تازہ ترین

بھارتی زعم کی تقویت ہماری معاشرتی تنزلی

indian zulam
  • قلم سے قلب تک
  • ستمبر 5, 2019
  • 12:21 شام

ایک زمانہ تھا جب لوگ خبریں سننے کیلئے کسی پڑھے لکھے کا انتظار کیا کرتے تھے، یا کسی ایسی جگہ کا انتخاب کیا جاتا تھا جہاں ریڈیو جیسی نایاب چیز دستیاب ہوتی۔ پھر ٹیلی ویژن رات نو بجے کا وقت مشہور زمانہ خبرنامہ۔

تکنیکی انقلاب سے دنیا میں بھونچال آچکا ہے اور اس بھونچال کی شدت تیسری دنیا میں اور زیادہ تخریب کار ثابت ہوئی کیونکہ جب کم علموں کو بغیر استادوں کے علم تک رسائی ملنے لگی تو ادب کا مرتبہ کھو گیا۔ اس علم نے سب کو معلم بنا دیا، سب ایک دوسرے کو سمجھانے اور سیکھانے میں لگے ہوئے ہیں، افسوس کہ سمجھنے والا اور سیکھنے والا کوئی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرہ بے عمل عالموں سے کھچا کھچ بھر گیا ہے۔ یہاں پہلے تو اس بات سے آگاہ کرتا چلوں کہ اردو میں وائی فائی نہیں مل رہا، راستے کی مشکلات اپنی جگہ راستہ نا ملنے کے باوجود اردو کا سفر جاری و ساری ہے، آج ہم لوگ مقبول سماجی میڈیا پر بھرپور اردو استعمال کر رہے ہیں لیکن اس بات کا قطعی خیال نہیں کیا جارہا کہ اردو کو اسکی اصلی صورت میں ہی دنیا کے سامنے پیش کریں ناکہ جلد بازی کی وجہ سے دوسری زبانوں کے الفاظ ساتھ جوڑ لیں یا انگریزی کے حروف میں لکھیں، اس طرح سے کام تو چلتا ہے لیکن دائمی تاثر کبھی قائم نہیں ہوپاتا جیسا کہ ہمیں اب تک دنیا پر اردو کو ثابت کردینا چاہئے تھا۔ معاشرے کی بگاڑ اور معاشرتی اقدار کے قتل عام کی جہاں دیگر وجوہات بھی رہی ہوں گی لیکن ایک انتہائی اہم وجہ زبان کا یکسو نہ ہونا یا قومی زبان کو مناسب مقام نہ دینا، یعنی قومی زبان کے ہوتے ہوئے بھی نہ مانا جانا اور نہ ہی سرکاری سطح پر استعمال ہونا۔

دشمن کہ ذہن سازوں نے روز اول سے کسی نا کسی طرح سے ہمارے ذہن سازی کرنے والوں کوالجھائے رکھا ہے۔ ہماری فوج کو، ہمارے سیاستدانوں کو، ہماری ہر طرح کے اداروں کی انتظامیہ کو، ہمارے فنکاروں اداکاروں گلوکاروں کو،یہاں تک کہ عام آدمی اسالجھن سے نہیں بچا ہوا۔کیا ہم اب بھی یقین نہیں کرینگے کہ ہم پر ہمارے دشمنوں نے ہمارے اندر قسم قسم کی تخریب کاری بھر دی ہے اور ہم اپنی ہی تخریب کاری کی بدولت تباہ و برباد ہوتے جا رہے ہیں۔ اخلاقی گراو ٹ ایسی ہے کہ آپ کسی کے سامنے کھڑے نہیں ہوسکتے۔ اپنے موبائل فون میں وائی فائی کا بٹن بند کیا اور اس طرح دنیا سے رابطہ منقطع کرلیا، اب کوئی کچھ بھی کہتا رہے جب دل چاہے گا وائی فائی کا بٹن کھول کر دیکھ لیں گے اور ضروری سمجھا تو جواب دیدینگے ورنہ آج کل کسی کے پاس وقت ہے کہ باد میں ملے گا تو یاد رکھے گا۔ ایک طرح سے یہ بٹن معاملات کو گھمبیر ہونے سے روکنے میں مددگار بھی ثابت ہوسکتا ہے لیکن دوسری طرف کسی کی مشکلات میں اضافے کا سبب بن سکتا ہے، کسی کی جان بھی جا سکتی ہے اور اس طرح سے دیگر معاملات کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ یہ ایک بٹن پورے سماجی میڈیا کی باگ دوڑ سنبھالے ہوئے ہے بلکہ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ پورے سماج کی باگ دوڑ سنبھالے ہوئے ہے، یہ وہ بنیادی اکائی ہے جس کے بل بوتے پر دونیا میں رونما ہونے والے اچھے برے واقعات قلیل وقت میں ساری دنیا میں بیک وقت ایک کونے سے دوسرے کونے میں پہنچ رہے ہیں۔ کون کس کے حق میں ہے اور کون کس کے خلاف یہ بھی وائی فائی کے توسط سے چلنے والے سماجی میڈیا  سے باآسانی معلوم ہوجاتا ہے، یہاں کسی قسم کی تحقیق کی بھی کوئی خاص ضرورت نہیں پڑتی۔ہم جدیدیت کہ اس دور میں پہنچ چکے ہیں جہاں دنیا کو ماحولیات کی شدید فکر لاحق ہے، جب دنیا کو سمندری آلودگی کا مسلۂ درپیش ہے، جب دنیا موسمی تغیرات سے خوفزدہ سرجوڑ کر بیٹھی ہے کہ کس طرح سے بدلتے ہوئے شدید موسموں سے نمٹا جاسکے اور دنیا زمین سے اٹھ کر مریخ یا کسی اور سیارے پر رہنے کے اسباب تلاش کر رہی ہے۔

مسلمانوں نے ہندوستان پر لگ بھگ ہزار سال حکومت کی اور بھرپور حکومت کی ہندوستان کی پہچان مسلمان بادشاہوں کی بدولت ساری دنیا میں عام ہوئی، ہندوستان کی تہذیب و تمدن مرتب کیا اور دنیا کو اپنی جانب متوجہ کرایا۔ مسلمان بادشاہوں نے کبھی ہندو دشمنی نہیں دیکھائی یہ اور ہمیشہ ذات پات سے بالا تر ہوکر اپنے حقوق ادا کئے۔ہندوستان میں ریاستوں پر قبضوں کیلئے جنگیں ہوئیں جن میں دونوں طرف سے لڑنے والے علاقے کی پہچان کیلئے لڑتے تھے اور بیک وقت ہندو، سکھ، مسلمان اور عیسائی تھے۔اسے مسلمانوں کی بد قسمتی کہیں کہ غیر مستحکم حکمت عملی کے ہمیشہ ہی انہیں اپنا دوست سمجھا جنہیں اللہ رب العزت نے واضح طور پر بتا دیا کہ یہ تمھارے دوست نہیں ہوسکتے۔ مسلمانوں نے یہ سب جانتے بوجھتے دوستیاں بھی کیں اور کچھ حکمرانوں نے تو رشے داریاں بھی کیں اور آج دنیا میں دوسرے دیگر اسلامی ممالک وہ سب کچھ کر رہے ہیں جس کا کیا جنوبی ایشیاء کہ مسلمان سو سال پہلے سے اب تک بھگت رہے ہیں۔ معلوم نہیں کیوں دنیا کی ہر بات سمجھ میں آجاتی ہے لیکن اتفاق و اتحاد کیا ہوتا ہے یہ سمجھ نہیں آرہا شاید اسے قدرت کا عذاب سمجھ لیا جائے۔ آج جب کشمیری سسکیاں لے رہے ہیں، بھارت کی بربریت کا درندگی کا نشانہ بن رہے ہیں ایسی زندگی گزار رہے ہیں کہ زندگی کو بھی شرمندگی محسوس ہورہی ہوگی اقوام متحدہ کی تنظیم موسمی تبدیلیوں پر ساری دنیا میں آگاہی مہم چلا رہی ہے۔ کیا ہمیں اب بھی سمجھ نہیں آرہی کہ یہ ایک سوچی سمجھی سازش ہے جس کے ذریعے ہمیں گھسیٹ گھسیٹ کر اندرونی اور بیرونی خطرات کی جانب دھکیلنا ہے۔

زرا غور کرنے پر ایکدوسرے کو مجبور تو کریں نا کہ یہ کیسی سماجی ناانصافی ہے کہ اکیسویں صدی میں جیتے جاگتے انسانوں پر انسانیت سوز مظالم ڈھائے جا رہے ہیں اور ساری دنیا سوائے مذمت کے ایک قدم آگے بڑھنے کو تیار نہیں ہے۔ کیا ہم نے نہیں دیکھا کہ کشمیر کی موجودہ صورتحال کے سامنے امریکہ کا نائن الیون کا واقع بھی معدوم ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔تاریخ کی بدترین ریاستی دہشت گردی کشمیر میں کی جارہی ہے اور کسی کی کان پر جوں نہیں رینگ رہی ہم کسی غیر اسلامی ملک سے کیا کہہ سکتے ہیں جب ہمارے اپنے اسلامی ممالک، دنیا کے سب سے بڑے دہشت گرد کو اعلی اعزازات سے نواز رہے ہوں، ان زمین کے شاہوں کے محلوں تک ابھی مظلوموں کی چیخیں نہیں پہنچ رہی ہیں، اب یہ چیخیں ان محلوں کی درو دیوار گرا کر ان کے کانوں تک پہنچنے والی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ قدرت نے انسانوں سے ہی کام لینے ہوتے ہیں لیکن وہ قادر متلق انسانوں کے روپ میں فرشتے بھیج دیتے ہیں، جو وہ کام سرانجام دیتے ہیں جو اللہ رب العزت کی چاہ ہو تی ہے۔

ہماری سیاسی، معاشی،داخلی اورمعاشرتی تنزلی کی جانب دھکیلنے میں بھارت کے ذہن سازوں نے بھرپور کردار ادا کیا اور پھرکہیں جا کر کشمیر پر کئے جانے والے اقدام پر اکسایا ہے۔بھارت کی مسلمان دشمنی اب بھر پور طریقے سے کھل کر سامنے آچکی ہے (یہ بھی جدیدیت کی مرہون منت ہے)بات تقسیم ہند سے شروع ہوئی تھی اور اب واپس وہیں لے جانے کی کوشش کی جاری ہے۔ بھارت میں موجود وہ مسلمان جوحسب نصب والے ہیں وہ کیا کرینگے؟ کیا وہ ابھی بھی کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے بیٹھے رہینگے؟ یہاں تک کہ بلی انہیں کھا جائے، یا پھر دنیا میں اپنے ان مسلمانوں کیلئے آواز اٹھائیں گے جن کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ بھارت میں انسانیت کی تذلیل ہمیشہ سے جاری و ساری ہے لیکن افسوس دنیا کو عراق میں جمہوریت کی فکر ستائی، لیبیاء کی فکر لاحق ہوئی، افغانستان کی فکر میں مبتلاء ہے، یمن اور شام کی پریشانی سے نکل نہیں پا رہے، آخر انسانیت کا یہ دوہرا میعار کیوں۔ کیا دنیا کے منصف دنیا کو اپنے ہاتھوں سے آگ لگانے کی تیاری کررہے ہیں جب کہ وہ بھی اسی آگ میں جل جائینگے۔بظاہر ایسا لگنے لگا ہے کہ بھارت کے بزدل حکمران ہندو مذہب کو دنیا کا مذہب بنانے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ مسلمانوں سے نفرت کو ان ہندؤں نے پال پوس کر گزشتہ ۰۸ سالوں میں بہت بڑا کر لیا ہے اتنا بڑا کہ اب یہ اقتدار میں ہیں اور مذہبی انتہا پسندی ڈنکے کی چوٹ پر کر رہے ہیں کشمیر کو تو ایک طرف رکھ دیجئے اب تو بھارت میں پیدا ہونے والے مسلمانوں کو اپنے بھارتی ہونے کی وضحاتیں دینی پڑیں گی۔ بھارت، پاکستان اس میں بسنے والے پاکستانیوں کو 1947 سے بھی پہلی والی حیثیت میں دھکیلنے کہ درپے ہے، بھارت کو شاید اپنی آبادی کا زعم ہے یا پھر اسکی سمجھ یہ ہے کہ وہ معاشی طور پر پاکستان سے زیادہ مستحکم اور منظم ہے، دنیا میں اور خاص طور پر ترقی یافتہ ممالک سے اسکے مراسم پاکستان سے کہیں زیادہ اچھے ہیں جن میں بعض اہم اسلامی ممالک بھی شامل ہیں۔ آج جب کہ کشمیر جل رہا ہے، فلسطین کی سرزمین تنگ سے تنگ ہوتی چلی جارہی ہے، بھارتی مسلمانوں کو ایک نئی ہجرت پر دھمکایا جا رہا ہے پھر بھی دنیا کے مسلمان اپنی اپنی سرحدوں تک محدود رہنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ وقت چیخ چیخ کر امت کا تقاضہ کررہا ہے لیکن ہم پہلو بدل بدل کر حالات و واقعات کا جائزہ اپنی سرحدوں میں پُر تعیش زندگی گزارتے ہوئے لے رہے ہیں۔ دنیا کو بہت اچھی طرح سے سمجھ لینا چاہئے کہ کشمیر کی آگ سے اٹھنے والی ایک چنگاری نا صرف پورے خطے بلکے ساری دنیا کی زندگی اجیرن کرنے کیلئے کافی ہوگی، بس انتظار اس بات کا ہے کہ یہ چنگاری پاکستان کی غیرت پر کب گرتی ہے۔

شیخ خالد زاہد

شیخ خالد زاہد مختلف اخبارات اور ویب ساٹس پر کالم اور بلاگز لکھ رہے ہیں۔ "قلم سے قلب تک" ان کا مستقل عنوان ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ پاکستان فیڈرل یونین آف کالمنسٹ (پی ایف یو سی) کے رکن بھی ہیں۔ ہماری ویب رائٹرز کلب میں بطور اعزازی نائب جنرل سیکریٹری کے فرائض انجام دے رہےہیں۔

شیخ خالد زاہد