تازہ ترین

آنکھ حیراں ہے کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائیگی

madrasa
  • ناصر محمود
  • اپریل 27, 2020
  • 12:58 صبح

آخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا صدر مملکت اور علماۓ کرام کے درمیان طے شدہ 20 نکاتی معاہدے نے اپنا رنگ دکھایا اور اکثر مساجد میں جمعہ کی نماز۔پر جھگڑے شروع ہوگئے۔

ہر نمازی کےدرمیان چھ فٹ فاصلےکی شرط نے جہاں سو نمازیوں کی صف میں سے 75 کو باہر کرکے 25 تک محدود کردیا وہیں پندرہ صفوں میں سےپانچ کم کرکےدس رہ گئیں۔ اس کا نتیجہ یہ کہ پندرہ سوکی جگہ صرف ڈھائی سو نماز ادا کرسکےاور دیگر منہ دیکھتے رہے۔ سرکاری دانشوروں نےاس کاحل یہ تجویز کیا تھا کہ تین مرتبہ خطبہ کرکے۔الگ الگ جماعت پڑھائی جائے گویا جمعہ نہ ہوا سینما کے شو ہوگئے۔ اس کےباوجود لوگوں کی اکثریت جمعہ کی سعادت سے محروم رہ گئی اور جھگڑوں کی نوبت آگئی۔

مسجد اور مدارس سے حکمرانوں اوران کےآقاؤں کی دشمنی کی تاریخ کچھ زیادہ پرانی نہیں۔ اس کا آغاز۔ضیاء الحق دور سے ہوا جب مرحوم نےسرکاری طور پر نظام صلوٰۃ قائم کرکے دینی مدارس کی سرپرستی کرتے ہوئے اسلامی اصلاحات کی جانب پیش قدمی کی کوشش کی۔ یہ اقدام انکل سام اور ان کے چیلوں کو پسند نہ آیا۔ یہی وجہ تھی کہ اُس دور میں این جی اوز کے ذریعے مدارس میں زنجیروں سے بندھے بچوں کی وڈیوز کا پروپیگنڈا کرکے انہیں بدنام کرنے کی بھیانک کوششیں کی گئیں۔ مگر مدارس میں دینی تعلیم کے فروغ کا جو سلسلہ شروع ہؤا تھا وہ نہ رک سکا۔ لہٰذا ضیاء الحق سے چھٹکارا پانے کے بعد ان قوتوں نے دو دو مرتبہ بے نظیر اور نواز شریف کو حکومت کرنے کا موقع اسی شرط پر دیا تھا کہ وہ دینی مدارس کا خاتمہ کریں گے۔ لیکن وہ ناکام رہےچنانچہ انہیں ہر بار اپنی مدت پوری کرنے سے پہلے رخصت کر دیا گیا اور ان کی جگہ فوجی کمانڈو کو لایا گیا۔ اس کمانڈو نے اپنا وعدہ نبھاتے ہوئے لال مسجداور اس سےمنسلک مدرسے پر چڑھائی کردی اور بےشمار طالبات اور ان کےاساتذہ کو بلاسبب بمباری سے جلاکر راکھ کردیا۔ کمانڈو اوراس کے چیلے اپنےانجام سے دوچار ہیں مگران کی جگہ لینے والوں نے تاریخ سے مطلق سبق حاصل نہیں کیا۔

اللہ کے گھر میں صرف اللہ کا حکم چلے گا۔ اس حقیقت سے روگردانی کرنے والوں کو اقتدار کی ہوس اور ڈالروں کی چمک نے اندھا کردیا ہے۔ جس شیطانی وائرس کی آڑمیں انہوں نے پوری قوم کو یرغمال بنا رکھا ہےاس کا کمال یہ ھےکہ اس نےخوداپنےخالقوں کونشانہ بنارکھا ہے- تازہ ترین خبروں کےمطابق کرونا نےدوماہ میں 50 ہزارسےزائدامریکی ماردیۓ جبکہ متاثرین کی تعداد 9 لاکھ سےاوپرہے- اسکےبرعکس پاکستان میں گزشتہ چھ ماہ کے دوران محض 248 افراد جاں بحق ہوۓ جن میں کرونا کا شائد ایک بھی مریض نہ تھا اکثردیگرامراض کا شکار ہونےوالوں پرکرونا کا لیبل لگا کرزبردستی گنتی بڑھائی جارہی ہے- اسکےاسباب اورمثالیں روزانہ سامنےآتی جارہی ہیں- ایک شہری نےروداد سنائی کہ اسکا بھائی پندرہ سال سےجگرکا مریض تھا بدقسمتی سے ہسپتال لے گئےوہاں فوت ہوگیا توانتظامیہ نےکرونا کا شکارقراردےکرقبضے میں لے لیااورلواحقین کےحوالےکرنےسےانکارکردیا- بڑی جدوجہدکے بعد پولیس کو20 ہزارکی رشوت دےکرلاش حاصل کی اورقبرستان والوں نے ایک لاکھ روپےلےکرتدفین کی اجازت دی- ایسی بےشمارداستانیں روزترتیب پارہی ہیں- دوسری جانب حکمرانوں کاحال یہ ہےکہ کروناکی لعنت سےمحفوظ رہنےپراللہ کا شکر ادا کرنےاورملکی صنعت وتجارت کو فروغ دینےکی بجاۓالٹا اس وباکوفرضی اعدادوشمارکےذریعےبڑھا چڑھاکرپیش کرنےمیں مصروف ہیں- وہ محاورہ توسناہوگا کہ پڑوسن کا منّہ لال دیکھا تو اپنا پیٹ کرکرلیا-

حکمرانوں کا یہ ذوق وشوق بلاسبب نہیں- باخبرذرائع کےمطابق صیہونی طاقتوں کی آلہ کارنام نہاداقوام متحدہ کا ذیلی ادارہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اس کلچرکوشہ دیتےہوۓایک ہزارڈالرفی کرونامریض ادائیگی کررہاھےتاکہ دنیا بھرمیں خوف وہراس کومزید بڑھایا جاۓ- لہٰذا 25 اپریل کے اخبارمیں شائع 11736مریضوں کی کل پاکستانی تعداد کواتنے ہزارڈالروں میں تبدیل کرکےحساب لگایاجاسکتا ہے- یہی وجہ ہےکہ حکمراں صوبےکے ہوں یامرکزکےکرونا کےفرضی مریضوں کی تعداد روزانہ بڑھ چڑھ کربیان کرنےمیں مصروف ہیں اورلاک ڈاؤن جاری رکھنےکیلئےایڑی چوٹی کازورلگارہےہیں- دوسری جانب شہری ان کی جان کورورہےہیں کہ جلدازجلد بلاوجہ کےلاک ڈاؤن کےعذاب سےان کونجات دلائی جاۓ- اس سلسلے میں سندھ حکومت کی بےچینی اور بےتابی قابل دید ہےکہ اس نےسخت لاک ڈاؤن کو جاری رکھنےکیلۓبوکھلاہٹ میں گائنی ڈاکٹروں سےپریس کانفرنس کروادی جن کاکرونا کےعلاج سےدورکا بھی واسطہ نہیں بنتا نہ انھیں اس بارے میں کوئی معلومات حاصل تھیں- ان کا سارازورمساجداورتمام کاروباربند کرکےلاک ڈاؤن سخت کرنےکےمطالبےپررہا-

اس حوالےسےسندھ کےوزیروں کےبارے میں جوحقائق اب تک منظرعام پرآچکےہیں ان کےمطابق وہ حکمرانی کےاختیارات کا ناجائزاستعمال کرتے ہوۓخلق خدا کو تنگ کرنے میں مصروف ہیں- وہ چھوٹی بڑی صنعتوں اورتجارتی تنظیموں سےلاک ڈاؤن میں نرمی کےعوض کروڑوں اوراربوں روپےکی رشوتیں کمانےمیں مصروف ہیں- یہ صورتحال اس امرکی نشاندھی کرتی ھےکہ پاکستان میں کرونا نام کی کوئی جان لیوا وبا موجود نہیں ہے- اگرایسی کوئی خوفناک لہرموجود ہوتی توسب سے پہلے یہ پیداگیرحضرات بلوں میں گھستےاورموت کےخوف سےان کی آوازتک نہ نکلتی- ان کی دیدہ دلیری اس بات کی عکاسی کرتی ہےکہ محض بیرونی آقاؤں کے اشارے اورپروپیگنڈے کی بنیاد پرملکی عوام کوڈرادھمکا کراورناجائزدباؤڈال کران سےمال بٹورنےمیں مصروف ہیں- مگراسکےنتیجےمیں ملکی معیشت کا جو بیڑاغرق ہورہا ہےاسکا انہیں کوئی احساس نہیں- صاف ظاہر ہےجس ملک کی بیوروکریسی کے 22 ہزار700 سےزائد افسران اوران کےخاندانوں کے پاس بیرونی ممالک کی شہریت ہوگی اس کےسیاستدان بھی تودوہرے پاسپورٹ رکھتے ہیں- لہٰذاان سے کسی خیرکی توقع کیونکرکی جاسکتی ہے-

باخبرذرائع کرونا فراڈ کی حقیقت جاننےکیلۓاس سال 6 مارچ کےمعروف برٹش میڈیکل جنرل کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہیں جس کےمطابق ایک قابل ترین طبّی ماہرکاکہنا ہےکہ کرونا کوختم کرنا ہےتواس کےٹیسٹوں کاسلسلہ ختم کردیں آپکی زندگی پہلےجیسی نارمل ہوجائیگی کیونکہ ان ٹیسٹ کٹس کی اپنی کوئی مستند حیثیت نہیں- اسکی مثال دیتےہوۓایک بھارتی ماہرنےبتایا کہ گذشتہ ہفتےگوہاٹی میں ایک ڈاکٹرکی موت واقع ہوئی جوکرونا سےنہیں بلکہ کرونا کےخوف سے ہوئی تھی- بھارتی ماہرنےاپنےانٹرویومیں انکشاف کیاکہ اسکےعلاوہ بھی جولوگ آۓ دن کرونا کے نام پرموت کاشکارہورہے ہیں یہ وہ افراد ہیں جن کوملیریا، ایبولا اورایچ آئی وی کےساتھ ساتھ دیگراینٹی بائیوٹک ادویات دی جارہی ہیں- اسکےباوجوداگرکوئی زندہ بچ جاتا ہےتو یہ اسکی قسمت ہے- لہٰذااکثرلوگ دنیا بھرمیں کروناوائرس سےنہیں بلکہ ان الٹی سیدھی ادویات سےمررہےہیں جوعلاج کےنام پرملٹی نیشنل فارماسیوٹیکل کمپنیوں کی جانب سےتجرباتی طورپردھڑادھڑان پرآزمائی جارہی ہیں کیونکہ اصل میں تواب تک کرونا کی دوادریافت ہی نہیں ہوسکی ہےتوعلاج کیا ہوگا-

اسی بھارتی ڈاکٹرنےایک اوررازسےبھی پردہ اٹھایا- اس کےمطابق ڈبلیوایچ اوکےحوالےسےانکشاف ہؤاہےکہ حال ہی میں اس نے"سالیڈیریٹی ٹرائل" کےنام سےایک آرڈرجاری کیا ہےکہ کرونا کےجو بھی مریض آئیں ان پرچارادویات میں سےکوئی ایک آزمائی جاۓجن میں ملیریاکی دوا، ایبولاکی دوا، ایچ آئی وی کی دوا یا پھرکچھ بھی نہیں شامل ہے- اسکا واضح مطلب یہ ہے کہ اسوقت دنیا بھرکے انسانوں کولیبارٹری کے چوہےبنادیا گیا ہے- مثلاً ایبولاوائرس کی جو دوا ہےوہ ابھی تک کسی بھی سطح پر منظورنہیں ھوئی نہ ہی اسے کسی انسان یا حیوان پرآزمایا گیا تھا۔ اس کیلۓ انتظار کیاجارہا تھا کہ کب کچھ لوگ ہتھےچڑھیں توان پرآزمائی جاۓ۔ کرونا کے شوروغل نےیہ نادرموقع فراہم کردیااوراب اسکی ٹیسٹنگ بے گناہ انسانوں پردل کھول کرکی جارہی ہے۔

ناصر محمود

پاکستانی صحافت کا بیک وقت اردو و انگریزی زبانوں میں مصروف عمل نام۔ 41 سالہ تجربہ میں تمام اصناف کا احاطہ شامل ہے۔ اردو ہفت روزہ "تکبیر" اور انگریزی روزنامہ "پاکستان آبزرور" کے بانیوں میں شمولیت کا اعزاز حاصل ہے۔ صنعت، سیاست، دفاع اور انویسٹی گیشن رپورٹنگ جیسے متعدد اہم سنگ میل عبور کئے۔

ناصر محمود