سلطان عبدالحمید ترکی کے وہ حکمران تھے جن کی حکومت تین براعظموں میں پھیلی ہوئی تھی۔ حیفا میں ایک یہودی نے سلطان عبدالحمید خانی عثمانی کے خلاف مقدمہ درج کروایا کہ سلطان نے میری ملکیتی زمین ناحق مملکت کی املاک میں شامل کر لی ہے۔
اس نے حیفا کے خطیب قاضی ابونصر کے کہ میں با قاعدہ مقدمہ درج کروایا۔ وہ کئی سال سے مختلف قاضیوں کے پاس مقدمہ درج کروا رہا تھا۔ چونکہ یہ ایک یہودی کا مقدمہ تھا اور سلطان عبدالحمید کے خلاف تھا، اس لئے کسی قاضی نے اسے قابل توجہ نہ سمجھا۔
جب یہ دعویٰ حیفا کے خطیب اور قاضی کے پاس پہنچا تو انہوں نے فیصلے کے لئے مجلس منعقد کی۔ مملکت کی املاک کے وکیل کو طلب کیا اور اسے حکم دیا کہ قانونی دستاویز پیش کرے۔
ادھر یہودی کوحکم دیا کہ تمہارے پاس جو ثبوت ہے پیش کرو۔ یہودی نے زمین کی ملکیت کی خصوصی دستاویز پیش کر دیں۔ سلطان کے وکیل نے اپنے دعوے کے ثبوت کیلئے کوئی ثبوت پیش نہ کیا کیونکہ اسے سلطان کے جاہ و منصب اور قوت پر بھروسہ تھا اور وہ جانتا تھا کہ قاضی حضرات مملکت کے سربراہوں کے سامنے بے بس ہوتے ہیں۔
اس کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہ تھی کہ کوئی بڑے سے بڑا قاضی سلطان وقت کے خلاف فیصلہ دے سکتا ہے۔ ویسے بھی یہ مقدمہ کئی سال سے لٹکتا چلا آ رہا تھا۔ ایک کے بعد دوسرے قاضی کے سامنے پیش ہوتا رہا۔ جب فیصلہ کرنے کا وقت آتا تو اسے محفوظ کر دیتے۔ وہ کاغذات اور رجسٹروں میں گم ہو جاتا اور اس کا نام ونشان تک غائب ہو جاتا۔
تاہم قاضی ابو نصر نے اس کا فیصلہ کیا اور فیصلہ بھی تاریخی۔ اسے اسلامی نظامِ عدل کی درخشندہ مثال کہا جاسکتا ہے۔ واضح ہے کہ ابوالنصر خطیب: محمد ناصر الدین ابوالنصر ابن شیخ عبدالقادر خطیب قادری حسنی 23 جمادی الآخرة 1253ھ کو دمشق کے محلہ قیمریہ میں پیدا ہوئے۔ 4 ربع الاآخر 1324ھ کو وفات پائی۔
وہ فاضل علامہ شیخ ہاشم خطیب رحمہ اللہ تعالیٰ کے والد کے چچا زاد بھائی تھے۔ شیخ ابوالنصر بہت سے شہروں میں قاضی رہے مثلاً حیفا، یبرودشام اور مغرب کے شہروں میں بھی قاضی رہے۔ شام کے مشہور ترین علماء میں سے عالم جلیل تھے، علامہ سیـد محمد امین عابدین صاحب حاشیهٔ درمختار (علامی شامی) کے استاذ شخ سعید حلبی سے علم حاصل کیا۔
نیز دمشق میں شیخ محمد العانی سے بھی اکتساب فیض کیا۔ مصر گئے اور علامہ باجوری نیز شیخ ابراہیم السقا وغیرہم سے علمی استفادہ کیا۔ پھر دمشق آ گئے اور تدریس میں مشغول ہو گئے۔
ان سے علماء کی بڑی جماعت نے استفادہ کیا۔ شیخ ابو النصر خطیب رحمه الله تعالی بڑے بہادر اور بلند ہمت تھے، بڑے بارعب اور صاحب جلالت تھے، ان کی بہت کی کرامات ہیں جو شام اور مغرب میں ظاہر ہوئیں۔
بہرحال قاضی ابو نصر کے تاریخی فیصلے کی طرف دوبارہ آتے ہیں۔ مملکت کی املاک کے وکیل کی جانب سے کوئی دستاویز پیش نہ کرنے پر قاضی ابو نصر نے عدل کے تقاضوں کے عین مطابق فیصلہ کیا۔ قاضی اور خطیب ابو النصر ہیڈ منشی کی طرف متوجہ ہوئے اور اسے حکم دیا کہ سلطان عبدالحمید کے خلاف فیصلہ لکھو اور لکھو کے غصب کی ہوئی زمین یہودی کو واپس کی جائے۔
ہیڈ منشی مارے دہشت کے کانپ اٹھا۔ اس نے قاضی کی بات پر تعجب کرتے ہوئے قاضی کی طرف دیکھا اور اپنی نگاہیں قاضی کے چہرے پر مرکوز کر دیں۔ گویا انہیں یاد دلا رہاہو کر غور کر لیں! یہ فیصلہ سلطان وقت سلطان عبدالحمید کے خلاف ہے۔
اس نے اپنے دل میں سوچا کہ آج کون سلطان کے خلاف فیصلہ دے سکتا ہے؟ تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد اس نے فیصلہ تحریر کرنے سے معذرت کر دی۔ قلم قاضی ابو نصر کے سامنے رکھ دیا اور کہنے لگا: جناب قاضی صاحب! مجھے یہ مشکل کام کرنے سے معذور کھئے!! اگر آپ چاہتے ہیں تو خو لکھ لیں جو آپ کے جی میں آئے۔
قاضی ابوالنصر نے اس امر کی کچھ پرواہ نہ کی۔ چونکہ انصاف کی بات یہ تھی کہ حق یہودی کی طرف ہے اور اس کے پاس اپنے حق کا ثبوت بھی موجود ہے، اس لئے وہ سلطان کے جاہ منصب اور طاقت یا فیصلے کے بعد اپنے خلاف کسی قسم کی کارروائی کے خوف کو خاطر میں نہ لائے۔ اور ان کے سامنے حق اس عظمت کے ساتھ جلوہ گر ہوا کہ اس کے منافی ہر شے ان کی نگاہوں سے غائب ہوگئی۔
ایک لیے میں قاضی نے فیصلہ کیا، کاغذ او قلم اٹھایا اور چند کلمات تحریر کئے جنہیں تاریخ نے نورانی حروف میں صحفۂ دہر پر محفوظ کر دیا۔ یہ کلمات قاضیوں (ججوں) اور حکمرانوں کیلئے مشعل راہ ہونے چاہئیں۔ انہیں ان زریں کلمات پرعمل کرنا چاہئے اور حالات کیسے بھی ہوں جاہ و مرتبہ اور وقت کے حکمران کی طرف جھکاو قبول نہیں کرنا چاہئے۔
قاضی ابو نصر نے لکھا: میں نے اپنے دین کو دنیا پر ترجیح دی ہے۔ میں نے امیر المومنین خلیفۃ المسلمین، خادم الحرمین الشریفین، سلطان ابن سلطان، غازی عبد الحمید خان ابن سلطان غازی عبد الحمید خان کے نام آرڈر جاری کیا ہے کہ آپ نے اپنے قصد اور اختیار سے فلاں فلان تاریخ کو فلاں یہودی کی جو زمین غصب کی ہے، اسے واپس کر دیں۔
پھر اس تحریر پر مہر لگائی اسے لفانے میں ڈالا اور بے خوف و خطر اپنے محکمے سے صادر ہونے والا شرعی حکم سلطان عبد الحمید خان کے نام آستانہ بجھوا دیا۔ حکومت کے افراد میں یہ خبر پھیل گئی کہ حیفا کے قاضی ابو النصر خطیب نے سلطان کے خلاف غصب کا فیصلہ دیا ہے اور ان سے مطالبہ کیا ہے کہ نصب کی ہوئی زمین اس کے مالک فلاں یہودی کو واپس کی جائے۔ یہ کاغذات جس کے پاس بھی جاتے وہ افسوس کرتا اور کہتا:
اللہ کی قسم! قاضی ابوالنصر زندہ نہیں رہ سکے گا۔
کوئی کہتا: اے خطیب ابوالنصر الله تعالی کی تجھ پر رحمت ہو۔ اب تجھے سمندر میں غرق کیا جائے گا اور تو مچھلیوں کی خوراک بن جائے گا۔ کیا کسی قاضی کی یہ جرأت ہوسکتی ہے کہ وہ عبد الحمید خان جیسے سلطان کے خلاف فیصلہ دے؟ لوگ انتظار میں تھے کہ نا گوار فیصلہ سلطان کو پہنچے گا تو ان کا ردعمل کیا ہوگا؟
تاہم لوگوں کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ سلطان عبدالحمید اس فیصلے سے اپنی اصلاح کرلیں گے۔ جب یہ کاغذات سلطان عبدالحمید کو پہنچے تو انہوں نے ان کو خوب غور و فکر سے پڑھا۔ قاضی ابو نصر کے اخلاص، جرأت اور بلا خوف لومہ لائم حق کی حمایت سے بہت متاثر ہوئے۔ انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا، اس سے رجوع کیا اور توبہ کی اور قاضی ابوالنصر کو لکھا:
تمام تعریفیں اللہ تعالی کیلئے ہیں، جس نے میری رعایا میں ایسے علماء پیدا کئے ہیں کہ جب میں حق سے دور ہو جاؤں تو وہ مجھے حق کی طرف لوٹا دیتے ہیں اور ہدایت سے ہمکنار کرتے ہیں۔
سلطان عبدالحمید نے پھر قاضی ابوالنصر ترقی دی، ان کی تنخواہ میں اضافہ کیا اور ان کی حوصلہ افزائی کی اور انہیں شاباش دی۔
یہاں یہ تحریر کرنا بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ سلطان عبدالحمید ثانی کے دور کے بعد سے سلطنت عثمانیہ کا زوال شروع ہوگیا تھا۔ انگلینڈ، فرانس، جرمنی، روس سمیت بیشتر مغربی ممالک ان سے خوفزدہ رہتے اور سازشیں کرتے رہتے تھے۔ ایک بار جب یورپ میں نبی اکرمؐ کی حیات مبارکہ پر فلم بنائی گئی تو سلطان عبدالحمید انتہائی غضبناک ہوگئے۔ نتیجتاً یورپ کے حکمرانوں کو معافی مانگنا پڑی۔