تازہ ترین

ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو

Nasir Mehmood
  • ناصر محمود
  • فروری 19, 2020
  • 10:48 شام

سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے وزیر خزانہ حفیظ شیخ کی تقریر کے جواب میں قومی اسمبلی کے ایوان میں جو حقائق پیش کئے وہ پوری قوم کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہیں۔

شاہدخاقان کے مطابق وزیر صاحب نے اپنے خطاب میں آٹے اور چینی کے بحران کے حوالے سے ایک لفظ بھی ادا نہیں کیا جس نے گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے پوری قوم کو لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ لوگ اس مہنگائی سے تنگ آکر خودکشیوں پر مجبور ہوگئے ہیں۔ حکومت کی جانب سے موڈیز کی رپورٹ پڑھ کر مطمئین ہونے اور پرائمری سرپلس کھا کر گزارا کرنے کی ترغیب دی جارہی ہے۔ اگر قوم سڑکوں پر نکل آئی تومنہ چھپانے کی جگہ نہ ملے گی۔

2018ءمیں آٹا چالیس روپے فی کلو میں دستیاب تھا مگر آج ستر روپے میں بھی نایاب ہے۔ چینی 53 روپے فی کلو بکتی تھی او رآج 90 روپے میں فروخت ہو رہی ہے۔ جبکہ یہ دونوں اجناس ملک کے اندر پیدا ہوتی ہیں۔ مسلم لیگ کی سابق حکومت نے پانچ ہزار ارب روپے کا قرضہ ادا کرنے کے بعد بھی بارہ ہزار ارب روپے بچاکر دکھائے۔ مگر آج کی حقیقت یہ ہے کہ آٹے اورچینی کی قیمتوں میں اضافے کے ذریعے ملکی عوام کی جیبوں سے 2 ارب روپے روزانہ لوٹے جارہے ہیں۔ یہ پیسہ کس کے پاس جارہا ہے۔ صرف جنوری کے ایک مہینے میں 60 ارب روپے کا ڈاکہ پڑچکا ہے۔ اس کے ذمہ دار کون ہیں؟

وزیر خزانہ کے اپنے بیان کے مطابق آج کی گروتھ زیرو کی بجائے منفی ہوچکی ہے جس کا واضح مطلب ہے کہ ملک دیوالیہ ہوچکا ہے اورآئندہ عوام کو ریلیف ملنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ ہمارے قرضوں پر سود کی ادائیگی پندرہ سو ارب سے بڑھ کر 32 سو ارب تک پہنچ چکی ہے۔ وفاقی حکومت کی کل سالانہ آمدنی سود کی ادائیگی میں صرف ہو رہی ہے اور باقی اخراجات مزید قرضے لے کر پورے کئے جارہے ہیں۔ اگریہ حکومتی اپنے پانچ سال پورے کر۔گئی توان قرضوں کی مجموعی رقم دوگنا بڑھ چکی ہوگی۔

بقول شاہد خاقان عباسی بجلی اور گیس کے معاملات آئین کے مطابق صوبوں کے حوالے کردینے چاہئیں ان کے دور میں وزیراعلیٰ خیبر پختون پرویز خٹک کو یہ پیش کش کردی گئی تھی کہ ہر صوبہ اپنی بجلی اور گیس کی پیداوار اور ترسیل کی ذمہ داری اٹھائے۔ آج گیس اور بجلی کی قیمتوں کی حالت ہوشربا حد تک بگڑ چکی ہے۔ فیصل آباد میں آنے والے ایک شخص نے انہیں اپنا بجلی کا بل دکھایا جس میں ایک چھوٹے صنعتی یونٹ کے بل کا نرخ 55 روپے فی کلو واٹ چارج کیا گیا تھا جو

انتہائی خوفناک صورتحال ہے۔ اتنی مہنگی بجلی سے ملک کی کوئی صنعت نہیں چل سکتی۔ کوئی کاروبار 16-17 فیصد کی شرح سود پر قرضہ لے کر ہرگز نہیں چل سکتا۔ لہذا صاف ظاہر ہے کہ ملکی معیشت اس حکومت کو دور میں مکمل تباہ ہوچکی ہے۔ اس کو سنبھالنے کی ضرورت ہے یہ نہایت سنجیدہ صورتحال ہے۔

آج کل آئی ایم ایف کی ٹیم پاکستان کے دورے پر موجود ہے۔ اور مذاکرات کا دور جاری ہے کہ اس کے مقرر کردہ اہداف میں پی ٹی آئی حکومت ناکام ہے۔ آئی ایم ایف اور موجودہ حکومت کے معاہدے بھی ایک طرفہ تماشے سے کم نہیںہیں۔ عام طور پر قرضہ لینے اور دینے کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے قرض لینے والا متعلقہ ساہوکار کو مناسب ضمانت دیتا ہے کہ اس کی دی ہوئی رقم معاہدے کے مطابق مقررہ وقت پر بمع سود واپس کردی جائے گی۔ اگر ساہوکار ان شرائط اور مدت پر مطمئن ہوتا ہے تو اس رقم کا قرض یکمشت ادا کرکے قرض خواہ کو اپنی ضرورت اور مدت پوری کرنے کی مہلت دیتا ہے۔

مگر یہاں توصورتحال ہی نرالی ہے کہ جب نیازی حکومت کو اقتدار ملا تواس کے کارندوں اور ساہوکار ادارے آئی ایم ایف کے درمیان قرضہ اسکیم پر خفیہ مذاکرات اس سے کافی عرصہ پہلے ہی شروع ہوچکے تھے۔ چنانچہ جیسے ہی پی ٹی آئی کو اقتدار عطا ہوا اس نے آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن کے مطابق ملکی معیشت میں مختلف ٹیکسوں اور ڈیوٹیوں میں اضافوں کا سلسلہ شروع کردیا اور ساتھ ساتھ لوگوں کو متنبہ کرنا شروع کردیا کہ ملک کی معاشی حالت ٹھیک نہیں لہذا آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا۔ اس کے آنے جانے کا سلسلہ شروع میں ہی ظاہر ہوگیا اور معاہدے مذاکرات کا معاملہ بظاہر طول پکڑ گیا۔

قصہ مختصر یہ کہ سارے ڈراموں کے بعد اعلان ہوا کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ طے پاگیاہے جس کے تحت فوری طور پر فلاں فلاں محصولات میں اضافے کئے گئے ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ محصولات میں اضافوں کے ذریعے اس حکومت نے اپنی آمدنی میں اضافے تو پہلے دن سے ہی سمیٹنے شروع کر دیئے اور قوم پر مہنگائی کی یلغار شروع کردی مگر آئی ایم ایف سے جو 6 ارب روپے ملنے کا دعویٰ کیا گیاوہ نہ ملے۔

یہ حقیقت ریکارڈ پر موجود ہے کہ اس چھ ارب کے مجوزہ قرضے کی پہلے قسط موجودہ حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے دس ماہ بعد صرف ایک ارب ڈالر کی شکل میں ملی۔ جبکہ دوسری قسط میں 45 کروڑ ڈالر چھ ماہ بعد ملے اور مزید چھ مہینے بعد تیسری قسط میں 44 کروڑ ڈالر دینے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس پورے عمل کے دوران اس ساہوکار ادارے کے دو ملازمین کو ہماری حکومت نے وزیر خزانہ اور اسٹیٹ بینک گورنر کے عہدوں پر فائز کردیا جو ایک آزاد ملک میں مداخلت کی بدترین مثال ہے۔ ان کے علاوہ نہ جانے کتنے نامزد کردہ افراد کو دیگر چھوٹے عہدوں پر لا کر بٹھایا گیا اس بارے میں تفصیلات ظاہر نہیں کی گئیں۔ جبکہ ایف بی آر کا چیئرمیں بھی ان کی فرمائش پر بدلا گیا۔

اس پوری روداد کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو انکشاف ہوتا ہے کہ آئی ایم

ایف نے اپنے پلے سے ہمیں ایک ڈالر بھی اب تک نہیں دیا۔ مذکورہ بالا ایک

ارب 45 کروڑ جن کو حکومت اس ساہو کار ادارے کا عطا کردہ قرض ظاہر کر رہی ہے اصل میں یہ وہ رقم ہے جو اس ادارے کی فرمائش پر اس حکومت نے اندرون ملک پاکستانیوں پر محصولات میں اضافوں کے ذریعے وصول کی اور اسٹیٹ بینک میں بیٹھے ساہوکار کارندوں نے اس میں سے نہ صرف اپنا سود پیشگی ہڑپ کیا بلکہ اسی میں سے یہ رقم بطور قرض ہمیں عطا کردی۔ اب اگلے برسوں میں دھڑادھڑ محصولات میں مزید اضافوں اور ایف بی آر کی ٹارگٹ کارکردگی کا مطالبہ اسی لئے کیا جارہا ہے کہ جلد از جلد لوگوں کو نچوڑ کرجمع کردہ رقوم میں سے معاہدہ کے مطابق 6ارب ڈالر کی بقیہ اقساط ادا کرکے ان پر سود کی وصولیابی کی جائے اور پھر اصل زر کی واپسی کیلئے دباﺅ بڑھایا جائے۔

اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے اس عظیم الشان پیکج کا اس کے سوا اور کوئی مقصد نہیں کہ ہماری جوتیاں اور ہمارا سر۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں اس سے بڑا معاشی فراڈ اور کوئی نہیں ہوسکتا کہ اصل زر یعنی مطلوبہ 6 ارب ڈالر جن کی ہمیں اشد ضرورت تھی، کو فوری طور پر حاصل کرکے ہم اپنے زیر تکمیل تجارتی وصنعتی منصوبوں کو مکمل کرتے اور ان سے حاصل شدہ منافع اور محصولات سے اس قرض کی واپس ادائیگی کے قابل بنتے۔ الٹا ہمارے قتل عام کا ذریعہ بنا دیا گیا۔ واہ میرے لیڈر واہ۔

ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو۔

ناصر محمود

پاکستانی صحافت کا بیک وقت اردو و انگریزی زبانوں میں مصروف عمل نام۔ 41 سالہ تجربہ میں تمام اصناف کا احاطہ شامل ہے۔ اردو ہفت روزہ "تکبیر" اور انگریزی روزنامہ "پاکستان آبزرور" کے بانیوں میں شمولیت کا اعزاز حاصل ہے۔ صنعت، سیاست، دفاع اور انویسٹی گیشن رپورٹنگ جیسے متعدد اہم سنگ میل عبور کئے۔

ناصر محمود