تازہ ترین

3 مئی ’’آزادی صحافت کا عالمی دن‘‘

  • Kamran Ashraf
  • مئی 3, 2020
  • 4:29 شام

مئی دنیا بھر میں آزادی صحافت کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد عالمی سطح پرصحافتی آزادی کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ ایسے اقدامات کا حصول بھی ہے جس میں آزادی صحافت میں پیش آنے والی مشکلات اور رکاوٹوں کا سدباب بھی کیا جا سکے۔

اس دن کو منانے کا آغاز 1991 ء میں نیمبیا سے ہوا جبکہ اقوام متحدہ نے 3 مئی 1993 ء کو باقاعدہ طور پر آزادی صحافت کا عالمی دن منانے کااعلان کیا اس دن تمام دنیا کی صحافتی برادری اس بات کا تجدید عہد کرتی ہے کہ کسی بھی پرتشدد عناصر یا ریاستی دباؤ کے بغیر آزاد سچی اور ذمہ دارانہ اطلاعات عوام تک پہنچنے کیلئے لڑتے رہیں گے ۔ اس دن تمام صحافی اپنے پیشہ وارانہ فرائض کو پوری ایمانداری اور حق گوئی و بے باکی کے ساتھ جاری رکھنے کا عزم دہراتے ہیں صحافیوں کی عالمی تنظیم رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس صحافیوں کے قتل میں سب سے زیادہ متاثر شام رہا اسکے بعد میکسیکو پھر افغانستان اور عراق کا نمبر آتا ہے۔ دنیا بھر میں آزادی صحافت کیلئے صحافیوں کی قربانیاں لازوال ہیں۔ پاکستان کا جائزہ لیا جائے تو یہاں بھی صحافی ایک طویل عرصے سے اپنی آزادی کیلئے قربانیاں دے رہے ہیں انکی قربانیوںکی ایک ناقابل فراموش تاریخ ہے ۔

آمریت کے دور میں صحافیوں کو بے پناہ اذیت و تشدد کا نشانہ بنایا گیا ‘ان پر کوڑے تک برسائے گئے‘ نام نہاد سول حکمرانوںکے دور میں اخبار اور چینلز کو مالی مشکلات سے دوچار کیا گیا ‘ ان کے اشتہارات بند کر دئیے گئے اور انکی ادائیگیوں کو روک لیا گیا‘ ان میں تاخیری حربے استعمال کئے گئے۔ راقم الحروف کے والد40 سال صحافت کے مقدس پیشے سے وابستہ رہے‘ مختلف اخبارات کی نامہ نگاری کی‘ زندگی کے آخری دور میں ایک ہفت روزہ بھی نکالا ۔ بھٹو دور میں ایک حاضر ایم این اے کیخلاف ایک سچی خبر لگانے پر اس ایم این اے نے اپنے غنڈوں کے ذریعے حملہ کرایا اور اپنی دانست میں جان سے مار کر چلے گئے تھے لیکن جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے ۔راہ گیر سول ہسپتال لے گئے وہاں پربھی اس ایم این اے نے ڈاکٹر پر دباؤ ڈالا تاکہ وہ اس ایماندار صحافی کا علاج نہ کر سکے ۔صحت مند ہونے کے بعد والد بزرگوار اتنی تکلیف اور پریشانی سہنے کے باوجود کلمہ حق کہنے سے باز نہ آئے اور اس ایم این اے کے ظلم و ستم کو آشکارا کرنے کیلئے اس کیخلاف ایک کتاب ’’بستہ ب سے قومی اسمبلی تک‘‘ لکھی یہی نہیں اپنے صحافی دور میں انتظامیہ کیخلاف سچی خبریں لگانے پر کئی جھوٹے مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔ پابند سلاسل بھی ہوئے اور اس وقت راقم الحروف اپنے والد سے ملنے تھانہ حوالات جاتا رہا ۔

حق و سچ کے اس سفر میں یہ مشکلات ان کے پایہ استقامت میں ذرا بھی لغزش نہ لا سکیں اور مرحوم آخری دم تک اس شعبے سے منسلک رہے اور اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں ایمانداری اورسچائی کے ساتھ سرانجام دیتے رہے۔ میرے والد بزرگوار کی ہی طرح نجانے کتنے صحافی اپنی زندگی میں اس قسم کے واقعات کا مردانہ وار مقابلہ کرتے رہے۔ آج پاکستان میں اگرچہ صحافت کو ریاست کا چوتھا ستون تصور کیا جاتا ہے لیکن اسکے باوجود آج بھی پاکستان میں صحافیوں کے ساتھ حکومتی اورسیاسی جماعتوں کی سطح پر پرتشدد اور ظالمانہ واقعات ہوتے ہیں انہیں جھوٹے مقدمات بنا کر گرفتار کیا جاتا ہے ۔ آج 3 مئی 2020 کو بھی یہ دن منانے کامقصد صرف یہی ہے کہ معاشرے کو یہ بات یاد دلائی جائے کہ عوام کو حقائق پر مبنی خبریں پہنچانے کے جرم میں کتنے ہی صحافی اس دنیا سے چلے گئے اور کئی یہیں دیوارزنداں ہیں ۔ تاریخ شاہد ہے کہ صحافت نے نئے انقلابات کو جنم دیا‘ کئی بار ایسے مواقع آئے کہ جب قلم کی طاقت سے خوفزدہ ہو کر اس پر پابندیاں لگا دی گئیں لیکن آفرین ہے صحافی برادری پر‘ سلام ہے انکی عظمت کو کہ جس نے اپنی قربانیوں سے اپنی مقبولیت ‘ اہمیت اور افادیت کو کم نہ ہونے دیا۔ صحافت کی طاقت سے ہی متاثرہو کر کبھی اکبر الہ آبادی نے کہا تھا

کھینچو نہ کمانوں کو نہ تلوار نکالو

جب توپ مقابل ہو تو اخبار نکالو

آج صحافت کا عالمی دن منانے کا مقصد اور حقیقی تقاضا ہے کہ صحافتی برادری کو صحافی ذمہ داریاں ادا کرنے میں آزادی حاصل ہو‘ انکے جائز حقوق کا تحفظ ہو ۔ آج وطن عزیز میں پرنٹ میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا کا کردار ناقابل فراموش ہے اسکی اہمیت کو کبھی بھی کسی بھی صورت کم نہیں کیا جا سکتا۔