تازہ ترین

قرضوں کی دلدل میں پھنسی پاکستانی معیشت

qarzo ki daldal main phansi pakistani maeeshat
  • محمد قیصر چوہان
  • اکتوبر 26, 2021
  • 3:03 شام

پی ٹی آئی کی تبدیلی سرکار آئی ایم ایف کے حکم پر عوام کا خون نچوڑ کرغریب مکاﺅ مہم پر گامزن ہے

حکمرانوں کی ناقص پالیسیوں کے باعث پاکستان آج قرضوں کی دلدل میں پھنس گیا ہے۔ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے سیاسی بنیادوں پر قرض اتارو ملک سنوارو اور خود انحصاری کا نعرہ لگایا تھا۔

موجودہ وزیراعظم عمران خان نے بھی آئی ایم ایف کے شکنجے سے آزادی دلانے کا قوم کو خواب دکھایا، لیکن دونوں مقبول عوام سیاسی رہنما اپنے وعدوں میں ناکام ہوچکے ہیں اور پاکستان سامراجی طاقتوں کی گرفتار میں اس طرح جکڑا ہوا ہے کہ اقتصادی آزادی کا تصور بظاہر ناممکن نظر آتا ہے۔

قرضوں کی معیشت اور بڑھتی ہوئی مہنگائی نے عام آدمی کے لیے زندگی عذاب بنا دی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2018ء میں مجموعی قرضہ 249 کھرب 53 ارب تھا جو 2021ء میں بڑھ کر 398 کھرب 59 ارب روپے ہوگیا ہے۔

قرضوں اور ان پر سود کی ادائیگی کے لیے اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ پاکستان خطے میں سب سے سستا ملک مانا جاتا تھا لیکن آج پاکستان میں عام آدمی دو وقت کی روٹی سے محروم ہوگیا ہے۔

ملک کا آدھے سے زیادہ ریونیو قرضوں اور سود کی ادائیگی میں چلا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے تعلیم، صحت، پینے کے صاف پانی اور سماجی شعبوں کے ترقیاتی منصوبوں کے اخراجات پورے کرنے کیلئے حکومت کے پاس فنڈز دستیاب نہیں ہوتے، قرضوں کے باعث ہر پاکستانی آج دو لاکھ روپے سے زائد کا مقروض ہوچکا ہے۔

ان قرضوں کی ادائیگی کیلئے ہم اپنے موٹر ویز، ایئرپورٹس اور دیگر قومی اثاثے قرضہ دینے والے ممالک اور عالمی اداروں کو گروی رکھوا چکے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم مقروض ہیں اور اس قرض میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ آئی ایم ایف امداد کرنے نہیں بلکہ قرض دینے آتا ہے اور قرض کی واپسی سود کے ساتھ ہوتی ہے۔

المیہ یہ ہے کہ ہم تاحال صرف سود ہی ادا کر رہے ہیں۔ قرضوں کی ادائیگی تک ابھی پہنچے ہی نہیں۔ قرضوں کی معیشت نے ہمارے حکمراں طبقہ کو بدعنوان بنایا ہے اور اس عمل نے سیاسی آزادی کو بھی غلامی میں تبدیل کردیا ہے جس کی وجہ سے زندگی کے کسی بھی شعبے سے متعلق نظام عصر حاضر کے فساد اور علاج کا ادراک کرنے والی قیادت کی تخلیق کرنے سے بھی قاصر ہوچکا ہے۔

ساری سیاست محض نعرہ بازی کے گرد گھوم رہی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے دلال مسلسل یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ملکی معیشت جلد ہی ترقی کا نیا موڑ مڑے گی اور تمام تر غربت اور پسماندگی کا خاتمہ ہو جائے گا۔ پاکستان کے محنت کش عوام برسوںسے یہی جھوٹ سنتے آ رہے ہیں۔

ان کی زندگی ہر روز تلخ ہوتی جا رہی ہے اور بیروزگاری کا عفریت تیزی سے محنت کش طبقے کے ہر گھر کو معاشی دیوالیہ پن میں دھکیل رہا ہے۔ جبکہ اس دوران حکمرانوں کی دولت میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور وہ منافع کی ہوس میں کروڑوں عوام کو روندتے چلے جا رہے ہیں۔ایسے میں سامراجی مالیاتی اداروں کے گماشتہ حکمران جھوٹ کے نئے ریکارڈ بنا رہے ہیں۔

اس وقت تمام معاشی اشاریے سرنگوں ہیں اور مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ روپے کی قدر اپنی تاریخ کی پست ترین سطح پر اور بے روزگاری ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح کو پہنچ چکی ہے۔ معاشی شرح نمو قیام پاکستان کے بعد کبھی منفی میں نہیں تھی، مگر بیتے برس یہ صفر سے بھی کم رہی۔

عوام کی ذاتی زندگیوں پر سیاسی حکومتی پالیسیوں کے اچھے یا برے اثرات سے مفر ممکن ہی نہیں ہے۔ ملک میں مہنگائی کی تپش ہر فرد کے گھر تک پہنچ رہی ہے۔حکومتی ماہرین گزشتہ سال کی منفی شرحِ نمو کی بنیاد پر معاشی شرحِ نمو کی نئی سطح کا اعلان کررہے ہیں۔

عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے پاکستان میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھنے کی پیش گوئی کی تھی جبکہ حکومتی سطح پر ترقی کی شرح 4 فیصد رہنے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔ پاکستان کے ڈیٹا بیس پر ملکی اور غیر ملکی ادارے بھی معاشی شرح نمو کی پیش گوئی کرتے ہیں۔

اسٹیٹ بینک نے رواں مالی سال معاشی شرح نمو 2.8 سے 3 فیصد، آئی ایم ایف نے 2 اور عالمی بینک نے 1.5 فیصد رہنے کا تخمینہ لگایا تھا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت نے گزشتہ ماہ اپریل میں میڈیم ٹرم بجٹ اسٹرٹیجی تشکیل دی تھی جو آئی ایم ایف کو بھی ارسال کی گئی۔ اس میں جی ڈی پی 2.9 فیصد رہنے کی پیش گوئی کی گئی تھی مگر چند ہفتوں میں ایسا کیا ہوگیا کہ معاشی شرح نمو اچانک 3.94 فیصد تک پہنچ گئی؟

ماہرین معیشت کے لیے یہ بات حیران کن ہے کہ مالی سال کے ایک بڑے عرصے تک صنعتیں بند رہیں مگر اس کے باوجود اس میں بہتری دیکھی جارہی ہے، مگر یہ کون سی صنعتیں ہیں جو ایندھن یعنی بجلی اور گیس کا استعمال کیے بغیر اتنی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کررہی ہیں، کیونکہ بجلی اور گیس کے شعبے کی نمو تو منفی 22 فیصد رہی ہے۔

کے بچے تعلیم کے زیور سے آراستہ نہیں ہیں والدین انھیں پڑھا نہیں سکتے۔ چھوٹی عمر ہی میں وہ گھر کی کفالت کا بوجھ اٹھا لیتے ہیں۔ مائیں دوپٹے کے پلو سے اپنے آنسو پونچھتی ہیں جب بچے ان کی ہتھیلی پر دن بھر کی کمائی چند روپوں کی صورت میں رکھتے ہیں۔

بیماریاں ان لوگوں کے گھروں میں مکینوں کی طرح ڈیرہ جمائے رکھتی ہیں۔ صاف پانی کا حصول ان لوگوں کا خواب ہے۔ بس زندگی سے کندھا رگڑتے رگڑتے وہ اپنے دن پورے کر لیتے ہیں۔ مہنگائی اتنی ہے کہ پیٹ کا ایندھن بجھانے میں ساری مشقت صرف ہو جاتی ہے۔

سفید پوش پاکستانیوں کے لیے اپنے ہم وطنوں کی سنگدلی اور بددیانتی پر مبنی رویے سے جنم لینے والی ہوشربا مہنگائی جینا مشکل کردیتی ہے۔ ایسی دل خراش خبریں بھی آتی ہیں کہ نئے کپڑے نہ ملنے پر بچے نے خودکشی کرلی، کہیں باپ اس معصومانہ فرمائش پر خود اپنے ہاتھوں بچوں کو موت کے گھاٹ اتارتا ہے۔

ملک کی موجودہ صورتحال میں حکومت بجٹ خسارے کا بوجھ عوام پر ڈالتی چلی جا رہی ہے اور دولت مند افراد پر ٹیکس لگانے کی بجائے غربت میں پسے ہوئے عوام کا خون مزید نچوڑ رہی ہے۔ جہاں پٹرول اور دیگر بنیادی ضرورت کی اشیا پر ٹیکس لگایا جارہا ہے وہاں سرکاری اداروں کی لوٹ مار پر مبنی نجکاری کا عمل بھی جاری ہے۔

موٹر وے سمیت، ملک کی تمام اہم عمارتیں عالمی منڈی میں گروی رکھوائی جا چکی ہیں۔ آنے والے دنوں میں مزید قرضوں کے حصول کے لیے مزید سرکاری عمارتیں گروی رکھوائی جا سکتی ہیں۔ قرضوں کے بوجھ تلے دبی معیشت کا سب سے اہم امتحان ان کی سود سمیت واپسی کے لیے درکار رقم کی فراہمی ہے۔

پاکستان کی معیشت کی حالت یہ ہے کہ قرضوں اور ان پر سود واپس کرنے کے لیے بھی قرضے لیے جاتے ہیں۔ اس کا تمام تر بوجھ بھی دولت امند افراد پر ٹیکس لگانے کی بجائے عوام پر ہی ڈالا جاتا ہے، پاکستان کے عوام صرف انتہائی مہنگی بجلی اور دیگر ٹیکسوں کی مد میں قرضوں کی واپسی کی اہم ذمہ داری نبھائیں گے۔ جس کے نتیجے میں عوام مزید غربت اور محرومی میں دھنس جائے جائیں گے۔

جب حکومت غیر ملکی قرضوں کی رقم ادا کرنے اور بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لیے قرضے لیتی ہے تو حکومت کے پاس کوئی رستہ نہیں کہ وہ ٹیکسوں میں اضافہ کرے اور آئی ایم ایف سے ایک نئے بیل آؤٹ پیکج کے لیے بھیک مانگے۔ آئی ایم ایف پہلے ہی قرضے دینے کے لیے انتہائی سخت شرائط لاگو کر چکا ہے،جس میں بجلی، گیس، پٹرولیم مصنوعات سمیت دیگر ضروریات زندگی کی چیزوں پر سبسڈی کا خاتمہ شامل ہے۔

آئی ایم ایف کے غلام حکمرانوں کی پالیسیوں کی وجہ سے پہلے ہی تقریباً ہر سرکاری اور نجی ادارے میں محنت کش طبقہ شدید پریشان ہے اور حکمرانوں کے خلاف شدید نفرت اور غم و غصہ موجود ہے۔ مختلف اداروں میں نجکاری اور ڈاؤن سائزنگ کیخلاف احتجاجی تحریکیں بھی منظم ہو رہی ہیں۔ نجی صنعتی اداروں میں بھی سرمایہ داروں کے ظالمانہ ہتھکنڈوں اور تیزی سے بڑھتے ہوئے استحصال کے خلاف شدید غم و غصہ موجود ہے۔

فیکٹری حادثات میں بھی بڑے پیمانے پر اضافہ ہو چکا ہے اور آئے روز کسی نہ کسی صنعتی ادارے میں حادثے کے باعث مزدور جاں بحق ہو رہے ہیں۔ آنے والے عرصے میں اس سارے عمل میں شدت آئے گی اور طبقاتی کشمکش میں اضافہ ہو گا۔ اس سارے عمل میں پورے ملک میں ایک بھی سیاسی پارٹی ایسی نہیں جو سرمایہ دارانہ معیشت کے اس گھناو ¿نے کھلواڑ کے خلاف آواز بلند کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔

درحقیقت سیاسی افق پر موجود تمام پارٹیاں اس معیشت سے اپنا حصہ بٹور رہی ہیں۔ اسی لیے مختلف ایشوز کو ابھارا جاتا ہے جنہیں کنٹرولڈ میڈیا بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے اور اسی کو تمام سیاست قرار دیا جاتا ہے۔ میڈیا پر چوبیس گھنٹوں حکمرانوں کی فروعی لڑائیوں، بدعنوان ججوں کے مگرمچھ کے آنسوؤں والے بیانات اور جرنیلوں کی پھرتیوں کے قصے سنائے جاتے ہیں۔

پاکستان کی غریب عوام کے لیے بہتر زندگی کا حصول سرمایہ دارانہ نظام کی جکڑ بندیوں میں موجود نہیں ہے ۔اس کے لیے عوام کو آئی ایم ایف سمیت تمام سامراجی مالیاتی اداروں کی سود پر مبنی معیشت کا مکمل خاتمہ کرنا ہوگا۔ تمام ملٹی نیشنل کمپنیوں، سرمایہ داروں، جاگیر داروں اور بینکاروں کی دولت ضبط کرنی ہوگی۔

موجودہ استحصالی ریاست اور اس پر براجمان کرپٹ جرنیلوں، ججوں، وزیروں، ممبرا ن پارلیمنٹ، بیوروکریٹوں اور حکمران طبقے کے دیگر کرپٹ افراد کا قلع قمع کرنا ہو گا۔ یہ سب صرف ایک عوامی انقلاب کے ذریعے ہی کیا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد ہی قرضوں اور ان کے سود کا یہ گھن چکر، مہنگائی، بیروزگاری، محرومی اور غربت کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو گا اور پاکستان کے غریب عوام کو سرمایہ درانہ نظام سے نجات ملے گی۔

محمد قیصر چوہان

سینئر صحافی،مصنف اورنیشنل وانٹرنیشنل امور،سپورٹس سمیت دیگر موضوعات پر لکھتے ہیں جبکہ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے انٹرویوز بھی کرتے ہیں۔

محمد قیصر چوہان