تازہ ترین

تیل کے ملک گیر بحران پر ایف آئی اے کمیشن رپورٹ کا انجام

oil k mulk geer bohran per fbr commission report ka anjam
  • ناصر محمود
  • جون 1, 2021
  • 12:41 شام

گزشتہ برس جون میں پیدا کئے گئے مصنوعی بحران کے ذمہ داران کا تعین ہونے کے باوجود ایک برس بعد بھی کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی

جون 2020ء میں عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں بہت بڑی کمی کے باوجود پاکستان میں سرکاری طور پر چور بازاری کا جو بازار گرم کیا گیا اور پٹرولیم مصنوعات عام لوگوں کی پہنچ سے باہر کر کے مزید مہنگی کر دی گئیں وہ موجودہ حکومت کا سیاہ کارنامہ تھا۔ اس پر مچنے والے شوروغل کے نتیجے میں ایک انکوائری کمیشن بنایا گیا۔ اس کمیشن نے اپنی سفارشات میں کہا کہ حکومت کا پٹرولیم ڈویژن اوپر سے لے کر نیچے تک اس بحران کا ذمہ دار ہے لہٰذا اسکے اہلکاروں کو سخت سزائیں دی جائیں۔

15 دسمبر 2020ء کو اخبارات کی خبر کے مطابق کمیشن نے 163 صفحات پر مشتمل اپنی رپورٹ میں کہا کہ اس شعبے میں موثر کنٹرول نہ ہونے کے باعث سالانہ 250 ارب روپے کا تیل ایران سے اسمگل کیا جاتا ہے۔ 15 رکنی کمیشن نے پالیسی سازوں سے لے کر ریگولیٹر اور مارکیٹ میں پمپوں پر فروخت تک سارے سلسلے کا بغور جائزہ لینے کے بعد سفارش کی کہ آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کو مکمل طور پر ختم کر دیا جائے اور آئل مارکیٹنگ کمپنی بائیکو کو کام کرنے سے روک دیا جائے۔

انکوائری کمیشن کے مطابق اوگرا کی بدعنوانیوں نے اس اَمر پر مجبور کر دیا ہے کہ قومی شعبوں میں کام کرنے والی دیگر ریگولیٹری باڈیز جن میں نیپرا، پیمرا، مسابقتی کمیشن اور ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان شامل ہیں ان سب کی کارکردگی کا مکمل آڈٹ کروایا جائے۔

وزیراعظم کے حکم پر بننے والے اس انکوائری کمیشن کا سربراہ ایف آئی اے کے ایڈ یشنل ڈائریکٹر جنرل ابوبکر خدا بخش کو مقرر کیا گیا تھا۔ ابتدائی طور پر اسکے اراکین کی تعداد سات تھی جن میں تحقیقاتی اداروں کے نمائندے اوگرا کا سابق رکن اور اٹارنی جنرل شامل تھے مگر بعد میں آٹھ دیگر ماہرین کو بھی شامل کیا گیا۔

رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال مارچ میں پٹرولیم ڈویژن نے تیل کی درآمد پر جو پابندی لگائی وہ ہر لحاظ سے سراسر غلط تھی لیکن آئل مارکیٹنگ کمپنیوں نے اسکی خلاف ورزی کی۔ جس وقت یہ پابندی عائد کی گئی اس وقت عالمی مارکیٹ میں تیل کے نرخ کم ترین سطح پر تھے جس سے ملکی صارفین کو فائدہ اُٹھانے سے محروم کر دیا گیا۔ پٹرولیم ڈویژن اور ڈی جی آئل فروری تا اپریل 2020ء آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو انکے اسٹاک کے حصول کو یقینی بنانے میں ناکام رہے۔ آئل مارکیٹنگ کمپنیوں نے لوکل ریفائنریوں سے اپنا کوٹہ اُٹھانے سے بھی انکار کر دیا۔ کمیشن نے ان تمام نا اہلیوں اور تیل کی صنعت میں رائج غلط کاریوں کا ذمہ دار اوگرا کو قرار دیا۔

اوگرا کا قیام 2002ء کے مشرف دور میں عمل میں آیا اور 2006ء میں اسے آئل انڈسٹری کو سنوارنے کی ذمہ داریاں تفویض کی گئیں مگر اس نے اگلے 14 سال اس کام میں ضائع کر دیئے جس کے بعد پاکستان آئل رولز 2016ء کا اعلان کیا گیا- رپورٹ کے مطابق اوگرا نے کبھی بھی اپنی اتھارٹی منوانے کی کوئی کوشش نہیں کی جو اسے اوگرا آرڈیننس 2002ء کے تحت حاصل تھی۔

تحریر مذکورہ لنک پر بھی موجود ہے: https://www.themonitor.com.pk/2021/05/20/ogra-scandal/

اس ادارے کا کردار ہمیشہ “سفید ہاتھی” کا رہا جب کبھی ملک میں تیل کی قلّت ہوئی یا اور کوئی بحران پیدا ہوا اس نے ہمیشہ خاموش تماشائی کا کردار ادا کیا۔ اوگرا نے گزشتہ جون میں جب آئل مارکیٹنگ کمپنیوں پر جرمانہ عائد کیا وہ نہایت معمولی اور نمائشی نوعیت کا ثابت ہوا۔ اس نے آئل کمپنیوں کو غیرقانونی طور پر عارضی لائسنس جاری کئے۔ اسکے علاوہ اس نے متعدد دیگر غلط کاریاں کیں جن کے نتیجے میں ملک کو تیل کے سنگین بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ لہٰذا کمیشن نہایت سختی کے ساتھ اس بات کی  سفارش کرتا ھے کہ اوگرا کو پارلیمنٹ کے ذریعے چھ ماہ کے اندر تحلیل کردیا جائے۔

وزارت توانائی (پٹرولیم ڈویژن) کے بارے میں کمیشن کا کہنا تھا کہ گزشتہ دَہائی میں اس شعبے کا کردار کبھی حوصلہ افزا نہیں رہا، جون کے بحران میں بھی اسکی نا اہلیوں اور بدعنوانیوں کا سلسلہ جاری تھا۔ لہٰذا مناسب ہوگا کہ آئندہ چھ ماہ کے اندر وزارت قانون کے ذریعے تمام پٹرولیم سیکٹرکے قواعد و ضوابط کی مکمل اوورہالنگ کی جائے۔ اسی طرح آئل انڈسٹری کے بگڑے ہوئے معاملات کو سدھارا جا سکتا ہے۔

کمیشن نے موجود ڈائرکٹر جنرل آئل کے خلاف سخت ترین کارروائی کی سفارش کی جو پیشے کے لحاظ سے جانوروں کا ڈاکٹر ہوتے ہوئے اس اہم عہدے پر براجمان تھا۔ لہٰذا اُلٹے سیدھے احکامات کے ذریعے اس نے تیل کی درآمدات اور کوٹے کا غیر قانونی استعمال کیا۔ اسی طرح اسکے ساتھیوں میں امام علی ابڑو کے خلاف بھی سخت تادیبی کارروائی کی سفارش کی گئی جو پٹرولیم ڈویژن کے معاملات کو غیرقانونی طور پر چلانے کا ملزم تھا۔ یہ شخص اگرچہ پٹرولیم ڈویژن کا باقائدہ ملازم نہیں تھا مگر اس کے باجود وہ چھ سال تک اسکے سیاہ و سفید کا مالک بنا رہا۔

رپورٹ کے مطابق وزارت توانائی (پٹرولیم ڈویژن) کے سیکریٹری کا کردار بھی اس بحران میں کچھ کم مشکوک نہیں تھا۔ وہ کابینہ کے واضح فیصلے کے باوجود تیل کی درآمد پر پابندی کے غیر قانونی عمل کی توجیہ کرنے میں ناکام رہا تھا۔

رپورٹ میں آئل مارکیٹنگ کمپنیوں پر تیل کی ناجائز ذخیرہ اندوزی کرتے ہوئے عام صارفین کے لئے مصنوعی قلّت پیدا کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا گیا کہ انھوں نے بلا وجہ اندرون ملک صارفین کو تیل کی فراہمی بند کرکے بحران پیدا کیا۔ قوائد کے مطابق یہ کمپنیاں ملکی ضرورت کے تحت بیس دن کا اسٹاک رکھنے کی پابند ہیں مگر انہوں نے ناکافی استعداد ہونے کا بہانہ بنایا۔ تحقیق کرنے پر انکشاف ہؤا کہ 90 فیصد آئل کمپنیاں 20 دن کا اسٹاک رکھنے کی شرط کو پورا نہیں کر رہی تھیں۔ اس کے علاوہ ان میں سےاکثر کمپنیاں ضرورت ہونے کے باوجود درآمدی کوٹہ پر عمل کرنے میں ناکام رہیں۔

کمیشن نے حب میں قائم بائیکو کمپنی کی دو ریفائنریوں کو بند کرنے کی سفارش کی۔ رپورٹ کے مطابق جب کمیشن کی ٹیم نے بائیکو کا دورہ کیا تو اسکی دونوں ریفائنریاں نان-آپریشنل تھیں۔ کمیشن یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ ایسی ریفائنریاں قائم کرنے کی اجازت کیوں دی جاتی ہے جو کام نہیں کرتیں اور جب یہ کام نہیں کرتیں تو انکی کمپنیاں تیل کہاں سے سپلائی کرتی ہیں؟ یہ سوالات یقیناً حل طلب ہیں کہ بائیکو کمپنی کو بحیرہ عرب میں 18 میل دور اکلوتا اور غیر روایتی آزادانہ آئل پورٹ ٹرمینل قائم کرنے کی اجازت کیوں دی گئی جبکہ وہاں کسٹمز، میری ٹائم ڈپارٹمنٹ اور ایچ ڈی آئی پی کے دفاتر موجود ہی نہیں ہیں۔

رپورٹ کے مطابق بائیکو کمپنی کا مالک عامر عباسی ایک طویل عرصہ تک نیب کا مفرور ملزم رہا۔ اس کی کمپنی نے خام تیل درآمد کرنے کی آڑ میں ریفائن تیل امپورٹ کرکے  23 ارب روپے سے زائد کا حکومت سے فراڈ کیا تھا۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ تاہم عامر عباسی نے اطلاعات کے مطابق نیب سے ایک ارب روپے کے لگ بھگ ادائیگی کر کے پلی بارگین کر لی ہے۔ کمیشن نے تجویز کیا کہ بائیکو کمپنی کا پچھلے پانچ سال کا ریکارڈ مکمل چھان بین کیلئے قبضے میں لیا جائے۔

قانون کے مطابق اس طرح کے مجرمانہ ریکارڈ کا حامل کوئی بھی شخص مارکیٹنگ کا لائسنس حاصل نھیں کرسکتا۔ لیکن اوگرا کی مہربانیوں کے نتیجے میں عباسی نا صرف بائیکو ریفائنری کا مالک بن گیا بلکہ آئل مارکیٹنگ کمپنی کا چیف ایگزیکٹیو بھی بنا بیٹھا ھے۔ اس طرح کی بے شمار بدعنوانیوں اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے میکنزم میں گھپلوں، ملاوٹ، ٹیکسوں کی چوری، اعدادو شمار میں کئے گئے فراڈ کی داستانیں کمیشن کی رپورٹ میں شامل ہیں۔

اس سارے معاملے کا دلچسپ ترین پہلو یہ ہے کہ ایف آئی اے کی مذکورہ بالا رپورٹ کو پیش ہوئے چھ ماہ ہونے کو آگئے ہیں مگر اس پر عمل درآمد کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ وہی اوگرا اور وہی پٹرولیم ڈویژن اپنی جگہ قائم و دائم ہیں۔ البتہ وزیر برائے پلاننگ، ڈیویلپمنٹ اینڈ اسپیشل انیشیئیٹوز اسد عمر نے 26 مارچ 2021ء کو اسلام آباد میں منعقدہ ایک پریس کانفرنس کے ذریعے یہ اطلاع ضرور دی کہ وزیراعظم کے اسپیشل اسسٹنٹ برائے پٹرولیم ندیم بابر کوعمران خان کے حکم پر ان کے عہدے سے فارغ کر دیا گیا ہے۔

جبکہ سیکریٹری پٹرولیم ڈویژن میاں اسد حیاءالدین کو ان کا متبادل ملنے کے بعد اسٹیبلشمنٹ ڈویژن میں رپورٹ کرنے کو کہا جائیگا۔ یہ دونوں اقدام ایف آئی اے کی مذکورہ بالا رپورٹ کی روشنی میں اُٹھائے گئے ہیں، اسد عمر نے کہا۔ تاہم اُنہوں نے وضاحت کی کہ اس سے یہ نا سمجھا جائے کہ ان دو حضرات کو کسی قسم کی بدعنوانیوں میں ملوث پایا گیا ہے۔

ناصر محمود

پاکستانی صحافت کا بیک وقت اردو و انگریزی زبانوں میں مصروف عمل نام۔ 41 سالہ تجربہ میں تمام اصناف کا احاطہ شامل ہے۔ اردو ہفت روزہ "تکبیر" اور انگریزی روزنامہ "پاکستان آبزرور" کے بانیوں میں شمولیت کا اعزاز حاصل ہے۔ صنعت، سیاست، دفاع اور انویسٹی گیشن رپورٹنگ جیسے متعدد اہم سنگ میل عبور کئے۔

ناصر محمود