تازہ ترین
نئی حکومت کو درپیش بڑے چیلنجزکشمیراورفلسطین میں قتل عام جاریبھارتی دہشت گردی نے کشمیر کوموت کی وادی بنا دیاووٹ کا درست استعمال ہی قوم کی تقدیر بد لے گادہشت گرد متحرکنئے سال کا سورج طلوع ہوگیااسٹیبلشمنٹ کے سیاسی اسٹیج پر جمہوری کٹھ پتلی تماشاحکومت آئی ایل او کنونشن سی 176 کوتسلیم کرےجمہوریت کے اسٹیج پر” کٹھ پتلی تماشہ“ جاریدہشت گردی کا عالمی چمپئنالیکشن اور جمہوریت کے نام پر تماشا شروعافریقہ، ایشیا میں صحت بخش خوراک عوامی دسترس سے باہردُکھی انسانیت کا مسیحا : چوہدری بلال اکبر خانوحشی اسرائیل نے غزہ کو فلسطینی باشندوں کے قبرستان میں تبدیل کر دیا”اسٹیبلشمنٹ “ کے سیاسی اسٹیج پر ” نواز شریف “ کی واپسیراکھ سے خوشیاں پھوٹیںفلسطین لہو لہو ۔ ”انسانی حقوق“ کے چمپئن کہاں ہیں؟کول مائنز میں انسپکشن کا نظام بہتر بنا کر ہی حادثات میں کمی لائی جا سکتی ہےخوراک سے اسلحہ تک کی اسمگلنگ قومی خزانے کو چاٹ رہی ہےپاک فوج پاکستان میں زرعی انقلاب لانے کیلئے تیار

: ضلع استور میں فسادات اور اختلافات کی وجہ۔

  • فیصلان شفاء اصفہانی
  • جون 11, 2020
  • 5:50 شام

ضلع استور گاؤں میں فسادات کی وجہ سیاست کو قرار دیتے تھے لیکن اب یہ فسادات NGOS اور پارٹیوں کی شکل میں ضلع استور چونگرہ میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں

ضلع استور گاؤں میں فسادات کی وجہ سیاست کو قرار دیتے تھے لیکن اب یہ فسادات NGOS اور پارٹیوں کی شکل میں ضلع استور چونگرہ میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔کوئیNGO استور میں آئی لوگ منتخب ہوئے اور راما جو ایک سیاحتی مقام ہے أس کو بچانے کے لئے آٹھ کھڑے ہوئے۔بھاہیوں ہر کوئی چاتا ہے ماحول اور قدرتی چیزوں کو بچانا تو چند لوگ کیوں؟۔یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ راما میرے مطابق دنیا میں ہی ہمیں یہ جگہ جنت کی شکل میں ملی ہے۔أس کو بچانے کے لئے کچھ لوگ آٹھ کھڑے ہوئے اور اپنے ذاتی مفادات کو مدنظر رکھ کر راما جو ایک سیاحتی جگہ ہے اس کو اپنا مرکز بنایا۔سمجھ نہیں آ رہا مجھے کیا ہو رہا کوئی ایک گروپ تو اس کا حصہ نہیں بن سکتا سب متفق ہونگے تو کچھ ہوگا۔

NGOS کو ہم خوش آمدید کہتے ہیں NGOS تو آنے چاہے لیکن جو NGOS کو لا رہا ہے اس کو سوچنا چاہیے خدارا خدارا سب سے پہلے سب کے سامنے اپنا منشور کو پیش کرے۔اور پھر کام کا آغاز کرنا ہوتا ہے۔ہم مانتے ہیں NGOS انسان اور انسانیت کے لئے کام کرتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں۔لیکن NGOS کو کیسے کام کرنے دیتے ہیں یہ ہم پہ ہے۔ سوشل میڈیا میں جو باتیں چل رہی ہیں۔اس سے ایک بات تو سو فیصد واضح ہو رہی ہے کہ جو آرگنائزیشن جس کے نام سے بھی بنائی گئی ہو اس پہ سب لوگ متفق نہیں ہیں اس ایک گروہ کے فیصلوں پہ اور متفق ہونگے بھی کیسے۔سب کو پتہ ہے جو کام چھپے چوری ہوتا ہے

اور جب وہ لوگوں کے سامنے آتا ہے تو کوئی أسے نہیں مانتا اور اپنا اپنا نظریہ پیش کرتے ہیں اور لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں پھر حالات کا سب کو پتا ہے۔کیوں کہ ایک گروہ اپنے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے طریقے سے أس میں چیزیں شامل کرتے ہیں۔اور دوسروں کے خیالات کو پاؤں تلے روندتے ہیں وہ بھی انسان ہیں ان کے خیالات آپ کے کسی کام کے نہیں ہو لیکن آپ أن سے پوچھے تو صحیح چاہے بعد میں ان کے خیالات شامل کرے یا نہیں۔بس یہی ہوتا ہے اس طرح کر کے انھیں شامل نہیں کرتے تو آخر میں وہ پروجیکٹ فیل ہی ہونا ہے۔یہ ایک عوامی چیز کے لئے کر رہے تو اس میں سب کا شامل ہونا لازمی تھا لیکن ایسا کیا نہیں گیا۔اس طرح کی کوئی بھی آرگنائزیشن بنتی ہے تو سب سے پہلا کام یہ ہوتا ہے سب لوگوں کو بتایا جائے کہ ہم استور اور چونگرہ کے مفاد کے لئے کچھ کر رہے ہیں یہ ہمارا نظریہ ہے

اور اس تعلیم کے لوگ ہمیں چاہیں۔اس وجہ سے لوگوں میں اختلاف ہیں۔کوئی پتہ نہیں اس کو استور کا اور چونگرہ کا راستہ کس نے دیکھایا ہے۔اس بارے میں کوئی پتہ نہیں لیکن ایک بات کا پتہ چل رہا ہے اس سے لوگوں میں اختلافات بڑھ رہے ہیں اور وہ بھی تیزی سے اور بہت تیزی سے۔راما جو ایک سیاحتی مقام ہے أس کو Pakistan WILDLIFE ہی اچھے طریقے سے حفاظت کر سکتی ہے اور ابھی تک حفاظت کیا بھی ہے اور آئندہ بھی کرے گی ان شاءاللہ۔اور قدرتی چیزوں کو کس طرح بچانا ہے یہ WILDLIFE PAKISTAN سے بہتر کوئی نہیں کر سکتا۔میں بات کرنے جا رہا ہو آج میرے اپنے گاؤں کی گلگت بلتستان ڈسٹرکٹ استور گاؤں چونگرہ۔یہ وہ گاؤں ہے جہاں امن ہی امن ہے اور جہاں لوگ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ ہیں غم ہو یا خوشی سب ساتھ ہیں۔لیکن کچھ ہفتوں سے میں بھی دیکھ رہا ہوں اور سب لوگ دیکھ رہے ہیں کہ چونگرہ میں کیسی فضا ہے۔لوگ آرگنائزیشنز بنا رہے ہیں کوئی NGOS کو لا کے لوگوں میں خرابیاں پیدا کر رہا ہے تو کوئی پارٹیاں بنا کے اور کوئی کچھ اور کر کے اور لوگ یہ بات نہیں سمجھ رہے ہیں۔اور آپس مین اختلافات کا شکار ہو رہے ہیں۔اور یہی وہ چیز ہوگی جو چونگرہ کو طاقتور سے کمزور بنا دے گی اب بھی وقت ہے اور اب بھی ہم ایک ہیں۔

ہم ضلع استور کے اعلیٰ حکوم سے گزارش کرتے ہیں کہ اس طرح کے کاموں کے لئے کسی کو بھی اجازت نہ دے اور ایسے کاموں کو وقت پر روکے ورنہ لوگوں میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔امن پسند لوگوں کو امن خراب کرنے کا ذریعہ نہ بنائیں۔ہم سب کچھ برداشت کر سکتے ہیں لیکن کوئی ہمارے علاقے کی امن کو خراب کرے اس کا نتیجہ کیا ہو گا سب کو معلوم ہے۔لہزا چونگرہ کی عوام حکومت کی طرف دیکھ رہی ہے۔حکومت سے گزارش ہے کہ کچھ غلط ہونے سے پہلے اسے روکے شکریہ۔

فیصلان شفاء اصفہانی

فیصلان شفاء اصفہانی گلگت بلتستان کی تاریخ کے سب سے پہلے کم عمر کالم نگار ہیں جو گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں زیر تعلیم ہیں۔

فیصلان شفاء اصفہانی