تازہ ترین

سلطنت عثمانیہ کا بانی ایک، لیکن مزار دو

sultanat usmania ka bani aik lekin mazar do
  • واضح رہے
  • اکتوبر 25, 2022
  • 9:22 شام

ترکی کے تاریخی شہر برصہ میں سلطنت عثمانیہ کے بانی سلطان عثمان غازی کا مزار ہے، جو بازنطینی طرز تعمیر کا شاہکار ہے

عثمان غازی کی جانب سے فتح کیا گیا شہر برصہ غازی خاندان کے بیشتر ارکان کی آخری آرام گاہ ہے۔ برصہ میں توفانے کے مقام پر سلطان عثمان غازی، ان کے بیٹے اور دوسرے سلطان اورہان غازی، ان کے بیٹے اور عثمان کے پوتے تیسرے سلطان مراد اوّل اور ان کے شہزادوں، شہزادیوں، خاندان کے دیگر افراد، کمانڈرز اور مجاہدین کے مزارات ہیں۔

دنیا بھر سے مسلمان سیاحوں کی بڑی تعداد یہاں سلطنت عثمانیہ کی بنیادیں رکھنے والے سلیمان شاہ کے بیٹے ارطغرل اور سلطنت کے پہلے سلطان، سلطان عثمان غازی کے مزار پر حاضری دیتی ہے اور یہاں فاتحہ خوانی کی جاتی ہے۔ برصہ کا یہ مقام ایک طرح سے تاریخی سیاحتی مقام کی حیثیت رکھتا ہے۔

بہت سے سیاح سلطان عثمان غازی کے مزار پر حاضری کے وقت وہی لباس زیب تن کرکے تصاویر بنواتے ہیں، جیسا وہ اور ان کے الپ یعنی مجاہدین پہنا کرتے تھے اور وہ تلواربھی ہاتھ میں تھام لیتے ہیں، جس کو چلا کر وہ صلیبیوں اور منگولوں کے پرخچے اڑا کر فتح حاصل کیا کرتے تھے۔

عثمان غازی کے مزار پر نماز کے اوقات سے پہلے اسی دور کی وردیوں اور اسلحہ (تلوار اور چھروں) سے لیس گارڈز سلامی دیتے ہیں، ان سے اپنی وفاداری کا عہد کرتے ہیں اور ان کی قربانیوں، خدمات اور ایک وسیع سلطنت کی بنیاد رکھنے پر انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔

سلطان عثمان غازی کا ایک اور مزار ان کے آبائی علاقے سوگوت میں بھی ہے، جو 18ویں صدی میں اس وقت کے حاکم نے عقیدتاً تعمیر کرایا تھا۔ درحقیقت سلطان غازی کو سوگوت میں ہی دفنایا گیا تھا۔ بعد ازاں ان کا جسد خاکی سلطنت کے دارالحکومت برصہ منتقل کیا گیا۔

sultanat usmania ka bani aik lekin mazar do

سلطان عثمان غازی کا انتقال اپنے آبائی شہر سوگوت میں 1324ء میں ہوا، جہاں وہ 1255ء میں پیدا ہوئے تھے۔ 73 برس کی عمر میں عثمان غازی کی وفات کے بعد ان کے بیٹے اورہان غازی نے ان کا جسد خاکی برصہ منتقل کرنے کا اعلان کیا۔ واضح رہے کہ برصہ کو ترکوں نے بازنطینیوں سے طویل لڑائی کے بعد حاصل کیا تھا اور اسی خوشی میں اسے سلطنت کا دارالحکومت بھی منتخب کیا گیا تھا۔

مورخین کا کہنا ہے کہ سلطان عثمان غازی نے اپنے بیٹے کو وصیت کی تھی کہ ''جب میرا انتقال ہو جائے تو مجھے (برصہ) میں اُس چاندی کے گنبد کے نیچے دفن کرنا''۔ اورہان غازی نے اپنے والد اور سلطنت عثمانیہ کی وصیت پر عمل کیا اور یہاں ایک مقبرہ تعمیر کرایا، جس کیلئے قدیم بازنطینی اسٹرکچر استعمال کیا گیا تھا۔

یہ ڈھانچہ برصہ کو فتح کئے جانے کے بہت سال پہلے کا تھا۔ یعنی یہ ایک انتہائی مضبوط مقبرہ تھا، جو زلزلوں کے نتیجے میں کم از کم دو مرتبہ زمین بوس ہوا۔ 1855ء میں آنے والے زلزلے کے باعث مزار کی عمارت مکمل طور پر تباہ ہوگئی۔ لہٰذا عثمان غازی کے مقبرے کو نئے سرے دوبارہ تعمیر کرنا پڑا۔

برصہ میں عثمان غازی کا موجودہ مزار سلطان عبدالعزیز کے دور کا تعمیر کردہ ہے، جن کی حکومت 1861ء سے 1876ء کے درمیان رہی۔ اس کے بعد اگلے سلطان، سلطان عبدالحمید دوئم نے اس کی تزئین و آرائش کرائی اور ساتھ ہی سوگوت میں بھی اس مقام پر ایک مقبرہ تعمیر کرایا، جہاں امانتاً عثمان غازی کی تدفین کی گئی تھی۔ بعدازاں ان کی باڈی برصہ منتقل کی گئی۔

ایک وقت تھا کہ خلافت عثمانیہ کا سورج تین براعظموں پر طلوع ہوتا تھا اور دنیا کے سمندروں کے تین چوتھائی پر اس کی حکمرانی تھی۔ اور وہ دنیا کی واحد بڑی سپر طاقت تھی، جو متعصب صلیبیوں، مکار اور سازشی صیہونی یہودیوں اور دوسری اسلام دشمن قوموں کی نگاہوں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہی تھی۔

اس کو کمزور کرنے اور بالآخر اسے صفحہ ہستی سے مٹانے کی سازشیں ہر دور میں ہوتی رہی ہیں۔ اس کے لئے دشمنوں نے خلافت عثمانی میں خود شاہی محلات میں عثمانی حاکموں کے خاندان کے شہزادوں، ان کے پاشاؤں اور فوجیوں کو زر، زمین اور زن کے ساتھ ساتھ اقتدار کے جھوٹے لالی پاپ جیسے ہتھیاروں سے خریدنے کی کوششیں کیں۔

آخر کار ان قوتوں کے گٹھ جوڑ اور صیہونی اور ان کی زیر زمین خفیہ منظم ترین تنظیم برادر ہڈ اور فری مسینری کی مکارانہ سازشوں کے نتیجے میں اس وقت کی واحد سپر طاقت خلافت عثمانیہ خاتمہ کر دیا گیا اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے اس کے علاقوں کو چھوٹے چھوٹے  کمزور ممالک میں اٹ دیا گیا۔

آج جدید دور میں سلطنت عثمانیہ کی واحد نشانی ترکی ہے، جہاں اسلامی نظریات رکھنے والی قیادت بھی مغرب کی آنکھوں میں کھٹک رہی ہے۔ ترک قیادت کو راستے سے ہٹانے کیلئے فوجی بغاوت سمیت مختلف سازشیں ابھی تک بھی رچائی گئیں، لیکن حکومت کے ساتھ عوامی طاقت ہونے کے سبب یہ کامیاب نہ ہوسکیں۔

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے