عمر ابراہیم واڈیلو (Umar Ibrahim Vadillo) نے ایک کٹر کیتھولک مذہبی گھرانے میں آنکھیں کھولی تھیں۔ ان کا والد انہیں عیسائی مذہب کی تعلیم دیکر پادری بنانا چاہتے تھے، مگر حق تعالیٰ عمر کی صلاحیتوں سے اپنے سچے دین کی خدمت لینے کا فیصلہ کر چکا تھا۔
اس لئے اس نے انہیں ایمان کی دولت سے منور کردیا۔ نور ہدایت سے منور ہونے کے بعد عمر ابراہیم نے اپنی زندگی دین حق کی خدمت اور اسلام کی دعوت و اشاعت کیلئے وقف کر رکھی ہے۔
عمر ابراہیم اڈیلو کی قبول اسلام کی ایمان افروز داستان انہی کی زبانی پڑھتے ہیں:
”میرے والد صاحب زبردست قسم کے مذہبی مسیحی تھے، کیتھولک فرقے سے ان کا تعلق تھا۔ میری تین بہنیں جبکہ میں اپنے والد کا واحد اور اکلوتا بیٹا تھا۔ والد نے نذر مان رکھی تھی کہ مجھے پادری بنائیں گے۔ مسیحی دنیا کا بڑا عالم اور پریسٹ بنائیں گے، چنانچہ میں نے ہوش سنبھالنے پر مذہبی اسکول میں جانا شروع کر دیا۔
وہاں تعلیم حاصل کرنے لگ گیا، 2 سالہ تعلیم کے بعد میں نے دو سال کا عرصہ صوفیوں کی خانقاہ میں گزارا۔ یہ تثلیث اور دنیا چھوڑنے کا نظریہ مجھے اچھا نہیں لگتا تھا۔ مجھے یہ سارا کچھ غیر فطری سا دکھائی دیتا تھا، میرا ذہن اس سے مطمئن نہ تھا، چنانچہ میں نے اپنی زندگی کے یہ چار سال دو سال مدرسہ کے اور دو سال خانقاہ کے لگانے کے بعد اپنے والد سے صاف طور پر کہہ دیا کہ میں یونیورسٹی کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ میں پادری اور مسیحی صوفی نہیں بنوں گا۔
والد صاحب میری یہ بات سن کر بڑے مایوس ہوئے، اس لئے کہ میرے بارے میں انہوں نے جو خواب دیکھا تھا، میرے جواب سے وہ خواب چکنا چور ہو چکا تھا۔ چنانچہ والد صاحب نے مجھے اسکول میں داخل کروا دیا، اس کے بعد میں اسپین کے دارالحکومت میڈرڈ میں یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے لگا۔
میری یہ تعلیم زراعتی معاشیات پر تھی۔ 1984ء میں جبکہ میں یونیورسٹی سے فارغ ہونے کے قریب تھا۔ میری تعلیم تکمیل کے آخری مرحلے پر تھی تو اس دوران میری ملاقات اللہ کے ایک ایسے بندے سے ہوئی، جس کے ذریعے اللہ نے میری زندگی بدل دی۔
یہ بندہ برطانیہ کے علاقے اسکاٹ لینڈ کا رہنے والا تھا۔ اس نے اسلام قبول کیا اور پھر اسلام کا داعی اور مبلغ بن گیا تھا۔ وہ میڈرڈ میں مقیم تھے اور اہل اسپین کو اسلام کی دعوت دے رہے تھے۔ ان کا نام عبد القادر ہے۔
انہوں نے گریناڈا میں بھی مسجد بنائی، جنوبی افریقہ کے شہر کیپ ٹاؤن میں بھی مسجد بنائی، دنیا بھر میں مساجد بناتے ہیں اور اسلام کی دعوت دیتے ہیں۔ بس انہوں نے یونیورسٹی میں مجھے دیکھا اور میں نے ان کی طرف دیکھا، انہوں نے مجھے بلا لیا، بات شروع ہو گئی اور یوں لگا جیسے برسوں کی شناسائی ہے۔
شیخ عبد القادر کا جس جگہ قیام تھا، میں وہاں جانے کو ان کے ساتھ ہی چل دیا۔ وہ نماز پڑھنے لگ گئے۔ میں نے دیکھا تو نماز کو ”یوگا“ سمجھا۔ لیکن پھر سوچا۔ یہ یوگا تو نہیں لگتا، کوئی اور ہی چیز لگتی ہے۔
بہرحال! وہ جب فارغ ہوئے تو میں نے پوچھ لیا کہ یہ آپ کیا کر رہے تھے؟ کہنے لگے، میں مسلمان ہوں، اللہ کے حضور عبادت کر رہا تھا۔ مجھے یہ سن کر ایک جھٹکا لگا، جھٹکا اس لئے لگا، کیونکہ میرا خیال تو یہی تھا کہ عرب ہی مسلمان ہوتے ہیں۔ یورپ کے لوگ مسلمان نہیں ہوتے، اب ایک اصلی یورپی باشندہ مسلمان ہے۔
برطانیہ کے علاقے اسکاٹ لینڈ میں پیدا ہونے والا مسلمان کیسے ہو گیا، میرے لئے یہ بات تعجب کی تھی اور یہ تو بہرحال حقیقت تھی کہ عبد القادر صاحب اب مسلمان تھے اور میرے سامنے تھے۔ مجھے کہنے لگے، معبود تین نہیں، بلکہ ایک ہے کہو اور بولو اس کا نام ”اللہ“ اور پھر وہ اللہ اللہ اللہ کہنے لگے۔
میں نے بھی تین بار اللہ اللہ اللہ کہہ دیا۔ اس سے یوں ہوا جیسے میرے دل کو سکون اور چین آ گیا ہو۔ وہ پیاس جو مجھے بچپن میں تھی، اس کا مداوا ہو گیا ہو۔ شیخ عبد القادر نے اب مزید کوئی بات نہیں کی اور میں یہاں سے رخصت ہو گیا، میری حالت کو دیکھ کر شاید انہوں نے مجھے ابتداء میں اتنی ہی خوراک دینا مناسب سمجھی۔
میں اپنے کسی کام کے سلسلے میں تیونس گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی، اللہ اکبر اللہ اکبر… اب جب میں نے اللہ کا نام سنا تو اس نام نے میرے دل پر ایسا اثر کیا کہ میں اٹھ کھڑا ہوا۔
دوستوں نے پوچھا کدھر؟ میں نے کہا اللہ کی جانب۔ کہنے لگے، یہ کیا؟ میں نے کہا، اللہ بلا رہا ہے، مسلمانوں کی مسجد میں جا رہا ہوں، کہنے لگے، وہاں تیرا کیا کام؟ کہا… بس جانا ہے، وہاں مسلمانوں کی نماز دیکھوں گا اور پڑھوں گا۔
کہنے لگے، مسلمان تجھے ماریں گے۔ ہو سکتا ہے قتل بھی کر دیں، یہ گاؤں ہے، لوگ بھی نہ جانے کیسے ہوں؟ تو ہمیں بھی مصیبت میں ڈالے گا۔ میں نے کہا کہ کچھ نہیں ہوتا اور دوستوں کو چھوڑ کر مسجد کی طرف چلا گیا۔
وہاں لوگوں کو دیکھا، ہاتھ منہ دھو رہے ہیں، مجھے کیا پتہ وضو کس چیز کا نام ہے؟ چنانچہ میں نے ہاتھ منہ دھوئے اور مسجد میں چلا گیا، صف میں کھڑا ہو گیا، اب میں اپنے اردگرد دیکھتا اور جس طرح وہ لوگ کر رہے تھے، اسی طرح کرنے کی کوشش کرنے لگا۔
دائیں بائیں والوں کو ہاتھ لگ جاتا، بیٹھنے لگتا تو ٹانگ کو اس کے مطابق کرنے کی کوشش کرتا تو پاوٴں لگ جاتا۔ تیونس کی اس مسجد کے نمازی جو میرے دائیں بائیں تھے، حیران تھے کہ یہ آج کون سا نمازی آ گیا ہے۔ یہ تو اللہ کا شکر ہے کہ جوتے پہن کر نہیں گیا، وگرنہ نہ جانے کیا ہوتا؟ اب نماز ختم ہوئی تو دائیں بائیں کے نمازی میری طرف حیرانی سے دیکھ رہے تھے۔
مجھ سے عربی میں بات کرنے لگے تو مجھے عربی آتی نہیں تھی۔ یوں بات آگے بڑھی اور لوگ میرے اردگرد اکٹھے ہوئے۔ اتنے میں امام صاحب بھی آ گئے، میں نے انہیں فرانسیسی زبان میں کہا میں مسلمان ہوں، امام صاحب نے اپنے مقتدیوں کو کہا یہ کوئی نیا نیا مسلمان ہے، اسے چھوڑ دو۔
اب میں بڑا حیران تھا کہ میں نے کیا اعلان کر دیا کہ کہہ دیا میں مسلمان ہوں۔ مگر یہ میرے دل کی گواہی تھی، اب جب میں واپس میڈرڈ گیا تو ایئر پورٹ سے سیدھا شیخ عبد القادر کی خدمت میں گیا۔ میں جب ان کے ہاں پہنچا تو خوبصورت اتفاق کہ وہ دروازہ پر ہی کھڑے تھے، انہوں نے مجھے چہرے سے پہچان لیا اور کہا اندر آ جاؤ۔
مجھے اللہ سے محبت اور نماز پڑھنے کا تو جنون ہو گیا کہ کب وقت ہو گا کہ میں نماز میں چلا جاؤں گا۔ دل تو یہ چاہتا تھا کہ ہر لمحہ نماز ہی میں رہوں، نماز اور اللہ کا ذکر۔۔۔ یہ دن رات میرا کام تھا، میں نے سورہ فاتحہ بھی یاد کر لی تھی۔ تینوں قل اور نماز کی دعائیں یاد کر لی تھیں۔
رمضان بھی آ گیا تھا۔ میڈرڈ میں ایک ہی مسجد تھی، وہ بھی ایک چھوٹا سا کمرہ تھا، جسے مراکش کے لوگوں نے بنایا تھا۔ میں وہاں چلا گیا اور اعلانیہ طور پر کلمہ شہادت پڑھ لیا، میں اپنے شیخ عبد القادر کے ہمراہ 25 سال رہا۔ پڑھتا بھی رہا اور دین کا کام بھی کرتا رہا۔“
عمر ابراہیم وڈیلو کے اسلام قبول کرنے کی داستان آپ نے پڑھ لی۔ اب قبول اسلام کے بعد یہ شخص سودی نظام معیشت کے خلاف ایک جنگ برپا کر رکھی ہے۔ یہ درہم و دینار تحریک کے روحِ رواں ہیں اور سودی نظام کے متبادل اسلامی درہم و دینار پر مبنی بلاسود معاشی نظام کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ پاکستان میں کئی بار سود کے خلاف عدالت کے دروازے کھٹکھٹائے گئے۔
ہر کوئی سوال یہ پوچھتا تھا کہ ”سودی نظام کا متبادل کیا ہے؟ اب عمر ابراہیم وڈیلو صاحب نے ستر صفحات پر مشتمل ایک متبادل نظام تحریر کر کے پیش کیا ہے۔ وفاقی شرعی عدالت ضیاء الحق نے بنائی تھی اور ساتھ یہ پابندی لگا دی تھی کہ یہ مالی معاملات کے بارے میں دس سال تک کوئی کیس نہیں سن سکے گی۔
جیسے ہی 1991ء میں پابندی ختم ہوئی، لوگ وفاقی شرعی عدالت میں چلے گئے۔ شرعی عدالت نے سود کے خلاف فیصلہ دے دیا۔ نواز شریف حکمران تھے، وہ اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ چلے گئے۔ اس کے بعد بے نظیر، پھر نواز شریف، سب کے دور میں یہ کیس لٹکتا رہا۔
پرویز مشرف نئے نئے تخت نشین ہوئے تھے کہ سپریم کورٹ کے شریعت بنچ نے سود کے خلاف فیصلہ دے دیا۔ ایک دم ایوانوں میں بھگدڑ مچ گئی۔ ایک نجی بینک کی طرف سے نظر ثانی کی اپیل کروائی گئی۔ تمام عدالتی اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے نئے بنچ نے پہلے بنچ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا اور پھر اس کی جگہ خود فیصلہ لکھنے کے بجائے کیس کو لٹکانے کے لیے واپس وفاقی شرعی عدالت میں بھیج دیا۔
گزشتہ دس سال سے یہ کیس وہاں گرد آلود فائلوں میں پڑا تھا۔ 21 اکتوبر 2013ء کو وفاقی شرعی عدالت میں ایک بار پھر اس بحث کا آغاز ہوا کہ سود حرام ہے یا حلال؟ کون سا سود حرام ہے اور کیا موجودہ دور میں سود کو ترک کر کے ہم زندہ رہ سکتے ہیں۔
یہ سب اس لئے ممکن ہوا کہ شریعت کورٹ سے لے کر سپریم کورٹ کے شریعت بنچ تک ہر کوئی ایک ہی سوال کرتا تھا کہ ”سودی نظام کا متبادل کیا ہے؟“ لیکن اب درہم و دینار تحریک کے روحِ رواں عمر ابراہیم وڈیلو نے ستر صفحات پر مشتمل ایک متبادل نظام تحریر کیا اور اسے نئی اپیل کا حصہ بنایا گیا ہے۔ جو بلا شبہ اس باہمت نومسلم شخص کا ایک کارنامہ ہے۔ اب عمر ابراہیم لاہور میں شادی کر کے مستقل طور پر پاکستان میں مقیم ہیں۔
تحریر: ضیاء الرحمٰن چترالی