تازہ ترین
گجرانوالہ میں پنجاب کالج کے طلباء کی گرفتاریاں: وجوہات، واقعات اور اثراتپاکستان ایشیائی ترقیاتی بینک کے بانی ژاؤ چن فان کا نام لے لیا گیا۔اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی کو ایک سال بیت گیاگریٹر اسرائیل قیام کامنصوبہغزہ کو کھنڈر بنانے کے بعد اسرائیل کی خوفناک ڈیجیٹل دہشت گردیآئی پی پیز معاہدے عوام کا خون نچوڑ نے لگےایٹمی پاکستان 84 ہزار 907 ارب روپے کا مقروضافواج پاکستان کی ناقابل فراموش خدماتراج مستری کے بیٹے ارشد ندیم نے پیرس اولمپکس میں تاریخ رقم کردیہیلتھ اینڈ سیفٹی ان کول مائنز “ ورکشاپ”ٹی ٹی پی ، را ،داعش، این ڈی ایس اور براس متحرکفلسطینیوں کی نسل کشیدرس گاہیں ، رقص گاہیں بننے لگیسی پیک دہشت گرودں کے نشانے پرحافظ نعیم الرحمن امیر جماعت اسلامی منتخبنئی حکومت کو درپیش بڑے چیلنجزکشمیراورفلسطین میں قتل عام جاریبھارتی دہشت گردی نے کشمیر کوموت کی وادی بنا دیاووٹ کا درست استعمال ہی قوم کی تقدیر بد لے گادہشت گرد متحرک

غزہ کو کھنڈر بنانے کے بعد اسرائیل کی خوفناک ڈیجیٹل دہشت گردی

Gaza Ko Khhander Banane K Baad Israel Ki Khofnak Digital Dehshat Gardi
  • rahilarehman
  • ستمبر 26, 2024
  • 2:25 شام

دریائے فرات سے بحر احمر تک گریٹر اسرائیل قیام کامنصوبہ

انبیائے کرام کی سرزمین فلسطین کو وحشی درندے اسرائیل نے تباہ اور برباد کرنے کے بعد مشرقی وسطیٰ میں جنگ کا دائرہ وسیع کردیاہے۔لبنان کے مختلف شہروں میںپیجرز ، واکی ٹاکی، اسمارٹ فونز ، لیپ ٹاپ، ریڈیو ڈیوائسز اور سولر پینلز میں نصب بارودی مواد کے ذریعے سے کئے گئے دھماکوں کے نتیجے میں 32افراد شہید اور 3250افراد زخمی ہوئے تھے ۔اس خوفناک ڈیجیٹل دہشت گردی کے بعداسرائیل نے لبنان کے جنوب میں واقع بیروت کے قریبی علاقے الضاحیہ کے سو سے زائد مقامات پر920 کلو گرام وزنی امریکی ساختہ ایم کے ۔84 بموں کی بارش برسائی جس کے نتیجے میں 8 شہری شہید اور 60 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔غزہ میں انسانیت سوز مظالم اور دہشت گردی کے عین بیچ دو ہمسایہ ملکوں کی سرزمین پر حملوں میں دو اہم لیڈروں اسماعیل ہنیہ اور ایرانی صدر کو قتل کر کے اسرائیل نے مشرق وسطیٰ میں پہلے ہی ایک نئی جنگ کو دعوت دے چکا ہے۔مشرقی وسطیٰ میں جنگ کا دائرہ وسیع ہونا دریائے فرات سے بحر احمر تک گریٹر اسرائیل قائم کرنے کے درینہ منصوبے کا حصہ ہے۔اسرائیل کے نقشے میں اُردن اور لبنان مکمل جبکہ شام ، عراق ،سعودی عرب اور مصر کا ایک بڑا حصہ شامل ہے۔جنگ کی ٹیکنالوجی جو سینکڑوں برس قبل تیر تلوار ڈھال وغیرہ پر مشتمل تھی، مختلف مراحل سے گزرتی ہوئی اب ڈیجیٹل دہشت گردی کے دور میں داخل ہوچکی ہے اور اسرائیل تحقیق، ٹیکنالوجی اور مسلسل کاوشوں کے ذریعے نہ صرف انہیں لبنان میں استعمال کرچکا بلکہ اس سے آگے کے مراحل پر دسترس کا دعویدار بھی ہے۔اسرائیل کے دانشوروں نے چند سو برس قبل دنیا پر قبضہ کرنے کا باقاعدہ روڈ میپ بنایا، اس کی تحریری دستاویزات1897ءمیں ایک خفیہ ایجنٹ کے ذریعے دنیا کے سامنے آئیں اور اسرائیل کے قیام سے لیکر آج تک معاملات منصوبے کے مطابق آگے بڑھ رہے ہیں۔

7 اکتوبر 2023 کو شروع ہونے والی اسرائیل اور حماس جنگ کواسی مہینے کی سات تاریخ کو ایک سال پورا ہو جائے گا۔اس عرصے میں اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ کی پٹی میں فلسطینی شہریوں کا منظم قتل عام جاری رہا ہے۔دہشت گردی کے عالمی چمپئن اسرائیل نے امریکا ، فرانس اور برطانیہ کی سرپرستی کی بدولت ایک سال میں غزہ کی پٹی پر سفاکانہ حملوں کے نتیجے میں کم از کم ساٹھ ہزار سے زائد افراد شہید اور دو لاکھ سے زائد زخمی ہوچکے ہیں جبکہ اقوام متحدہ کے مطابق انخلا کرنیوالے فلسطینیوں کی تعداد 9لاکھ کے قریب ہے۔غزہ میں جس رفتار سے لوگوں کی شہادت ہوئی ہے، اس کی موجودہ صدی میں کوئی اور مثال نہیں ملتی۔ جو لوگ ہلاک یا زخمی ہونے سے بچ گئے ہیں انھیں خوراک، صاف پانی، ادویات اور طبی سہولیات کی غیر موجودگی کے باعث جان کا خطرہ ہے خوراک کی قلت کے سبب بھی بڑی تعداد میں بچوں کی اموات ہو رہی ہیں۔ شہید ہونے والوں میں خواتین اور بچوں کی تعداد 20 ہزار سے زائد ہے۔ اقوام متحدہ ، او آئی سی ، انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں سمیت دنیا کی کوئی بھی طاقت یا عالمی ادارہ اسرائیل کی دہشت گردی روکنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔عالمی عدالت انصاف بھی اسرائیلی حکومت کو غزہ میں جنگ بند کرنے کا حکم دے چکی ہے مگر اس کے باوجود فلسطینیوں کا قتل عام جاری ہے۔ عالمی عدالت انصاف فلسطینی علاقوں پر اسرائیل کے قبضے کوبھی غیر قانونی قرار دے چکی ہے۔ کونسل آن فارن ریلیشنزکے مطابق 1948 کے بعد سے اسرائیل کو امریکا سے تقریباً 300 بلین ڈالر (280 بلین یورو) کی امداد ملی ہے، اس میں سے زیادہ تر فوجی مقاصد کے لیے تھی جبکہ اسرائیل کی آبادی صرف 9.5 ملین ہے،سات اکتوبر2023 کو اسرائیل اورحماس جنگ شروع ہونے پر امریکا نے اسرائیل کو ہتھیار بھیجے، اپنے جنگی بحری بیڑوں کو خطے میں بھیج دیا اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جنگ بندی کی قراردادوں کو ویٹوکیا۔

غزہ ایک ساحلی پٹی ہے جو بحیرہ روم کے ساحل کے ساتھ قدیم تجارتی اور سمندری راستوں پر واقع ہے۔غزہ کی لمبائی 41 کلومیٹر اور چوڑائی بارہ کلومیٹر ہے، ایک مقام پر تو چوڑائی صرف 6 کلو میٹر رہ گئی ہے۔ چھوٹی سی جگہ پر سات اکتوبر 2023 تک23 لاکھ لوگ مقیم تھے۔ 1917 تک یہ پٹی سلطنت عثمانیہ کے زیر سایہ رہی اور گزشتہ صدی کے دوران برطانیہ سے مصر اور کو منتقل ہوا۔1948میں فلسطینیوں کی وسیع پیمانے پر نسل کشی جس کے بعد فلسطین میں اسرائیل کے قیام کا اعلان کر دیا گیا تھا۔ جیسے 1948 میں اسرائیل کی تشکیل کے دوران ہونے والی جنگ میں لاکھوں فلسطینی اپنے گھروں سے نقل مکانی پر مجبور ہوئے تھے، جس کا خمیاز فلسطینی آج تک بھگت رہے ہیں۔ صیہونی حکومت فلسطین کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے درپے ہے۔

سرزمین فلسطین کا 75 فیصد سے زیادہ حصہ غصب کرنے کے بعد اب اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔1948 میں فلسطینی عرب حوج نامی جگہ پر آباد تھے جہاں اسرائیلی فوجوں نے قبضہ کر کے انھیں مغرب میں واقع غزہ کے علاقے کی طرف دھکیل دیا اور مقبوضہ جگہ کو نیا نام سیدیرت دے دیا۔وہ دن اور آج کا دن، فلسطینیوں کے آباو ¿ اجداد کی زمین اسرائیل کے قبضے میں ہے اور وہ غزہ میں پناہ گزینوں کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔لیکن اسرائیل نے اس ظلم کو کافی نہیں سمجھا اور مسلسل اس کوشش میں رہا کہ سارے فلسطین پر قبضہ کیا جائے اور اب بالآخر اس نے یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ فلسطین کے علاقوں پر قبضہ کرلیا جائے۔اس قبضہ کے بعد فلسطین کا رابطہ مصر، اردن، لبنان اور شام سے کٹ جائے گا اور یہ چاروں طرف سے اسرائیلی قبضے میں آجائے گا۔ ہر طرف سے اسرائیلی ریاست میں گھر جانے کے بعد فلسطین کی کوئی سرحد باقی رہے گی اور نہ کوئی خود مختاری اور اس وقت اسرائیل فلسطین کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے اس ناپاک منصوبے کو عملی جامہ پہنا رہا ہے۔اسرائیل کی ناجائز ریاست کا قیام 1948 میں ایک لمبی گہری سازش جس میں عرب، برطانیہ اور بین الاقوامی دیگر قوتیں شامل تھیں ہوا، پھر برطانیہ کا عربوں کو دھوکہ اور برطانوی انتداب فلسطین کے خاتمے کے بعد اقوام متحدہ نے فلسطین کو دو ریاستوں میں تقسیم کرنے کا منصوبے کو عملی جامع پہنایا۔ اقوام متحدہ نے یہودی دہشت گردی کو روکنے کے بجائے 1948 میں اپنی قرارداد 181 منظور کرتے ہوئے دو ریاستی حل کی بات کی جس سے اسرائیل کی راہ ہموار ہوگئی۔نہ صرف یہ بلکہ امریکی دباو ¿ میں منظور ہونے والی اقوام متحدہ کی اس قرارداد میں 5.5 فیصد یہودیوں کو فلسطین کے 56 فیصد حصے کا مالک بنا دیا گیا۔

فلسطینیوں نے اس تقسیم کو تسلیم نہیں کیا اور پھر عرب اسرائیل جنگ کا آغاز ہوا جس کے نتیجے میں ہزاروں فلسطینی بے گھر ہوگئے اور اسرائیل نے فلسطین کے بڑے حصے پر قبضہ کر لیا۔ 1967 کی چھے روزہ جنگ میں اسرائیل نے مغربی کنارے، غزہ، مشرقی یروشلم اور گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کر لیا،جو آج تک جاری ہے۔ فلسطین پر اسرائیلی قبضہ نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے بلکہ یہ فلسطینیوں کے حق خود ارادیت پر بھی قدغن ہے۔ 1967 میں ہونے والی چھ روزہ جنگ کے بعد سے مشرقی بیت المقدس پر اسرائیل کے ناجائز قبضہ کو عالمی برادری کی اکثریت نے تسلیم نہیں کیا اور اقوام متحدہ کی کئی قراردادیں اس عمل کو غیر قانونی قرار دیتی ہیں، تاہم اسرائیل کی یہ ہٹ دھرمی ہے کہ وہ یروشلم کو اپنا دارالحکومت کہتا ہے۔ اسرائیل کی اس دھاندلی کو مسلمانوں نے کبھی بھی تسلیم نہیں کیا کیونکہ ان کے نزدیک القدس فلسطین کا دارالحکومت ہے۔ مسلمان اس کے لیے مزاحمت کرتے رہے ہیں اور اس کو کچلنے کی خاطر اسرائیل بدترین مظالم کرتا رہا ہے اور اب تو اسرائیل فلسطینی عوام کی نسل کشی کر رہا ہے۔امریکا دنیا پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے دنیا کے مختلف خطوں میں عدم استحکام پیدا کررہا ہے۔ یورپ پر اپنی گرفت رکھنے کے لیے روس یوکرین جنگ میںیوکرین کو باردو دے کر جنگ کو طول دے رہا ہے تو دوسری طرف مڈل ایسٹ پر اپنا کنٹرول برقرار رکھنے اور اپنے عالمی ایجنڈے غزہ کو میدان جنگ بنا کر فلسطینیوں کے قتل عام میں مصروف ہے۔غزہ اور مشرق وسطیٰ کا منظرنامہ واضح ہے۔ اسرائیل کی پالیسی بھی واضح ہے۔ اسرائیل کی پالیسی یہ ہے کہ وہ فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے باہر دھکیلنا چاہتا ہے۔ اب وہ دو ریاستی حل سے بھی پیچھے ہٹ گیا ہے۔ اس کی مثال اسرائیلی پارلیمنٹ کی قرارداد ہے جس میں دوریاستی فارمولے کو مسترد کر دیا گیا ہے۔

اسرائیل کی جارحانہ پالیسی کے سبب مشرقی وسطیٰ میں دن بدن کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے۔اسرائیل کی جنوبی لبنان کے علاقں میں ڈیجیٹل دہشت گردی کے بعد مسلم ممالک سمیت عالمی برادری کو اس خوفناک منصوبہ سے تحفظ کیلئے جدید ٹیکنالوجی کی طرف آنا ہوگا۔ جس طرح ایک ایٹم بم دوسرے ایٹم بم کا ڈیٹرنس ہے، اسی طرح جدید ٹیکنالوجی کے ہتھیاروں کا ڈیٹرنس جدید ٹیکنالوجی ہی ہے جس کی طرف ہمیں فوری، بھرپور اور منظم طور پر آنا ہوگا۔عرب ممالک افرادی طاقت، ملکوں کی تعداد اور وسائل کی دستیابی کے باوجود آج اگرچہ اسرائیل سے پیچھے محسوس ہورہے ہیں مگر دین اسلام کی آمد کے بعد علم حاصل کرنے کے حکم کی تعمیل میں پرانے علوم کو زندہ کرکے کتابیں لکھ کر، تحقیق کرکے، ایجادات و اختراعات کرکے ایک وقت میں نہ صرف خود جنگی امور سمیت تمام علوم میں آگے بڑھے بلکہ یورپ کو بھی علم کی روشنی سے منور کرنے کا ذریعہ بنے۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ 57مسلم ممالک اپنی افرادی طاقت اور وسائل کے باوجود کتابوں کی اشاعت، تعلیم کے فروغ، تحقیق، ایجادات میں کیونکر پیچھے محسوس ہورہے ہیں۔ جس دور میں روس جیسی طاقت کو اسٹنگر میزائل سے زیر کرنے، طالبان کے ناقابل رسائی ٹھکانوں تک ڈرون حملے کرنے اوراسماعیل ہانیہ کو محفوظ مقام پر نشانہ بنانےکی مثالیں موجود ہیں، اس میں اگر مسلم امہ سمیت عالمی برادری کو کچھ مشکلات کا سامنا ہے تویہ ضرورت بڑھ جاتی ہے کہ توسیع پسند دشمنوں کے منصوبوں سے باخبر رہا جائے اور ان کے توڑ کیلئے تحقیق و ٹیکنالوجی کے میدان میں یکسوئی اور بھرپور توانائی سے کام کیا جائے۔

راحیلہ رحمن

کراچی سے تعلق رکھنے والی سینئر صحافی ہیں۔جو پہلے راحیلہ ممتاز کے نام سے اخبار وطن ، غازی اور تکبیر میگزین سمیت ملک کے مختلف اخبارات میں سپورٹس ،قومی اور بین الاقوامی امور، حالات حاضرہ اور سماجی مسائل سمیت عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے مختلف موضوعات پر لکھتی تھیں جبکہ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے انٹرویوز بھی کرتی تھیں۔اب انہوں نے راحیلہ رحمن کے نام سے لکھنا شروع کیا ہے۔

راحیلہ رحمن