تازہ ترین

بہروپیوں،ڈھونگیوں اور نیم ملاوں سے بچیں

  • محمد عدنان کیانی
  • مئی 6, 2020
  • 4:03 صبح

پاکستان بننے سے آج تک ان نیم حکیموں اور نیم ملاؤں نے ملک کا تو بیڑا غرق کر ہی دیا ہے بدبختوں نے ہم گناہگاروں کی عاقبت برباد کرنے کی کوششوں میں بھی کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔

پرانےزمانے میں ایک بہروپیا تھا۔وہ بادشاہ کے دربار میں گیا اور بادشاہ سے کچھ انعام چاہا۔بادشاہ نے اسے  بھگادیا کہ جاو کام کرو کوئی انعام و اکرام  نہیں ۔اسنے کہا بادشاہ سلامت میں ایسی  مہارت رکھتا ہوں کہ آپ خود  میرے دروازے پر آئینگے اور  ہدئیے بھی پیش کرینگے۔ بادشاہ نے کہا ایسا کر کے دکھاؤ   ہم تمھیں مان جائیں گے اور انعام بھی دینگے۔بات آئی گئی ہوگئی۔کچھ عرصے  بعد شہر میں ایک بزرگ  کی شہرت ہونے  لگی  کہ جو ان کے پاس جاتا  ہے  فیضیاب  ہوتا ہے۔بزرگ کی شہرت محل   اور حرم  محل تک جاپہنچی۔ ہر کوئی ان بزرگ کی کرامات  کے گن گانے لگا۔بادشاہ نے سنا تو  کہلا بھیجا کہ میرے دربار میں تشریف لائیں۔بزرگ نے  پیغام لانے والے کو  جھاڑ پلادی کہ جاؤ  ہم  بادشاہوں کے درباروں میں حاضریاں  دینے والے  نہیں  جسے کام ہے وہ خودچل کر  آئے۔بادشاہ اور مرعوب ہوگیااور قدم بوسی  کیلئے  خود حاضرخدمت  ہوا۔

ملاقات ہوئی  بزرگ  کی  بات چیت، رہن سہن اور جبے قبے سے مزید گرویدہ ہوگیا  اور ایک دینارو اشرفیوں  سے  بھری  تھیلی نظر کرنی چاہی۔ مگر  بزرگ  نے ڈانٹ پلادی کہ ہم کسی سے ہدئے نہیں  لیتے ۔بادشاہ  اب مزید  مرعوب   اور  بزرگ کا مرید ہی  ہوکر واپس لوٹا۔اگلے دن وہی بغیر انعام و اکرام محل سے  نکال دئیے  جانے والا بہروپیا آیا اور  بادشاہ  سے کہا لائیے میراا نعام دیجئے۔بادشاہ نے کہا تم  نے کہاں  ہمیں  بیوقوف  بنایا، کہاں  ہمیں بلایا اور ہدئیے لئے۔بہروپئے نے کہا جناب کل جس بزرگ کی آپ قدم بوسی  کرکے آئے ہیں  وہ  میں ناچیز ہی تھا۔بادشاہ  بڑا حیران و متاثر ہوا کہ روپ  بدلنا تو کوئی تم سے سیکھے اور ساتھ ہی پوچھا کہ کل تمھیں اتنی عزت و اکرام سے انعام سے کہیں زیادہ

اشرفیاں   پیش کررہا تھا وہ  نہیں لیں اور آج انعام لینے آگئے اس کی وجہ؟ بہروپئے  نے کیا کمال بات کہی  قابل غور ہے ۔ کہنے  لگا بادشاہ سلامت اس وقت میں بزرگوں ، علماٗ اور اللہ والوں کے بھیس میں تھا اگر اس حالت میں ہدیہ لےلیتا تو اللہ کا دین اور یہ امت کے پاکیزہ ترین لوگ بدنام ہوتے  کہ کسی عالم یا بزرگ نے  ایسا ڈھونگ  کیا جو مجھے گوارا  نہیں ہوا۔بہروپیا اور ڈھونگی ہوں مگر کافر  نہیں ۔علما  کے پاک دامن  پر داغ  نہیں لگانا چاہتا،دین بدنام  نہیں  کرسکتا۔دین و علما کی قائم صدیوں  کی   پاکیزگی و پاک دامنی   پر آنچ  نہیں آنے   دی جاسکتی۔کیا کمال کا انسان تھا۔پہروپیا ہو کر بھی دل سے سچا مومن تھا۔دین کا معاملہ بڑا نازک اور ڈرنے کا  ہے۔

نیم ملا ،نیم حکیم سے کہیں زیادہ جان  لیوا،   نقصان دہ اور  خطرناک  ہوتا ہے۔نیم  حکیم تو  بدن  کو بیماری یا  موت  تک پہنچادیتا  ہے اور بدن   کی انتہاٗ  بھی یہی  ہے کہ  اسے ایک  نہ ایک دن  بالآ خر  مٹی ہوہی جانا ہے۔ موت  ایک  اٹل حقیقت ہے ۔ اس  کے مقابلے میں نیم ملا دنیا و آخرت دونوں ہی  تباہ و برباد  کردیتا  ہے کیونکہ وہ روح کو بیمار و مردہ  کردیتا  ہے  جس روح نے اب  کبھی  ختم  نہیں ہونا اور موت کے بعد  ہمیشہ کی زندگی  کی طرف لوٹ  جانا ہے۔اگر وہ ہمیشہ کی زندگی برباد ہوگئی تو  سمجھیں  حقیقی تباہی وبربادی  ہوئی ہی یہ ہے۔ایک  نیم

حکیم  نے ایک واٹس ایپ گروپ پر مولانا طارق جمیل صاحب کو نشانہ بناتے ہوئے ایک انتہائی اخلاقیات سے عاری اور غیر معقول تحریر شئیر کی۔تحریر اس قدر نامعقول تھی کہ ناصرف مجھے بلکہ گروپ پر موجود بہت سے افراد  کو اس سے تکلیف  پہنچی۔مولانا طارق جمیل  صاحب سے کوئی  جزئی اختلاف  تو  ہوسکتا ہے  مگر یہ  بات بھی مسلم ہے  کہ انکی تبلیغی  محنت  سے کئی نافرمان و کافر اللہ کریم کے مطیع ہوئے  جن میں بڑے  بڑے پبلک فگرز اور میڈیا انڈسٹری سے وابستہ افراد  حتی کہ فلموں ، ڈراموں کے نامور نام بھی شامل ہیں ۔مگر علما ٗ کرام  سے بغض

و عناد  اور دراصل دین اسلام  سے ہی  دلوں  میں عناد و نفاق سنبھالے ، اسلام  کیخلاف  اعتراضات اٹھاتے علم و اخلاق  سے عاری کم بخت  ہر دور میں ہی موجود رہے ہیں  جنکی   پوری فوج خصوصا اس دور حکومت میں نکل آئی ہے۔جن کا مقصد ہی کوئی نہ کوئی بات بناکر مذہب اور مذہب کے مقتدا علماٗ کرام  پر عوام و سوشل میڈیا  میں طعن و تشنیع  اور اعتراضات  اٹھاتے رہنا اور سادہ لوح مسلمانوں کو ان کے مذہب سے بیزار کرنا ہے۔الگ بات  ہے کہ ہر دور میں ان کے مقابلے  کیلئے اللہ کے  نیک بندے ہر شعبے میں ہی موجود رہے ہیں  جن کا ان مرد مجاہدوں نے خوب تعاقب کیا اور آج بھی  ایسے فتنوں پر نظر لگائے ان کے حملوں کو ناکام  بنانے کیلئے تیار بیٹھے ہیں ۔

یہ موصوف  بھی اسی طرح  مولانا طارق جمیل صاحب کے نام پر تمام علماٗ کرام اور پھر مدارس و مساجد کیخلاف انتہائی رکیک ، غیر معقول اور موقع و محل  سے قطعا بےنیاز الزامات  کی بارش اتنے  بھونڈے اور غیر اخلاقی انداز میں  کرنے لگے کہ اولا ان  کی عقل  گم پر  ترس آیا  مگر غصے کو بھی انتہائی مشکل سے قابو میں رکھ کر ان سے چند سوا ل   کئے، کچھ ثبوت مانگے تو جناب کچھ گھنٹوں میں  ہی صرف مغلظات سے نوازنے کی  دھمکیوں پر اتر آئے۔جناب کا کہنا تھا کہ مولانا سمیع الحق شہید ؒ کی شہادت میں انکا اپنا خادم لڑکا ملوث تھا جس سے ان کے غلط تعلقات تھےاوران کےکمرے میں شراب کی بوتلیں  ملی تھیں۔ان کے  بقول وہ اسکے چشم دید گواہ ہیں۔ بات چلی تو فرمانے لگے میں

صحافی ہوں اورمولانا طارق جمیل نے سب میڈیا کو برا کہا ہے ہم بھی اب کہنے کا حق رکھتے ہیں ۔پھر کہنے لگے مساجد و مدارس میں فنڈز خرد برد ہوتے ہیں، لڑکیوں کے ریپ ،  بچوں سے بدفعلیاں کی جاتی ہیں ۔موصوف لکھتے اور کہتے جارہے تھے اور ان کا خبس باطن تمام گروپ ہی محسوس کررہا تھا۔خود کو سنبھال کر اب اس ڈھونگی بقراط کا پردہ فاش کرنا ضروری تھا اسلئے میں نے ان سے پوچھا کہ جناب آپ  اکیلے مولانا طارق جمیل صاحب سے بھلے اختلاف کریں مگرتمام علماٰ و مدارس و مساجد کے پیچھے کیوں پڑے ہیں ۔ آپ نے جو الزامات لگائے ہیں ان کے ثبوت بھی فراہم کردیں ۔فرمانے لگے میرے پاس تصاویر ہیں ۔چشم دیدگی یہی تھی انکی۔پوچھا آپ اکیلے کی گواہی کیسے مان  لیں تو جواب کے بجائے مولویوں کے حامی ہونے کے طعنے کسنے لگے۔پوچھا بتائے کس میڈیا سے وابستہ ہیں، میں تو خود ایک بڑے اور قابل قدر اخبار کے دفتر میں اچھے خاصے معتبر عہدے  پر بیٹھ کر میڈیا و صحافت میں گھسی کالی بھیڑیں دیکھتا اور جانتا آیا ہوں ۔آپ کو اس قدر میڈیا  کا غم کیوں کھائے جارہا ہے۔میڈیا  کے بڑے نام  حامد میر، مبشر لقمان، کامران خان،سہیل وڑائچ،شاہذیب  خانزادہ،مہر بخاری، کاشف عباسی اور دیگر کئی

صحافتی  برج میڈیا میں موجود کالی بھیڑوں  اور لفافہ صحافیوں  کی بیخ کنی کرتے رہتے ہیں تو آپ کو کیسے تمام میڈیا پاک دامن لگتا ہے۔فرمانے  لگے میڈیا میری روٹی روزی  ہے اپنے ادارے کا میں دفاع کرونگا۔میں  نے کہا یہ تو آپنے بلکل بدترین سیاسی سوچ کو پکڑ رکھا ہے کہ غلط یا صحیح  بس اپنے ادارے  کی حمایت میں قلابے ملاتے رہو۔کہنے لگے مدارس میں کیا نہیں ہوتا عوام  متنفر ہوچکی ہے مولویوں اور مساجد و مدارس سے۔ میں نے کہا اپنی معلومات بڑھائیں  اس وقت  بھی تمام دنیا میں سب سے زیادہ  حفاظ  پاکستان میں تیار ہوتے  ہیں جنکی تعداد 50 ہزار سے زائد  ہے ، وہیں سب سے زیادہ عوامی خدمت  انہیں علماٗ کرام کی بنائی این جی اوز کرتی آئی ہیں جسکا تازہ مظاہرہ اور ثبوت اس کورونا وائرس میں تمام دنیا  نے دیکھا۔جس پر میری ایک رپورٹ اٹھا کر دیکھیں تو اندازہ ہو مدارس ومساجد اور علماٗ کرام کی اس وقت بھی عوام

خدمت اور ان پاکیزہ ہستیوں  پر عوام کا اعتماد کس درجے  کا ہے۔2005  کے زلزلے میں  بھی سب سے پہلا امدادی سامان کا ٹرک بالائی علاقوں میں ایک عالم شیخ زکریا ٹرسٹ کی جانب سے ہی گیا تھا۔محترم نے 3  فائیلیں  انگریزی کی شئیر کیں جس میں بتایا گیا تھا کہ کسی قاری یا استاد نے کسی لڑکی  یا بچے کے ساتھ غلط  فعل کیا  ہے۔حالانکہ ایسی رپورٹ کو بخوبی جانتا ہوں پھر بھی پوچھا اگر یہ  سچ بھی مان لی اجائے تو 22 کروڑ عوام میں ایسے مقدمات کا ریشو  ہی کیا ہے۔ کہنے لگے 1200 مقدمات درج ہیں جن میں سے 16  کی میں خود رپورٹ کی۔سمجھ تو گیا میں موصوف باقاعدہ مہم چلاتے ہیں دینی حلقے کیخلاف تاہم ان سے پوچھا چلیں مان لیتے ہیں  آپ بتائیں تمام ملک کی عدالتوں  میں دائر مقدمات  میں ان 1200 کا کتنا فیصد بنتا ہے؟جواب  کیا دیتے  کہنے لگے تم لگتا ہے گالیاں سنو گے۔ارے دلیل نہیں ہے تو ہر کس ناکس کی  ہر بات کو کیوں مانے جائیں پھر جو ہو بھی حقیقت کے قطعی خلاف بلکہ   مبنی بر بغض ہو۔گروپ پر موجود دیگر حضرات  نے موصوف کی کلاس لینی شرو ع کی تو موصوف مجھ سے تو معذرت  کرکے سائڈ میں ہوگئے ساتھ  ہی یہ بھی بتادیا کہ میرا صحافت سے کوئی تعلق نہیں البتہ ابھی تک  گروپ کے کسی نہ کسی ممبر سے الجھتے رہنا انکا معمول ہے۔

میرا خیال فورا بہت سے ایسےبہروپیوں ،  ڈھونگیوں اور نیم ملاؤں کی طرف چلا گیاجنہیں مذہب،انسانیت، اصول و ضوابط، اخلاق و تربیت، خدا خوفی، علم وعمل، دلیل وبرھان کسی  چیزسے لینا دینا  نہیں بس دنیاوی فائدے، پیسوں یا اپنی نفسانی خواہشات،تکبر، بڑائی کی تکمیل  کیلئے  دینی امور، فقہی مسائل ، تفسیر و حدیث  جیسے اعلی مرتبت امور میں اپنی ناک  مارتے رہتے ہیں ۔موصوف کہتے تھے کہ مساجد  کے امام پیسہ کھا جاتے ہیں۔میں  نے جل کر کہا جس پر تجربہ  بھی شاہد ہے کہ یہ غاصب و دھوکے باز وہی نیم ملا یا اسکالرز بہروپئے ،  ڈھونگی امام  بن جاتے ہیں  جنہیں  محلہ کمیٹی کے جاہل افراد ایک عالم  و نیم ملا اور ڈھونگی کا فرق جانے  بغیر کبھی دنیاوی فائدے،دوستی یا اپنی علمی قابلیت صفر ہونے کی وجہ سے  منبر و محراب، وعظ و نصیحت  سونپ دیتے ہیں  اور دین و شرع کا محافظ سمجھ  بیٹھتے  ہیں ۔

ان بہروپیوں ،  ڈھونگیوں  اور نیم ملاؤں سےدنیا کا کوئی  حصہ، کوئی شہ، کوئی گاوں اور کوئی شعبہ  خالی  نہیں ۔ جو  اس کے متعلقہ شعبے کیلئےنا صرف درد سربلکہ باعث شرم و عار اور انسانیت و مذہب  کے بدترین  مجرم بھی  ہیں ۔ انصاف، عدالت، معیشت، معاشرت ، عملیات،طب ، حکمت ، سیاست یا مذہب کوئی شعبہ ان  بدبختوں  نے  نہیں چھوڑا۔اتائی ڈاکٹر ہوں ، نام نہاد صحافی، نیم حکیم ، نیم ملا،جاہل عامل یا ڈھونگی سیاسی بقراط و سقراط۔سب ہی سے ہمارا معاشرہ  بھرا پڑا ہے۔ ہم اتائی ڈاکٹروں سے بچنا چاہتے ہیں اور ان کی بیخ کنی  کرتے رہتے ہیں ،اعلی سے اعلی ڈاکٹر، ماہر وکیل، حاذق حکیم   اور انجینئر سے معاملہ کرنا چاہتے ہیں ۔صرف چند کتابیں پڑھ  لینے والے کو ڈاکٹر یا وکیل یا

حکیم  نہیں مانتے۔کسی استاد  یا ادارے  نے  انہیں سند دے کر یہ تصدیق  نہ کی ہو کہ اب یہ  سند یافتہ ڈاکٹر یا وکیل  یا انجینئر ہیں ان سے  کوئی اس فیلڈ کا معاملہ نہیں کرنا چاہتا۔ارے دودھ ، دال، گوشت جیسی چیزیں  بھی خالص و اعلی تلاش کرتے  ہیں ۔ماہرین کی رائے کو چیلنج نہیں کرتے ۔مقام افسوس یہ ہے کہ ہم دنیا و آخرت  میں سکون و کامیابی  کے ضامن اپنے دین اسلام  کو خود  کیلئے اور ہر ایک کیلئے  تختہ مشق بنانا جائز و ضروری سمجھتے ہیں ۔ ہم میں سے بہت سے  خود کومحض دین  کیلئے  بقراط مان کر  اسلام کے احکامات و نظریات  پر بحث و مباحثے، بقراطیوں   اور رائے  دینے کیلئے تیار ہیں ۔ ہم  نے دین کو اتنا ارزاں  سمجھ لیا ہے کہ  مذہبی  امور میں  ایسےبہروپیوں ،  ڈھونگیوں  اور نیم ملاؤں کو  ناصرف  برداشت   کرتے  ہیں  بلکہ ان عقل و خرد ، علم و عمل، دلیل و دستور سے سے قطعی ناواقف بہروپیوں  کو اپنا مقتدا تک بنالیتے ہیں ۔

پاکستان بننے سے آج تک ان نیم حکیموں اور نیم ملاؤں نے ملک کا تو بیڑا غرق کر ہی دیا ہے بدبختوں نےہم گناہگاروں کی عاقبت  بھی برباد کرنے کوششوں  میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔عامر لیاقت، فواد چوہدری، جاوید غامدی،انجینئر محمد علی مرزا ان  نیم ملاؤں  اور بہروپیوں  کی  فہرست کے سرخیل  ہیں ۔ دین  میں  ان کی بقراطیاں شہرت کی  بلند یوں  کو چھو رہی ہیں ۔ان میں سے ہر ایک کے اعمال و افعال خود  ان کے  لئے  باعث  شرمندگی   بنتے رہتے  ہیں جن سے ان  کی جان چھڑانی مشکل رہتی ہے مگر یہ اور ان جیسے دوسرے  نیم ملا و  بہروپئے   زندگی  کے کسی شعبے کے ساتھ مذہب  و شرع تک  کو  بخشنے کیلئے تیار  نہیں ۔سوشل میڈیا اور ہمارے ارد گرد ایسے  بہروپیوں کی   بے شمار مثالیں موجود ہیں ۔کوئی  نیم ملا،  جعلی پیر،  جعلی و  بےشرم  عامل، کوئی نام  نہاد اسکالر یا  بےسند  سیزنل  مفسر و علامہ  ہماری  دنیا وآخرت  تباہ و برباد کرنے پر تلا  باآسانی  مل سکتا ہے۔

خدارا  اپنےعقائد و اعمال  کو برباد ہونے سے  بچائیں ، شریعت و طریقت  کسی مستند عالم اوراللہ والے سے سیکھیں اور پڑھیں ۔شرعی مسائل مستند  مفتی سے پوچھیں ۔اپنا مقتدا کسی اہل حق عالم ، مفتی یا اللہ والے کو بنائیں ۔خود کو اور اپنی نسل کو بہروپیوں ،ڈھونگیوں اور نیم ملاؤں سے بچائیں۔ دین کو تختہ مشق نہ بنائیں نہ  بننے  دیں  ۔عہدے اور کرسی کے مناسب افراد کو ہی انکا حق  دیں ۔ مذہب  کے ماہرین   اور پیارے آقا ﷺ کے وارث صرف   مستند اور اہل حق حضرات علماٗ  کرام و مفتیان  عظام  ہی  ہیں انہیں ان کاکام  کرنے دیں ۔ اللہ تبارک و تعالی،  پیارے آقا ﷺ اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مبارک  اقوال و افعال سے  یہ واضح ہے کہ  دین  کے معاملے  میں ہلکی سی بے ادبی  بھی تمام اچھے اعمال  تک کی بربادی و ضائع  ہونے کا سبب بن سکتی ہے تو پھر اس میں  کسی نیم ملا یا بہروپئے  کی چیرہ دستیوں  کا  کیا مقام  و عذاب ہوگا۔دین ایسی چیز نہیں کہ جس پر ہر کس و ناکس رائے دیتا پھرے اور اسے تمام امت پر زبردستی تھوپنے کی  ضد پر اڑا رہے۔ پہلے زمانے کے بہروپئے اور نیم حکیم  بھی نیم ملا کسی طور  نہیں  بننا چاہتے تھے ۔ تمام تر برائیوں  کے باوجود مذہبی امور  میں ٹانگ  نہیں اڑاتے تھے بلکہ اللہ کے عذاب سے ڈرتے تھے۔خدارا دین کو بخش دیں۔

محمد عدنان کیانی

محمد عدنان کیانی بین الاقوامی سطح پر جانی جانے والی دینی شخصیات کے انٹرویوز کے سلسلے میں اپنا مقام بنا چکے ہیں۔ وہ اردو و انگریزی کالم نگاری اور سب ایڈیٹنگ سمیت سماجی خدمات میں بھی پیش پیش ہیں۔ مذہبی امور پر مضبوط گرفت رکھتے ہیں۔

محمد عدنان کیانی