2020 میں امریکی محکمہ دفاع نے فضا میں نظر آنے والی غیر شناخت شدہ اشیا یا اڑن طشتریوں کی تین ویڈیوز جاری کر دی ہیں۔ ان پُراسرار فضائی سواریوں کو 2007 میں بھی دیکھا گیا تھا۔ ان نامعلوم اڑن طشتریوں (یو ایف او) کی کہانی بھی ان میں سے ایک ہے، جس کے ساتھ غیر یقینی کیفیت جڑی ہوئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس سے حکومتوں اور خاص طور پر امریکی حکومت سے متعلق کئی سازشی تھیوریز پائی جاتی ہیں۔
کئی صدیوں تک لوگ آسمان میں دیکھ کر پراسرار روشنیوں اور چیزوں کے بارے میں اندازے لگاتے رہے۔ لیکن یو ایف او کی جدید کہانی کا تعلق 1947 میں ایک قصے سے جا ملتا ہے، جب ایک کسان نے امریکی ریاست نیو میکسیکو کے شہر روس ویل میں ایک ملبہ دریافت کیا۔ آغاز میں اسے فلائنگ ڈسک کے طور پر بیان کیا گیا تھا لیکن اب اسے سوویت یونین کی نگرانی کے لیے کسی خفیہ بیلون پروگرام کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔
تاہم اس واقعے کے بعد سے ایک نا ختم ہونے والی بحث نے جنم لے لیا اور اس شہر کا نام ایلین سٹی یعنی خلائی مخلوق کا شہر پڑ گیا، جو اپنی پُراسراریت کی وجہ سے عالمی شہرت رکھتا ہے۔ روس ویل، نیو میکسیکو البوکرق سے 200 میل جنوب مشرق میں ایک صحرا کا شہر ہے۔ یہ نیو میکسیکو کا پانچواں سب سے بڑا شہر ہے۔ یہاں کئی بار مبینہ طور پر خلا سے آنے والے جہاز یا ڈسک دیکھے گئے ہیں۔
تیونس کے شہر مطماطہ کے زیادہ تر باسی اب بھی اپنے زیر زمین گھروں میں رہائش پذیر رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اگرچہ یہ گھر زمانے کے عوامل کے سامنے اپنا وجود باقی رکھنے میں ڈٹے ہوئے ہیں، تاہم روایتی ماحول اور سادہ زندگی کے دل دادہ لوگوں کے اس شہر کی آبادی میں حالیہ دہائیوں کے دوران کمی آئی ہے۔
مطماطہ شہر تیونس کے جنوب مشرقی صوبے قابس میں واقع ہے۔ یہاں کی آبادی کی اکثریت نسلی طور پر ‘‘امازیغیوں’’ پر مشتمل ہے۔ اس شہر کو ریت کی چٹانوں کے دامن میں کھود کر بنائے گئے گھروں کے سبب شہرت حاصل ہے۔ علاقے کے لوگوں نے مخفی رہنے کی غرض سے اپنے گھر زیر زمین تعمیر کیے۔ اس کے علاوہ اس طرح وہ ماحولیاتی تبدیلیوں اور موسم کے سخت حالات سے بھی محفوظ رہتے ہیں۔
علاقے میں آںے والے سیاحوں کے لیے یہ گھر اور ان کا ماحول بہت پرکشش ثابت ہوتا ہے اور وہ اس کو انفرادیت کا حامل قرار دیتے ہیں۔ بالخصوص علاقے کے غار اور گھر جو تصوراتی خلائی علاقوں سے مشابہت رکھتے ہیں۔ اس حوالے سے دلچسپ امر یہ ہے کہ 1970ء میں Stars War فلم کی عکس بندی مطماطہ شہر میں بھی ہوئی جس نے اس شہر کی شہرت میں اضافہ کر دیا۔
اسپین کا سیٹینل دی لاس بودیگاس ایک ایسا علاقہ ہے جہاں پہاڑوں کے نیچے گھر بنے دکھائی دیتے ہیں۔ انہیں دیکھ کر ایک خوف بھی ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ اگر ان میں رہائش اختیار کی گئی تو کہیں دم گُھٹ کر نہ مرجائیں۔ سیٹینل دی لاس بودیگاس میں لگ بھگ 3 ہزار نفوس رہائش پذیر ہیں۔ اس کے پہاڑی چھجوں نے ان مکانوں کو گرمی، سردی، بارش اور برف باری سے ایسا تحفظ فراہم کر رکھا ہے۔
ایک خیال یہ بھی ہے کہ یہاں لوگ آج سے نہیں بلکہ قبل از تاریخ سے رہ رہے ہیں اور یہ جگہ ان کی پسندیدہ رہائشی جگہ ہے جہاں سے وہ نہ کہیں جانا پسند کرتے ہیں اور نہ ہی اس کی جگہ کسی اور علاقے یا جگہ کو ترجیح دیتے ہیں۔
جنوب مغربی اسپین میں یہ چھوٹا سا ساحلی شہر Cádiz کے شمال مشرق میں 157 کلومیٹر یا 98 میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ دورجدید کا سیٹینل نامی یہ شہر دراصل ایک قدیم محصور اور محفوظ ہسپانوی شہر کے طرز پر بنایا گیا ہے، یہ شہر قدیم اسپینی شہر Rio Trejo کی طرز تعمیر سے متاثر ہوکر بنایا گیا تھا جو ایک بلند و بالا پہاڑ کے اوپر آباد تھا اور وہاں سے یہ شہر نیچے کے پورے علاقے کی نگرانی بھی کرتا ہے اور ایک طرح سے ساری دنیا کو یہ بھی بتاتا ہے کہ میں اس پورے علاقے کا محافظ اور نگران ہوں۔ یہ اصل میں ایک مضبوط اور محفوظ پہاڑی قلعہ ہے جو اصل میں یہاں کا حفاظتی قلعہ یا نگرانی کرنے والی چوکی ہے، اس کا تعلق بارھویں صدی کے Almohad دور سے تھا۔
اس جگہ کو یقینی طور پر رومی دور کے حملے کے وقت یعنی پہلی صدی عیسوی میں قبضے میں لیا گیا تھا۔ اس شہر کے قریب اور اطراف میں ان معاشروں کی آبادی کے شواہد بھی ملتے ہیں جو کسی دور میں غاروں کو اپنے مسکن بنایا کرتے تھے۔
یہاں کی جانے والی ریسرچ اور تحقیق یہ بھی بتاتی ہے کہ اس شہر کا قشتالی نام ایک رومی لاطینی فقرے septem nihil سے بنا تھا جس کا مطلب تھا ’’سات بار کچھ نہیں’’۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں چوں کہ سات بار اسپینیوں نے حملہ کیا تھا مگر یہاں کے عیسائیوں نے ان کا ڈٹ کر مقابلہ کیا تھا اور سات حملوں کے بعد ہی یہ شہر ان کے قبضے میں جاسکا تھا۔
اسپینیوں نے جب مسلسل اس شہر کا محاصرہ جاری رکھا تو آخر انہیں فتح مل گئی۔ 1484 میں جب عیسائی افواج نے اسپینی حملہ آوروں کو اپنے شہر سے واپس دھکیلا تو سیٹینل آخر کار چھڑا لیا گیا۔عیسائی افواج نے صرف پندرہ دنوں میں بارود سے مسلح توپ خانے کی مدد سے اس قلعے پر قبضہ کرلیا جس کے کھنڈرات آج بھی ماضی کی داستان بڑی شان و شوکت کے ساتھ سنارہے ہیں۔
مراکش کا خوبصورت شہر شفشاون نامعلوم وجوہات کی بنا پر نیلے رنگ کا ہے، جس کی کوئی سچی یا فرضی کہانی سامنے نہیں آئی۔ اس شہر کو نیلے موتی کی نام سے جانا جاتا ہے جبکہ یہاں کے پہاڑ اس شہر کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیتے ہیں۔
اس شہر کے معروف ہونے کی سب سے بڑی وجہ اس کا نیلا رنگ ہے، جو شہر کی ہر چیز میں نمایاں نظر آتا ہے، اس شہر کے گھر، در و دیوار، گھروں کی چھتیں، کھڑکیاں دروازے، فٹ پاتھ حتی زمین سب پر نیلا رنگ ہے۔ یہ شہر سیاحوں کے لیے بے حد اہمیت اور دلچسپی کا باعث ہے۔
اس شہر کی مقامی آبادی نے اپنے گھروں کو نیلے رنگ کے مختلف شیڈز میں پینٹ کر رکھا ہے اور یہی نہیں بلکہ یہاں کی زیادہ تر عمارتوں کا رنگ بھی نیلا ہے، جس کی وجہ اس شہر کو مراکش کا نیلا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ یہ شہر مراکش کے شمالی پہاڑوں کے درمیان واقع ہے اور اس شہر کا اصلی نام الشاون ہے۔
الشاون کو 1471 عیسوی میں اندلس کے حاکم وقت ’’علی بن راشد‘‘ کے حکم سے اندلس کے ان مسلمانوں کے لیے تعمیر کیا گیا، جنہیں اسپین سے استعماری طاقتوں نے نکال دیا تھا۔ یہ مسلمان نشین شہر آج تک استعماری طاقتوں کے مقابلے میں استقامت اور مزاحمت کا نمونہ رہا ہے۔
دوسری جانب بھارت کا شہر جودہ پور بھی نیلے رنگ کی عمارتوں پر مشتمل ہے۔ یہاں پر ہندووں کا اعلی طبقہ زندگی گزارتا ہے۔
بنیادی طور پر امریکی ریاست کیلی فورنیا کا شہر سلیب سٹی بنجاروں اور گوشہ نشینی اختیار کرنے والوں کا شہر ہے، جنہیں یہاں سے اور کہیں بھی جانا نہیں ہے۔ ان کا سب کچھ اسی شہر میں ہے اور یہاں کوئی بھی چیز حاصل کرنے کیلئے انہیں پیسے بھی نہیں دینے پڑتے۔
یہاں کے لوگ بغیر پانی، بجلی اور دیگر سہولتوں کے ٹھیلوں پتھاروں اور کُٹیا وغیرہ میں رہتے ہیں۔ ان کا کوئی پتا بھی نہیں ہوتا، جس سے ان کی رہائش کے مقام کا تعین ہو سکے۔ یہاں عوام سہولیات بھی نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ یہاں کے باسیوں کو نہ تو گھر کا کرایہ دینا پڑتا ہے اور نہ ہی ان پر کسی قسم کے ٹیکسز لاگو ہیں۔
بہرحال امریکہ جیسے ملک کے کسی علاقے میں شہری سہولیات کا نہ ہونا بھی ایک حیران کن بات ہے۔ یہ سب کچھ بہت تکلیف کی طرح لگتا ہے، لیکن یہاں آنے والے بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ دراصل ایک انتہائی آرام دہ اور پُرسکون جگہ ہے۔ بنجارے اپنے شہر کو ’’امریکہ کا آخری آزاد شہر‘‘ کہتے ہیں۔
امریکہ کے قصبے Colma کو مُردوں کا شہر اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہاں مرنے والوں کی تعداد زندہ لوگوں سے زیادہ رہی ہے۔ کچھ سال پہلے تک صرف 17 سو افراد بستے ہیں، مگر یہاں دفن ہونے والے مُردوں 15 لاکھ سے بھی زائد تھے۔
مقامی افراد اسے ”خاموشی کا شہر“ بھی کہتے ہیں۔ کولما سان فرانسسکو کے جنوب میں واقع ہے۔ اس قصبے کا رقبہ اگرچہ دو مربع میل سے بھی کم ہے۔ مگر یہاں قبرستانوں کی تعداد 17 ہے۔ جن میں اب تک 15 لاکھ سے زائد مردے دفن کئے جا چکے ہیں۔ جبکہ یومیہ یہاں 70 سے 80 نئی قبریں بھی وجود میں آ رہی ہیں۔ اس لئے یہ دنیا کا واحد قصبہ ہے، جہاں زندہ افراد کے مقابلے میں دفن ہونے مردوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔
سان ماتیو کاوٴنٹی کی حدود میں واقع کولما میں ایک سو گھر ہیں اور اس قصبے کی آبادی 17 سو نفوس پر مشتمل ہے۔ گویا ایک زندہ شخص کے مقابلے میں ہزاروں مردہ افراد اس قصبے کے قبرستانوں میں دفن ہیں۔ یہی چیز کولما کو دوسرے قصبوں سے منفرد بناتی اور اسے عالمی شہرت بخشتی ہے۔
کولما کے باسیوں کا روزگار بھی شہر خموشاں سے وابستہ ہیں۔ زیادہ تر افراد گورکن ہیں، جبکہ باقی پھول اگانے اور قبروں کے کتبے بنانے کا کام کرتے ہیں۔ تاہم اب دیگر شعبہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد بھی آکر اس قصبے میں آباد ہو چکے ہیں۔
اس چھوٹے سے قصبے میں اتنی ساری قبریں کہاں سے آئیں؟ اس کا جواب ایک تاریخی پس منظر سے تعلق رکھتا ہے۔ اس قصبے کی تاریخ انیسویں صدی کے وسط سے شروع ہوتی ہے۔ جب کیلیفورنیا میں سونے کی دوڑ شروع ہوئی اور کم وقت میں امیر ہونے کا لالچ رکھنے والے لاکھوں افراد نے کیلیفورنیا کا رخ کیا، جن میں معدنیات تلاش کرنے والے، تاجر اور دیگر تارکین وطن شامل تھے۔
دراصل 1848ء میں ایک بڑھئی ”جیمز ڈبلیو مارشل“ نے آبی گزرگاہ کی تہہ میں چمک دار ٹکڑے دریافت کیے، جو جانچ پڑتال پر سونے کے ثابت ہوئے۔ چند ہی روز میں سونے کی دریافت کی خبر دنیا بھر میں پھیل گئی اور لوگ قیمتی دھات کی تلاش میں دیوانہ وار کیلیفورنیا کا رُخ کرنے لگے۔
بہتر مستقبل کی تلاش میں لوگوں کی آمد کا سلسلہ برسوں تک جاری رہا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سان فرانسسکو جو انیسویں صدی کے وسط تک ایک چھوٹا سا قصبہ تھا، بڑے شہر کی شکل اختیار کر گیا۔ لیکن سونے کی تلاش میں ہزاروں افراد حادثات کا شکار ہو کر اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے یا پھر دیگر افراد مختلف بیماریوں کی وجہ سے موت کا شکار بنے۔ چنانچہ آبادی میں اضافے کے ساتھ شرح اموات بڑھتی چلی گئی۔
چین دنیا میں کسی بھی چیز بھی نقل (ریپلکا) تیار کرنے میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتا۔ چینیوں نے اپنی ناقابل یقین ہنر مندی سے آسٹریا میں ایک ایسا شہر تعمیر کیا ہے، جو چین کے صوبے گوانگ ڈونگ کے واقع ہال اسٹاٹ ٹاؤن کی ہو بہو کاپی ہے۔
چینی ہال اسٹاٹ طرز پر یورپی شہر کی تعمیر 2012 میں شروع ہوئی تھی۔ اس کی تعمیر پر 950 ملین یورو سے زائد کی لاگت آئی۔ ہاؤسنگ ڈویلپمنٹ کی جانب سے بنائے گئے اس شہر میں اب 900 مقامی شہری رہتے ہیں۔
شہر کے وسط میں پہلے یہاں گرجا گھر تعمیر کیا گیا تھا، اس کے ساتھ ہی 16ویں صدی کے ڈیزائن والے گھر بنائے گئے، جو اوپر سے تکون کی شکل میں ہیں۔ اسی طرح یہاں بھی سرکیں بھی بالکل اصل ہال اسٹاٹ کی طرح نظر آتی ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ چینی ہال اسٹاٹ میں رئیل اسٹیٹ آسٹریا کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں زیادہ مہنگا ہے۔ واضح رہے کہ 19ویں صدی تک آسٹریا کے اس مقام جو اب ہال اسٹاٹ ہے، تک رسائی کشتیوں یا پیدل چلنے سے ہی ممکن ہوتی تھی اور یہاں ترقیاتی کام دو دہائی قبل شروع ہوئے۔
بہرحال اب جکہ شہر میں آنے اور جانے سے ٹرانسپورٹ کے نظام میں بہتری لائی گئی ہے، یہ ملک کے سب سے زیادہ دیکھنے والے سیاحتی مقامات میں سے ایک بن گیا ہے، جہاں دنیا بھر سے سیاح چینی طرز تعمیر اور ماحول سے محظوظ ہونے آتے ہیں۔