تازہ ترین

دیکھنا قیمت گلزار بھی گرجائے گی

corona virus
  • محمد عدنان کیانی
  • مارچ 29, 2020
  • 2:07 شام

دنیا ساری کی ساری گھروں میں قید ہے۔ تاہم ایسے میں بھی کچھ افراد اس دنیا کو آگاہی دینے اور بچانے کی فکر میں سرگرداں ہیں۔

وہ انتظامیہ ہو یا ڈاکٹرز,پیرا میڈیکل اسٹاف ہو یا صحافی سب کے سب اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھے نوع انسانی کو بچانے کیلئے سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہیں۔ ایک صحافی ہونے کے ناطے میں بھی جمعے کے روز کراچی جیسے جگمگاتے شہر کی سنسان سڑکوں پر نکلا ہوا تھا اور اس خوف کو بار بار جھٹک رہا تھا کہ کیا کبھی دنیا کو وہ رونقیں دوبارہ میسر آ سکیں گی جن کے بغیر مصروف ترین شہروں کے باسی جاں بلب ہوجایا کرتے تھے۔اسی کیفیت میں ایک جگہ ملاقات کیلئے حاضر ہوا۔مجیب الرحمن صاحب نیوی کے ریٹائرڈ آفیسر ہیں مگر دلی کے ان بزرگوں میں سے ہیں جن کے پاس بیٹھنے سے نہ صرف اردو ادب کی خوشہ چینی کا موقع ملتا ہے بلکہ دینی ,سیاسی اور سماجی حالات پر گراں قدر تبصرہ و مشورہ بھی عقل کو نئی جہتیں بخش دیتا ہے۔حاضر ہوا تو انکے صاحبزادے کو کافی فکرمند دیکھا پوچھنے پر بتانے لگے کہ ابا جان تمام نمازیں مسجد میں پڑھتے ہیں اور تکبیر اولی کا اہتمام بہت رہتا ہے۔آج فجر سے مساجد میں نماز پر پابندی لگ گئی ہے جو ابا جان پر قیامت کی طرح پڑی ہے۔اب پابندی کے باوجود صبح فجر پھر جمعہ پھر عصر سب نمازوں سے پہلے مسجد کے دروازے پر پہنچ جاتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں شاید داخلے کی اجازت مل جائے مگر موذن صاحب کی معذرت پر سرخ و ڈب ڈبائی آنکھین لئے اللہ سے معافی مانگتے واپس لوٹ آتے ہیں اور بار بار کہہ رہے ہیں ہائے اللہ نے ہمیں دھتکار دیا,ہمارے گناہوں کی شامت اعمال ہے  اللہ نے واپس بھیج دیا اور روتے گھر پر نماز پڑھتے ہیں۔بتانے لگے ابھی والدہ سے فرمارہے تھے کہ کیا کروں اس نے دروازہ بند کردیا میں تو فقیر ہوں جاونگا نا بھیک مانگنے اسے منانے۔عصر میں نکلنے سے پہلے آسمان کی طرف اشارہ کرکے کہنے لگے جاتا ہوں شاید راضی ہوگیا ہو وہ۔مجیب صاحب کے گھروالون کی یہ باتیں سن کر میں تو مارے حیرت کے دم بخود ہوگیا کہ واہ عشق و بندگی ہو تو ایسی۔ایک 60 سالہ بزرگ میں ایسی بندگی و آتش عشق جلی ہوئی ہے جس سے اچھے خاصے دیندار محروم ہیں۔اسی سوچ میں گم تھا کہ مجیب صاحب کمرے میں تشریف لے آئے پرتپاک ہاتھ ملایا مگر آنکھوں کی سرخی ایک بندے کی اپنے رب تعالی سے عشق کی داستان سنا رہی تھی۔شرمندگی سے چور میں انکے سامنے بیٹھا انہیں تک رہا تھا کہ کہنے لگے بھائی ہمارے بڑوں اور علماء کرام کو عوام کو اس طرف لگانا چاہئے کہ توبہ کریں ہمارے اعمال کے سبب اللہ کے گھر بند ہوگئے ہم پر اور ساتھ ہی کشمیر میں جو 8 ماہ سے زائد لاک ڈاؤن ہے اس ظلم کا نتیجہ ہے کہ تمام کافر ملک اللہ کی پکڑ میں ہیں جبکہ مسلمان ممالک میں کرونا کے پھیلنے اور اموات کا تناسب بہت ہی کم ہے الحمد للہ۔البتہ مساجد بند کرنے سے بڑا دکھ ہے۔یہاں سے تو خیر ملنا تھا وہی مراکز بند کردئے ہم تو مسلمان ہیں اللہ سے ہر خیر مانگتے اور شر سے دوری چاہتے ہیں۔ہمارا تو مالک اور طبیب سب وہی ہے۔ بس شامت اعمال ہے ہماری اللہ ہمیں معاف فرمادے۔

وہ کہے چلے جارہے تھے اور انکی آنکھوں کی سرخی مزید گہری ہورہی تھی جیسے ایک بچہ ماں کو پکارتے پکارتے بلکنے لگتا ہے اور ماں کی نظراندازی کو سہہ نہیں پاتا تو آنکھوں کے آنسو دل پر گراتے غمزدہ ہنسی میں اپنا درد چھپانے کی کوشش ناسود کررہا ہوتا ہے تاہم میں ایک گہری سوچ میں ڈوبے جارہا تھا۔

ایک طرف اسلامی ممالک کی حالت,عمدہ قیادت سے محرومی اور ایمان و یقین کی کمزوری ہے تو دوسری جانب کافر ممالک کی شدید

خوفزدہ ابتر صورتحال کہ ایک کرونا ہزاروں افراد نگل چکا ہے۔

ہم اپنی بات کریں تو شکر مالک کا اسلامی ممالک میں واقعہ کرونا کا پھیلاو اور اموات کا گراف کفریہ ممالک سے کہیں کم ہے۔تدبیر و احتیاط بھی خوب ہورہی ہے۔صفائی,طہارت,گھروں میں بند رہنا اور سماجی دوری پر زور ہے۔ہونا بھی چاہئے کہ اسلام نے جائز احتیاطی تدابیر سے منع نہیں کیا بلکہ اختیار کرنے کا حکم دیا ہے مگر ساتھ ہی سب سے پہلے اللہ وحدہ لاشریک پر ایمان و یقین کو مضبوط کرنے کا حکم دیا ہے۔موت ایک اٹل حقیقت ہے جسکے لئے کرونا یا کسی بیماری کی ضرورت نہیں وہ ہر ایک کو ہر حال میں آنی ہی ہے البتہ موت کی بعد کی ناختم ہونے والی زندگی کی راحت و سکون صرف اور صرف اللہ اور اسکے پیارے رسول کی اطاعت و فرمانبرداری میں ہے۔یہ ضابطہ مسلمہ ہے کہ کسی بادشاہ کے ملک میں بھی وہی اپنا سمجھا جاتا ہے , اسے ہی انعامات و حفاظت سے نوازا جاتا ہے اور اسے ہی رہنے کا حق دیا جاتا ہے جو بادشاہ کا فرمانبردار اور اسکے بنائے قوانین کا پابند ہوتا ہے ورنہ باغی کو سولی اور مجرم کو سزا دی جاتی ہے۔یہ زمین اللہ کہ ملکیت ہے اس پر سکون وہی پائے گا جو اسکا فرمانبردار ہو اور اسکے بنائے قوانین کی پوری پاسداری کرے۔ورنہ وہ بادشاہت قوت طاقت کا پیدا کرنے والا ہے باغیوں کو جڑ سے اکھاڑدے یا مجرموں کو سزا دے اسے کون روک سکتا ہے۔اسکا رحم اس کے غصے پر غالب ہے اسی لئے باغی یعنی کافر اور مجرم ہم مسلمانوں کو ڈھیل دئے رکھتا ہے مگر کبھی اصلاح و اپنی قدرت کے اظہار میں رسی ذرا تنگ بھی کردیتا ہے۔کرونا جیسے ایک معمولی وائرس نے پوری دنیا ہلا کر رکھ دی ہے۔ہم مسلمان خوف کا شکار ہوئے جارہے ہیں جبکہ اس کے بجائے اللہ کریم کے آگے سر جھکانے اور پڑجانے کی ضرورت ہے۔اس رحیم کے دامن سے لپٹ جانے کی ضرورت ہے جس طرح ایک غلطی کرجانے والا بچہ اپنی ماں کو رو کر گڑگڑا کر مناتا ہے۔ماں جتنا دھتکارتی ہے وہ اتنا اور آہ و زاری کرتا ہے۔ماں گھر سے نکالے تو دروازے پر کربلا بپا کردیتا ہے کہ بتا تو صحیح جاوں کہاں۔خدا کی قسم ماں جتنی ہی ظالم کیوں نہ ہو اولاد جتنا بڑا ہی جرم کرلے وہ اولاد کی ایسی آہ و زاری پر بے تابی سے دوڑ کر  اسے سینے سے لگالیتی ہے اور چومنے لگتی ہے۔تو پھر اللہ کریم تو اپنے بندے سے ایک شفیق و مہرباں ماں سے 70  گنا زیادہ پیار کرتا ہے۔وہ کہتا ہے اے بندے تو مجھے پکار تو صحیح میں لبیک کہوں گا۔تو ایک قدم میرے قریب آ میں 10 قدم تیرے قریب آجاونگا تو چل کر آ میں دوڑ کر آونگا۔ایسا رب ہمیں کیوں عذاب دیگا اگر ہم جرائم و بغاوت نہ کریں۔وہ تو کافروں اور جانوروں کو نہیں تباہ کرتا ,انکا رزق نہیں روکتا وہ رب اپنے چاہنے والوں کو کیسے تباہ و برباد کرسکتا ہے۔یقین کیجئے ہمارے مانگنے میں کمی ہے اسکے دینے میں نہیں۔اسکی اسی جود و کرم پر تو شیخ سعدی بول اٹھے تھے کہ

اے کریمے کہ از خزانہ غیب

گبر و ترسا وظیفہ خورداری

دوستاں را کجا کنی محروم

تو کہ بادشمناں نظر داری۔

فرماتے ہیں اے کریم مالک تجھسے تو رزق اور روزی کافر و دہریے جو خدا کے ہونے کے قائل ہی نہیں وہ بھی باقاعدگی سے پاتے ہیں۔ تو نے تو ان کافروں پر بھی نظر عنایت رکھی ہوئی ہے تو ہم تو تیرے چاہنے والے دوست ہیں تو ہمیں کیوں محروم کرےگا۔

ہمارے مانگنے اور اسے منانے میں کمی ہے۔ابھی بھی اس رب نے اپنے فضل سے امت مسلمہ کو بہت حد تک محفوظ رکھا ہوا ہے اسلئے خوف کے بجائے اس کی شفقت کی چادر میں چھپنے کی ضرورت ہے۔وہ آسمانوں سے آوازیں لگا رہا ہے مجھ سے مانگو میں دونگا مگر ہم اب بھی خواب غفلت میں سوئے پڑے ہیں۔مجیب صاحب والی کیفیت آج ہم میں سے کتنوں کی ہے۔مساجد بند ہونے پر ہم میں سے کتنے بےچین ہوئے۔کتنوں نے اللہ کے گھروں کو حسرت سے دیکھا اور ظاہرا نہیں دل میں ہی کوئی غم دکھ محسوس کیا کوئی آہ نکلی ڈر محسوس ہوا کہ ہائے کہیں رب کریم کو غصہ تو نہیں آگیا ہائے کہیں اس نے نکال تو نہیں دیا۔اللہ ہمیں معاف فرمائے ہم اللہ پر ایمان تو رکھتے ہیں مگر اسکی نافرمانی میں اپنی شفاء ڈھونڈتے ہیں۔ایسے میں وہ کریم ہی ہے جو ہمیں برداشت کررہا ہے ورنہ ہماری جیسی حالت ہو تو ماں بھی اولاد پر انا للہ پڑھ لیتی ہے۔علمائے کرام خدارا احتیاطی تدابیر کے ساتھ عوام کو ایمان و یقین اور اللہ سے تعلق جوڑنے کا سبق بھی پڑھائیں۔انہیں بتائیں کہ دوا و احتیاط بھی کارگر اسی وقت ہونگی جب رب چاہے گا ورنہ موت و بیماری تو بند قلعوں میں بھی پہنچ کر شکار کرہی لیتی ہے۔حکمرانوں کو چاہئے کہ مساجد کو بند نہ کریں۔بیماری سے شفاء اللہ ہے دینگے اسکے گھروں میں آنے والوں کو اپنے رب سے معافی مانگ لینے دیں۔اللہ کریم کے گھروں کے مہمان بننے دیں۔کوئی میزبان مہمان کو خالی ہاتھ نہیں لوٹاتا وہ تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور حاتم طائی جیسے سخاوت کے پہاڑوں کا رب ہے وہ کیوں خالی ہاتھ لوٹائےگا۔ہاں احتیاطی تدابیر کرلیں۔افراد کی تحدید کردیں مگر جماعتیں زیادہ کردیں کہ سب نماز میں شامل ہوسکیں۔سندھ حکومت نے جب سے جمعہ پر پابندی لگائی ہے عام عوام بھی خون کے آنسو رو رہی ہے کہ ہائے اب جمعہ بھی گیا۔گزشتہ جمعہ کو عوام کا جم غفیر مسجدوں سے رنجیدہ خاطر واپس لوٹ آیا۔علمائے کرام سے گزارش ہے وہ جمعہ کی اہمیت کو جانتے ہیں اس میں اللہ کی مرضی کے کس قدر اسباب جمع ہوتے ہیں۔ وہ حکومت سے بات کریں اور مساجد کو کم از کم نماز جمعہ کیلئے کھلوائیں اور اگر یہ نہ ہوسکے تو عوام کو چار چار پانچ پانچ افراد مل کر گھروں پر پڑھنے کی تلقین کریں کہ کم از کم جمعے کی فضیلتوں  برکتوں اور رب کی عنایتوں سے ایسی مشکل صورتحال میں تو وہ محروم نہ رہیں۔ظہر پڑھانے کے بجائے ایسے مسائل و راستے بتائیں جس سے کوئی بھی نماز جمعہ سے محروم نہ رہے۔غور کریں تو اندازہ ہوگا کہ کئی سپر اسٹورز,میڈیا چینلز اور دفاتر سیکڑوں ہزاروں کسٹمرز اور ورکرز سے آباد ہیں کیا انہیں کوئی خطرہ نہیں کرونا سے؟؟صرف مساجد و مدارس ہی خطرہ کیوں ہیں؟؟؟۔اگر آج ہم نے مساجد کو بند کیا تو بلاد کفریہ کہیں مسلمانوں پر صحیح حالات میں بھی کڑی شرائط و پابندیاں نہ لگادیں جنکا بیج ہم نے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بویا ہوگا۔اس سلسلے میں کئی بزرگوں اور مفتیان کرام سے بات ہوئی جن میں مولانا پیر عزیزالرحمن ہزاروی,مولانا سہیل باوا لندن,مولانا مفتی رزین شاہ صاحب,مولانا مفتی اویس,مولانا ابوبکر,مفتی غیور احمد,مولانا سلمان یاسین و دیگر کئی حضرات و اکابر کو انتہائی رنجیدہ خاطر اور فکرمندپایا۔سندھ و کراچی کے علمائے کرام کو اس سلسلے میں مزید غور و فکر کر کے مساجد کو آباد یا کم از کم گھروں میں جمعے کے قیام کی سبیل کرنی چاہئے۔یہ تو ہمارا درد دل ہے۔

دوسری طرف کافر ممالک جاں بلب ہیں۔میڈیکل سائنس کے بےتاج بادشاہ امریکہ, برطانیہ, اٹلی, فرانس اور  جرمنی غرض کے پورا یورپ, بھارت اور ایران روزانہ کی بنیاد پر سیکڑوں لاشیں اٹھا رہے ہیں۔متاثرین کی تعداد  6 لاکھ کے قریب ہوچکی ہے۔لاشیں اٹھانے کیلئے گاڑیاں اور دفنانے کیلئے زمین کم پڑگئی ہے۔خوف و دہشت کے گہرے بادل مزید گہرے ہورہے ہیں۔کہتے ہیں کرونا ایک معمولی وائرس ہے مگر اسی معمولی نے غیر معمولی حالات میں جکڑ رکھا ہے۔ کیا ان ممالک اور ان میں بسنے والوں نے غور کیا کہ ایسا کیوں ہورہا ہے؟؟؟ایک معمولی وائرس کیوں بےقابو ہے؟کہیں اسکے عوامل کچھ اور تو نہیں؟دل اور ہوش کی آنکھوں سے دیکھیں تو مسلمانوں پر فلسطین, شام, چیچنیا, افغانستان,لبنان اور کشمیر میں آگ کے گولے برسائے گئے,خون کی ہولی کھیلی گئی,خواتین کی عزتیں پامال کی گئیں,شیرخوار بچوں کو روند ڈالا گیا ,لاک ڈاؤن اور ایسا لاک ڈاؤن کہ کشمیر میں کوئی ایسا گھر نہ بچا جس میں کسی اپنے کی قبر نہ ہو اسلئے کے میت دفنانے تک کی اجازت نہیں غرض کہ کونسا ظلم کا طریقہ ہے جو مسلمانوں کے ساتھ روا نہیں رکھا گیا کہیں یہ انہی مظلوموں کی آہوں کا اثر تو نہیں؟؟؟کہیں ان کی آہ و بکا سے عرش تو نہیں ہل گیا؟؟؟کہیں اس شامی بچے کی پرسوز شکایت کائنات کے مالک کے دربار میں پہنچ تو نہیں گئی جو کہہ گیا تھا عنقریب میں رب کے پاس پہنچ کر شکایت کرونگا۔آہ۔سوچنا چاہئے۔ہم مسلمانوں کے کلیجے تو چھلنی پڑے ہیں۔ہمارے بھائیوں بہنوں,بیٹیوں اور بچوں نے تو کرونا سے بڑے عذاب سہے ہیں۔تم سب آپس میں ایک تھے اور ہم نہتے اور تنہا۔شعب ابی طالب سے لیکر آج کے کشمیر اور غزہ تک لاک ڈاؤن تو ہمارے لئے کارزندگی بنادیا گیا تھا۔ کہیں انہی مظالم کی بدولت تم آج لاک ڈاؤن اور لاشیں اٹھانے پر مجبور تو نہیں؟؟؟ تمھارے نوجوان,  بچے بوڑھے اور عورتیں تمھاری ظالم و جابر حکومتوں کے ظالمانہ فیصلوں کی پاداش میں تو  موت کے اندھیروں میں سسک بلک نہیں رہے۔ہمیں تو دکھ ہے اور تمنا ہے کہ دنیا کا کوئی بھی انسان بغیر ایمان کے اس دنیا سے نہ جائے۔ یقین کیجئے کوئی مسلمان ان کفریہ ممالک کی اس عذابی صورتحال سے خوش نہیں۔ مسلمان تو اپنے ساتھ پوری دنیا کی بقا کی دعا مانگ رہے ہیں مگر کیا کریں بہت صبر سمیٹا ان طاغوتی ممالک نے۔ہماری نسل کشی, قتل عام,لاشوں اور عزت کی پامالی کو حادثہ کہا۔منظر بھوپالی نے کیا خوب کہا ہے:

تم سے کیا رکھے کوئی منصفی کی امیدیں

قتل عام کو تم نے حادثہ بناڈالا,

ہم تو پھول جیسے تھے آگ سا بناڈالا

ہائے اس زمانے نے کیا سے کیا بنا ڈالا

یقین کریں ہمارا ملجا و ماوی تو اکیلا رب ہے باقی تو کسی نے ہمیں مارنے مٹانے میں کسر نہیں اٹھا رکھی۔شاید اب بھی کورونا سے جان چھوٹ جائے تو یہ پھر سے مسلمانوں کو مٹانے کے نئے حربے آزمائیں۔دجال کے آنے سے پہلے دجالی رویوں سے مسلمانوں کو تہہ تیغ کرنے کا کوئی موقع نہ چھوڑیں۔غزہ ,کشمیر,شام اور دیگر اسلامی ممالک پھر سے میدان جنگ بن جائیں۔ڈونلڈ ٹرمپ نیٹو ممالک, مودی اور ہندو و برمی بدھمت انتہا پسندوں کے ساتھ مل کر  مسلمانوں کی نسل کشی کا نیا منصوبہ لیکر چڑھ دوڑین۔مگر سوچنا ضرور۔مسلمان کرونا یا تمھارے مظالم و ہتھیاروں سے شہید ہوں وہ تو شہادت کا تاج پہنے ہمیشہ کی جنت میں جائینگے مگر آج کرونا کل کو کوئی اور رب کا عذاب اس سے کہیں زیادہ برا حشر کرسکتا ہے۔رب کے کوڑے برس سکتے ہیں۔وہ گھروں میں قید بڑے بڑے سورماؤں کو کفن و تدفین کے بھی لائق نہ چھوڑے تو اسے کوئی چیلنج نہیں کرسکتا۔اسلئے کہ ظلم بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔اسلئے اپنے رویوں پر غور کریں۔اپنی طاقتوں کا دوبارہ جائزہ لیں جنہیں ایک معمولی وائرس نے تہہ تیغ اور پسپا کردیا ہے۔وہ ظلم نہ کریں جس کا معمولی عوض آپ کو تباہ و برباد کردے۔اسلئے کہ کائنات کی روح اللہ کا مبارک نام ہے۔یہ دنیا اسلام اور مسلمان کے دم سے ہے۔جب کبھی اسلام اور مسلمان نہ رہا,کلمہ لا الہ الا اللہ نہ رہا,اللہ کا مبارک نام نہ رہا تو پھر بس قیامت ہوگی۔آسمان و زمین کو لپیٹ دیا جائیگا۔ایک حساب کا دن شروع ہوگا جس میں مسلمان مظلوم اور کافر ظالم پیش ہونگے۔جہاں سب اختیار محمد کے رب کا ہوگا۔جہاں ہمیشہ کے لئے جہنم اور جنت کے فیصلے ہونگے۔جہاں مومنین کے سامنے سے کافروں کو ذلت و رسوائی کے ساتھ گزارا جائیگا اور کہا جائیگا یہ کافر تم پر ہنستے تھے آج تم ان پر ہنسو۔جہاں محمد صلی اللہ علیہ ایک ایک مسلمان کے سفارشی ہونگے۔وہ وقت یاد رکھو جو عنقریب آنے والا ہے۔خدا کی لاٹھی بے آواز ہے۔اسلام ہی سے کائنات کی زندگی ہے ورنہ سب ختم۔نہ طاقت نہ ٹیکنالوجی نہ مال و آسائش کچھ بھی قیمتی نہیں,سب  بےکار اور بے قیمت رہ جائیگا۔ہمارے لہو سے یہ گلستان دنیا مہکی ہے اسے اللہ کے نام, اسلام اور مسلمانوں سے مہکنے دو ورنہ نہ تم بچو گے نہ تمھارے گلزار۔منظر بھوپالی کہتے ہیں۔

اب اگر عظمت کردار بھی گرجائے گی

آپ کے سر سے یہ دستار بھی گر جائے گی

ہم سے ہونگے نہ لہو سیچنے والے جس دن

دیکھنا قیمت گلزار بھی گرجائے گی۔

محمد عدنان کیانی

محمد عدنان کیانی بین الاقوامی سطح پر جانی جانے والی دینی شخصیات کے انٹرویوز کے سلسلے میں اپنا مقام بنا چکے ہیں۔ وہ اردو و انگریزی کالم نگاری اور سب ایڈیٹنگ سمیت سماجی خدمات میں بھی پیش پیش ہیں۔ مذہبی امور پر مضبوط گرفت رکھتے ہیں۔

محمد عدنان کیانی