تازہ ترین

خلافت عثمانیہ کا عروج، زوال اور خاتمہ

  • ڈاکٹر وقار ربانی
  • مئی 8, 2020
  • 11:05 صبح

عروج 1299ء - 1453ء توسیع 1453ء - 1683ء جمود1683ء - 1827ء زوال 1828ء - 1908ء خاتمہ1908ء -

1922ء  خلافت عثمانیہ کا خاتمہ اور جنگ عظیم اول کے بعد ترکوں کے ساتھ زبردستی کا سو سالہ معاہدہ 2023کو ختم ہورہا ہے جو کہ خوش آئند ہے اور اس سے پہلے ہی ترک نے اپنی کھوئی ہوئی شاندار تاریخ کو ڈرامے کی شکل میں پیش کرکے نا صرف اپنی بھٹکی ہوئی قوم کو جگانے کی کوشش کی ہے بلکہ عالم اسلام کے علاوہ بھی اس شاندار تاریخ پر بنے ڈرامے نے پوری دنیا میں ہنگامہ برپا کیا ہوا ہے۔جس میں خلافت عثمانیہ کے عروج سے خاتمے تک تمام پہلووٗں کو بڑی خوبصورتی سے دکھایا گیا ہے کہ کس طرح اور کتنی قربانیوں کے بعد اللہ کی مدد سے سلطنت عثمانیہ کی بنیاد پڑی۔

عروج،زوال اور حتٰی کہ 600سال پر مبنی شاندار سلطنت کا خاتمہ کس طرح سے دشمنوں نے مختلف قسم کی سازشوں سے کیا،اور اس کے بعد جنگ عظیم اول کے فاتحین نے ترکوں کو معاہدہ لوزان سے کس طرح اور کس قدر اپاہج کردیا گیا تھا۔(جنگ عظیم اول جس میں ترک جرمنی اتحاد کے باوجود ناکام رہا) جس کے بعد جنگ عظیم اول کے فاتحین نے ترکوں کے ساتھ معاہدہ لوزان طے کیا تھا۔معاہدہ لوزان 24جولائی 1923ء ؁ کو سوئٹزلینڈ کے شہر لوزان میں طے پایا تھا معاہدے کے تحت سب سے پہلے خلافت عثمانیہ کا خاتمہ اور سلطان کو جلاوطن کرنا تھا، اس کے علاوہ  یونان،بلغاریہ اور ترکی کی سرحدیں متعین کی گئی اورقبرص،عراق اور شام پر ترکی کا دعویٰ ختم کرکے دونوں ممالک کی سرحدوں کا تعین کیا گیا اس معاہدے کی رو سے خلافت عثمانیہ ختم کردی گئی تھی اور ترکی کے تین براعظموں میں موجود خلافت کے اثاثوں اور املاک سے بھی دستبرداری احتیار کرلی،معاہدہ لوزان 100سال پر محیط تھا جو دراصل ترک عوام اورمسلمانوں کے خلاف اسلام دشمنوں اور مسلمان دشمنوں کا ایسا خطرناک پھندا تھا جس نے خلافت عثمانیہ کا شاندار دور ختم کردیا تھا، برطانیہ نے بہت ہی خطرناک اور ظالمانہ شرائط معاہدہ لوزان میں شامل کروائی تھیں جن کی رو سے ترک قوم کے ہاتھ باندھ دئیے گئے تھے اور اس معاہدے پر عمل درآمد کا پابند قرار دیا گیا تھا جن کی شرائط مندرجہ ذیل ہیں۔

1۔معاہدہ لوزان کی رو سے خلافت عثمانیہ کا خاتمہ اور سلطان کوخاندان سمیت ملک سے جلاوطن کردیا گیا تھا۔

2۔خلافت کے تمام مملوکات ضبط کرلی گئی تھیں جن میں سلطان کی ذاتی املاک بھی شامل تھیں۔

3۔ترکی کو ایک سیکولر ملک قرار دیتے ہوئے دین اسلام اور خلافت سے اس کے تعلق پر قدغن لگادی گئی۔اور اس کا باقاعدہ اعلان کیا گیا تھا۔ترکی پٹرول ڈرلنگ نہیں کرسکے گا اور باہر سے امپورٹ کرئے گا۔

4۔باسفورس عالمی سمندر شمار ہوگا اور ترکی یہاں سے گزرنے والے کسی بحری جہاز سے کسی قسم کا ٹیکس وصول نہیں کرسکے گا۔(جبکہ یہ عالمی تجارت میں ریڑھ کی حیثیت رکھتا ہے)

اب اگر معاہدے کی تمام شرائط کو دکھا جائے تو اسلام دشمن قوتوں نے یہ سب اس لئے کیا تھا اور کررہے ہیں کہ انہیں خلافت سے ڈر تھا،ہے اور رہے گا۔اس لئے انہوں نے کس چالاکی سے خلافت عثمانیہ کے اندر جاسوسوں کے ذریعے کتنی بڑی مدت تک مسلسل کام کرتے رہے اور آخرکار 600سال پر مبنی شاندار سلطنت کو ختم کردیا گیا بلکہ صرف سلطنت کو ہی نہیں بلکہ تاریخ ِ خلافت کو ہی مسلمانوں کی زہنوں سے اُجھل کردیا گیا ہے۔کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس طرح اگر ہم محض سلطنت کو ختم کردیں گے تو پھر کوئی اور مجاہد اسلام اُٹھ کر دوبارہ بنیاد رکھ دیگا، انہوں نے وہی کیا جو ایک ہوشیار دشمن کرتا ہے انہوں نے ترک قوم کے اندر سے ان کی تاریخ ہی اُجھل کردی گئی تھی، اور انہیں اندازہ تھا کہ 100سالوں کے اندر ان کی نسلوں تک کبھی بھی ان کی تاریخ نہیں پہنچے گی اور بالکل ایسا ہی تھا ترک ایک سیکولر ملک بن چکا تھا جہاں پر اسلامی احکامات کی بات کرنا بھی دشوار ہے ان کی فوج سیکولر،عوام سیکولر،حکومت میں بیٹھے لوگ سیکولر مطلب کہ اسلام دشمن اپنی ہر چال میں کامیاب رہے اور یہ صورتحال نا صرف ترکی کی ہے بلکہ عالم اسلام کی ہے، تمام عالم اسلام میں ان کی سازشیں چل رہی ہیں نوجوانوں کو تلوار کی جگہ ڈھول باجا تھمادیا گیا ہے،جنگ میں لڑنے کی بجائے وہ ناچ رہا ہے۔۔۔

خیر۔۔۔۔اسلام دشمن قوت اپنی چال جبکہ اللہ عزوجل بھی ایک چال چلتا ہے اور بے شک وہ ہر چیز پر قادر ہے، انہیں حالاتوں میں جہاں پورا عالم اسلام دشمنوں کی ذد میں ہے اور یہ اسلام کے دشمن ہر طرف سے ہم پر وار کئے ہوئے ہیں اور پھر دُکھ کی بات تو یہ تھی کہ ہماری نوجوان نسل جو کبھی تلوار اور بہادری سے پہچانی جاتی تھی آج محض تماشہ بنا ہوا ہے، اُسے کوئی خبر نہیں،اُسے نا اپنی تاریخ کی خبر،نا اپنی بقاء کی فکر اور نا اسلام کی سربلندی کی خواہش،مطلب کہ ہر طرف مغرب کے بے پناہ جال بچھے ہوئے ہیں، ایسے میں جہاں پر ترک معاہدہ لوزان کے خاتمے سے محض 2سال پیچھے ہیں، اپنی 100سال قبل شاندار سلطنت ِ عثمانیہ کی تاریخ کو ایک ڈرامہ سیریل کی شکل دیکر  اپنی بھٹکی ہوئی قوم کو راہ راست پر لانے کی کوشش کے ساتھ ساتھ اپنی تاریخ بھی یاد دلادی، اپنے جوانوں کو ناچ گانے کی بجائے تلواریاد دلادی بلکہ ترکی کے ساتھ ساتھ عالم اسلام میں بھی اس جاندار تاریخ نے جوانوں کے اندر ہلچل مچادی ہے۔

پاکستانی گورنمنٹ نے بھی اس تاریخی ڈرامے کو اردو ڈبنگ کے ساتھ پی ٹی وی پر چلادیا ہے جو کہ ایک قابل تحسین اقدام ہے کیونکہ اس ڈرامے کی افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔بلکہ پاکستانی ڈرامہ نگار وں کو بھی چاہیئے کہ وہ مسلمانوں کی کھوئی ہوئی شاندار تاریخ کو آج کے جوان کے سامنے رکھ دے۔کیونکہ دنیا میں وہی قومیں ترقی کرتی ہیں جن کو اپنی تاریخ یاد ہو اور ہماری تو بقاء ہی اسی میں ہے کہ ہم اپنی تاریخ کو سینوں میں زندہ رکھیں۔

ڈاکٹر وقار ربانی

میں بنیادی طور پر میڈیکل فیلڈ سے منسلک ہوں ، پبلک ہیلتھ آگاہی / شعور پیدا کرنے کیلئے ہیلتھ پر کمیونٹی میں کام کرنے کے ساتھ ساتھ آرٹیکلز بھی لکھتا ہوں ، اس کے علاوہ اردو ادب میں خاصی دلچسپی ہے ۔

ڈاکٹر وقار ربانی