تازہ ترین

تعلیمی اداروں میں فزیکل ایجوکیشن کو فروغ دیا جائے

  • محمد قیصر چوہان
  • مئی 11, 2020
  • 7:43 شام

کھیل ان انسانی افعال کو کہا جاتا ہے جن میں جسمانی یا دماغی حرکت یا کچھ معاملوں میں دونوں طرح سے مشق بروئے کار لائی جائے۔

صحت مندانہ سر گرمیوں میں حصہ لینے سے انسانی دماغ کی نشونما ہوتی ہے اور انسان چاق و چوبند رہتا ہے۔بدقسمتی سے آجکل کے نوجوان کی توجہ کھیلو ں سے ہٹ گئی ہے اور کھیل کے میدان ویران ہوگئے ہیں جس کی ایک بڑی وجہ اسمارٹ فونز اور ویڈیو گیمز ہیں اپنے ارد گرد جہاں نظر دوڑ ا ئیں نوجوانوں کی انگلیاں اسمارٹ فون پر چلتی نظر آتی ہیں اسمارٹ فونز پر ان گیمز کا حصول بہت آسان ہوگیا ہے۔ یہ طرز زندگی ہمارے میدانوں کو غیر آباد کر کے گیم زون کو آباد کررہا ہے جس کے مضر اثرات صحت پر مرتب ہورہے ہیں کم عمری میں شوگر،دل کے امراض جنم لے رہے ہیں ایک جگہ بیٹھے رہنے سے نوجوان نسل میں موٹا پا پھیل رہا ہے۔ اس کے علاوہ ویڈیو گیمز ایڈکشن بھی ہورہی ہے پاکستان میں ویڈیوگیمز کھیلنے کی شرح میں اضافے کی ایک وجہ کھیلوں کے میدان نہ ہونا بھی ہے۔

ایک مثل مشہور ہے کہ ایک صحت مند جسم میں صحت مند دماغ پایا جاتا ہے اور ایک کمزور جسم کمزور دماغ کا مالک ہوتا ہے۔صحت مند جسم کیلئے ورزش کی ضرورت ہوتی ہے۔بغیر ورزش اور کثرت کے ہمارا جسم کسل مندی،سستی کاہلی اور کمزوری کا شکار ہوجاتا ہے۔ اگر آدمی کی صحت اچھی نہیں ہوگی تو پھرجسم بیماریوں کا گھر ہوگا،قدرتی بات ہے کہ وہ آدمی بے چین ہو گا اسے دماغی سکون حاصل نہ ہوگا۔ جب دماغی سکون حاصل نہ ہو گا تو ظاہر ہے کہ وہ آرام سے کچھ سوچ بھی نہیں سکے گا۔ اسی وجہ سے ہر انسان کو اپنی جسمانی اور دماغی صحت برقرار رکھنے کیلئے کوئی نہ کوئی کھیل ضرور کھیلنا چاہیے۔ایک اور مثل مشہور ہے کہ جس قوم کے میدان آباد ہوتے ہیں اس کے ہسپتال ویران ہوتے ہیں۔ اس لیے ہمیں آج کھیلوں کو رواج دے

کر اپنے میدان آباد کرنے کی ضرورت ہے تا کہ ہم اپنے طلبہ و طالبات کو صحت مند بنا سکیں۔جسمانی تعلیم اور مختلف قسم کے کھیل طلبہ کی ذہنی و جسمانی نشوونما کیلئے بے حد ضروری ہیں۔بچپن میں فطری طور پر بچے کھیل کود کے شوقین ہوتے ہیں، جس سے اُن کے اعضائے جسمانی کی ورزش ہوتی رہتی ہے، جو اُن کی بہتر نشوونما کا پیش خیمہ بنتی ہے۔ کھیل جہاں بچوں کی بہتر نشوونما میں معاون ہوتی ہے وہیں طلبہ کی کردار سازی اور نفسیاتی تربیت میں بھی مدد ملتی ہے۔ زمانہ قدیم سے ہی مختلف قسم کے کھیل اور صحت مندانہ سرگرمیاں سکولز میں کروائی جاتی رہی ہیں تاکہ بچوں کو صحت مند بنا کر مطلوبہ اہداف کا حصول ممکن بنایا جا سکے۔تحقیق سے یہ بات واضح ہے کہ صحت مند بچے ہی تعلیمی میدان میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس لیے تعلیمی اداروں میں فزیکل ایجوکیشن کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔

کھیل بچوں کا محبوب ترین مشغلہ ہی نہیں بلکہ زندگی کی علامت، صحت وعافیت کا ضامن، نشوونما میں معاون اور تعلیم وتربیت کا موثر ترین ذریعہ بھی ہے۔ اس کے برعکس باقاعدہ تدریس عموماً ان کیلئے بیگار اور ان کی طبع نازک پر گراں بار ہوتی ہے۔ لکھنے پڑھنے جیسے خشک کام سے ان کی فطرت اکتا جاتی ہے۔ اس لیے چھوٹے بچوں کو کھیل کھیل میں تعلیم دینے اور مدرسے کے مختلف کاموں میں کھیل کی اسپرٹ پیدا کرنے پر غیر معمولی زور دینا ضرورتِ وقت ہے۔ چھوٹی کلاسز میں بچوں کو ایک ہی جگہ بٹھا کر سارا دن کتاب پر توجہ مرکوز کروانا یا اس طرح کی کوئی دوسری سرگرمی کروانا، جہاں اْن کیلئے بوریت کا باعث بنتا ہے وہیں اْن کے دلوں میں سکول کے ماحول سے نفرت کا جذبہ بھی پیدا کرتا ہے۔

چھوٹے بچے ایک ہی جگہ بیٹھے رہنے سے ذہنی طور پرتھک جاتے ہیں جس سے موثر تعلیمی مقاصد حاصل نہیں کیے جا سکتے۔ چھوٹے بچوں کیلئے کھیل کھیل میں تدریس کروائی جانی چاہیے تا کہ وہ کھیل کھیل میں سیکھ سکیں اور نہ صرف اس سے وہ لطف اندوز ہوں بلکہ موثر تدریس بھی ہو سکے۔ چھوٹے بچوں کیلئے ہر سبق کے حوالے سے کوئی نہ کوئی کھیل پر مبنی سرگرمی ڈیزائن کی جائے کہ جس سے وہ مکمل طور پر تندہی سے حصہ لیں اور نتیجتاً کچھ نہ کچھ سیکھ سکیں۔جسمانی تعلیم اور کھیلوں کو بڑی کلاسوں میں خاص اہمیت حاصل ہے، کیوں کہ بڑی کلاسز میں بچوں کو صحت مند رکھنا اور زیادہ ضروری ہو جاتا ہے۔

اگر انہیں کھیلوں میں مشغول رکھ کر اور مقابلے کی فضا پیدا کر کے ان کی طاقت کو مثبت رْخ نہ دیا جائے تو وہ بے راہ روی کا شکار ہو کر اپنی صلاحیتوں کو برباد کر سکتے ہیں۔ اس لیے عمر کے اس حصے میں جہاں انہیں مثبت رہنمائی کی اشد ضرورت ہے، وہیں اْن کی صلاحیتوں کو مثبت رْخ دینے کیلئے کھیلوں کی ضرورت ہے۔ بڑی کلاسز کے کھیلوں میں فٹ بال، ہاکی، کرکٹ، باسکٹ بال،بیڈمنٹن، ٹیبل ٹینس اور اتھلیٹکس وغیرہ ہو سکتی ہیں، جن کا باقاعدہ انعقاد مثبت نتائج کا ضامن ہے۔کھیلوں سے بچوں کو حقیقی مسرت نصیب ہوتی ہے، ان کاغم غلط ہوتا ہے، ان کی الجھنیں اور پریشانیاں دور ہوتی ہیں، ان کے چہرے شگفتہ رہتے ہیں، ان کے جذبات کی تسکین ہوتی ہے اور بحیثیت مجموعی ان کی شخصیت کو ہم آہنگی کے ساتھ پروان چڑھانے میں بڑی مدد ملتی ہے۔ کھیلوں سے بچوں کو مندرجہ ذیل فوائد حاصل ہوتے ہیں۔جب ڈرامائی کھیل کھیلے جاتے ہیں جس میں بچہ کوئی بھی کردار ادا کرتا ہے تو وہ اس کے مطابق خود کو ڈھالتا ہے اور بولنے کی کوشش کرتا ہے اس سے اس کی زبان دانی میں اضافہ ہوتا ہے۔

کھیل کھیلتے ہوئے بچہ لفظوں، آوازوں اور جملوں کی مشق کرتا ہے اور کھیل میں ہی گرائمر سیکھتا رہتا ہے۔کھیلوں میں جسم کوکافی حرکت دینی پڑنی ہے اور جسمانی محنت ومشقت کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اس لیے سانس کی آمدورفت، دوران خون، نظام انہظام اور نظام اخراج وغیرہ میں باقاعدگی رہتی ہے، اعصاب اور عضلات پر کنٹرول حاصل ہوتا ہے اور اعضا اپنی اپنی جگہ ٹھیک کام کرتے ہیں۔ محنت ومشقت کیلئے جسم میں توانائی اور امراض کامقابلہ کرنے کیلئے قوت مدافعت پیدا ہوتی ہے۔ بحیثیت مجموعی صحت ٹھیک رہتی ہے اور نشوونما اور بالیدگی میں بڑی مدد ملتی ہے۔کھیلوں میں بچوں کو مختلف قسم کے حالات اور طرح طرح کے ہم جولیوں سے واسطہ پڑتا ہے۔

ان سب سے نمٹنے کے لیے انہیں سوچنے سمجھنے اور ہروقت فیصلہ اور اقدام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ توجہ اور انہماک کی تربیت ہوتی ہے۔ تجربات ومشاہدات میں اضافہ ہوتا ہے۔بچہ جب کھیلتا ہے تو اسے زبانی یا اشاروں کی مدد سے دوسروں کے ساتھ رابطہ رکھنا پڑتا ہے۔ اس طرح کرنے سے اسے دوسروں کی سوچ کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے۔جب کھیل میں بچوں کے درمیان اختلاف پیدا ہوتا ہے تو دوسروں کے نقطہ نظر کی اہمیت کااندازہ ہوتا ہے۔ اجتماعی کھیلوں کے ذریعے بچے اپنے ہم جولیوں کے ساتھ تعاون و ہمدردی، قاعدوں، ضابطوں کی پابندی، مقابلہ ومسابقت میں اعتدال، اطاعت وقیادت اور دھاندلیوں کامقابلہ اور اپنی باری کاانتظار کرنے کی تربیت حاصل کرتے ہیں۔ ہم جولیوں کاپاس ولحاظ کرنا، لاقانونیت کی حد تک بڑھتی ہوئی آزادی کو دوسروں کی خاطر محدود کرنا اور اپنی خواہشات اور ذاتی دلچسپیوں کو اجتماعی مفاد پر قربان کرنا بھی وہ منظم کھیلوں کے ذریعے سیکھتے ہیں۔

محمد قیصر چوہان

سینئر صحافی،مصنف اورنیشنل وانٹرنیشنل امور،سپورٹس سمیت دیگر موضوعات پر لکھتے ہیں جبکہ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے انٹرویوز بھی کرتے ہیں۔

محمد قیصر چوہان