تازہ ترین

روشنی بکھیرنے والے پودے تیار

roshni wale pode
  • واضح رہے
  • ستمبر 5, 2019
  • 7:51 شام

امریکی سائنسدانوں نے سلادآبی سمیت کچھ پودوں میں جگنوئوں کے جسم میں پایا جانے والا کیمیائی مادہ انجیکٹ کرنے کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔

امریکی سائنسدانوں نے ایسے جینیاتی پودے تیار کرلئے ہیں جن سے روشنی بکھیری جاسکتی ہے۔ نینو پارٹیکلز کی مدد سے روشنی بکھیرنے والے ان پودوں سے اتنی روشنی مل سکتی ہے کہ گھروں میں ٹیوب لائٹ، بلب اور انرجی سیورز استعمال کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ جبکہ مستقبل میں ایسے درخت تیار کرنے کا بھی پلان ہے جن سے ایئر پورٹس، شاہراہوں اور دیگر کھلے مقامات کو حسب ضرورت روشن کیا جاسکے گا۔

امریکا کے میسا چوسٹس انجینئرنگ انسٹیٹیوٹ (ایم آئی ٹی) سے تعلق رکھنے والے سائنس دانوں نے ”نینو بائیونک ٹیکنالوجی“ کے حامل ان پودوں کا کامیاب تجربہ مکمل کرلیا ہے۔ نینو بائیونکس ٹیکنالوجی کے تحت ان کے پتوں اور تنوں میں نینو کیمیکلز پارٹیکلز ڈالے جا رہے ہیں تاکہ وہ روشنی کو جذب کرکے اس کو بکھیرنے کا کام بھی کرسکیں۔ ان روشنی بکھیرنے والے پودوں کو نینو بائیونک پودوں کا نام دیا گیا ہے اور اس سلسلہ میں 18 اقسام کے پودوں کے اندر نینوکیمیکل پارٹیکلز کو داخل کیا گیا تھا۔

سب سے اچھا رزلٹ (Watercress) نامی آبی پودے سے ملا ہے۔ میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ امریکی سائنسدانوں نے ان پودوں میں لوسی فیریز (Luciferase) نامی ایک روشنی خارج کرنے والا خاص کیمیائی انزائم استعمال کیا ہے۔

واضح رہے کہ لوسی فیریز یہ وہی حیاتیاتی کیمیائی مادہ ہے جس کی وجہ سے جگنوئوں کے جسم سے اندھیرے میں روشنی خارج ہوتی ہے۔ سائنسدانوں کے خیال میں مستقبل میں نینو پارٹیکلز پر مشتمل ایک ایسا رنگ یا محلول بھی تیار کر لیا جائے گا، جسے پتوں پر اسپرے کرنے سے وہ روشن ہو جایا کریں گے۔ اس طرح بڑے درختوں سے روشنی کے ذرائع کا کام لیا جا سکے گا، جس سے کافی بڑے پیمانے پر بجلی کی بچت ہوسکے گی۔

امریکی کیمیکل ایکسپرٹ ڈاکٹر مائیکل اسٹرینو نے بتای اہے کہ مستقبل قریب میں گھروں کو روشن کرنے کیلئے بلب وغیرہ کی کوئی ضرورت نہیں ہوگی۔

سائنسی جریدے نینو لیٹرز کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ عالمی سطح پر جتنی بجلی پیدا کی جاتی ہے، اس کا 20 فیصد حصہ محض روشنی کے حصول کیلئے خرچ کیا جاتا ہے۔ اس لئے اگر اس قسم کے پودوں کو تجارتی بنیادوں پر تیار کیا جائے تو اس سے دنیا بھر میں بجلی کے حصول کیلئے خرچ کی جانے والی رقم کی بچت ہوگی۔

امریکی یونیورسٹی کے ماہرین نے بتایا ہے کہ انہوں نے سلاد آبی یا Watercress کہلائے جانے والے پودے میں روشنی کو جمع کرنے اور اس کو بعد میں بکھیرنے کی صلاحیت پائی ہے۔ اس قسم کے کچھ پودوں میں انہوں نے خاص قسم کے چمک پیدا کرنے والے نینو پارٹیکلز کو انجیکٹ کیا، جس کے بعد یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی کہ ان پودوں نے نہ صرف سورج کی روشنی کو اپنے اندر جذب کیا بلکہ اگلے چار گھنٹوں تک یہ پودے روشنی کا ماخذ بنے رہے۔

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے