میڈیا والے بریکنگ نیوز بناکر چلادیتے ہیں، کیا موجودہ حکمرانوں میں سے شراب نہ پینے والی صفت موجود ہے، کیا ہماری کابینہ میں سارے کے سارے ہی صوم وصلوۃ کے پابند ہیں؟ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر آخر جھگڑا کیا ہے؟ کیا مجرم صرف میاں نواز شریف اور آصف زرداری ہی ہیں یا ان کی لوٹ مار میں ساتھ دینے والے بھی برابر کے شریک ہیں۔ اگر ہیں تو وزیراعظم عمران خان صاحب آپ ان کو بھی پکڑیں اور شروعات حکومتی بینچوں سے کریں کیونکہ جو لوگ کل تک ان مجرموں کے ساتھی تھے ان میں سے بہت سے نہیں بلکہ بہت سارے آج آپ کے ساتھ ہیں۔

راؤ عمران سلیمان

راؤ عمران سلیمان