تازہ ترین

نجی بجلی گھروں کو گیس نہ دینے پر صنعتی ایسوسی ایشنز سراپا احتجاج

niji bijli gharon ki gas na dene per sanati associations sarapa ehtijaj
  • واضح رہے
  • جنوری 25, 2021
  • 11:35 شام

کراچی کی تقریباً ایسوسی ایشنز کے عہدیداران نے حکومتی اقدام پر سخت رد عمل دیا کہ اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بغیر کوئی فیصلہ سود مند نہیں ہوگا

کراچی: حکومت کی جانب سے صنعتوں کے نجی بجلی گھروں کو گیس فراہمی بند کرنے پر ایف پی سی سی آئی ،کراچی چیمبر اور شہر کی ساتوں صنعتی ایسوسی ایشنز کورنگی، بن قاسم، لانڈھی، فیڈرل بی ایریا، سائٹ سپرہائی وے، نارتھ کراچی اورسائٹ ایسوسی ایشن کے رہنماﺅں نے مشترکہ پریس کانفرنس میں حکومت کی جانب سے نجی بجلی گھروں کو گیس سپلائی بند کرنے کے فیصلے پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ صنعتوں کے نجی بجلی گھروں کو گیس بند کرنے کے حکومتی فیصلے سے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

تین وزراءنے بغیر کسی مشاورت کے نجی بجلی گھروں کو گیس سپلائی بند کرنے کا اعلان کردیا ،سب کچھ آئی پی پیز کو بچانے کے لئے کیا جارہا ہے، اضافی بجلی کی فراہمی کے لئے ابھی سسٹم بھی موجود نہیں ،پاکستان کی برآمدات مسلسل بڑھ رہی تھی لیکن ایسے وقت میں یہ فیصلہ سمجھ سے باہر ہے ،حکومت نے جو فیصلے کرنے تھے وہ نہیں کئے گئے اور اب ایسے فیصلے کئے جارہے ہیں جس سے صنعتی پیدوار کو نقصان پہنچنے گا، ہمارا مطالبہ ہے کہ انرجی سیکٹر کو ڈی ریگولیٹ کیا جائے اور ہمیں سستی بجلی کی مستقل فراہمی کی یقین دہانی کرائی جائے۔

پیر کو فیڈریشن ہاﺅس میں صدر ایف پی سی سی آئی ناصر حیات مگوں، کراچی چیمبر کے صدر شارق وہرہ،وزیراعلیٰ سندھ کے سابق مشیر زبیرموتی والا،نائب صدورایف پی سی سی آئی حنیف لاکھانی، اطہرسلطان، ایمپلائرز فیڈریشن آف پاکستان کے صدر اسماعیل ستار، کاٹی کے صدر سلیم الزماں اور دیگر رہنماﺅں نے کہا کہ حکومت کسی بھی معاملے میں اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت نہیں کرتی اور دانستہ کوئی نہ کوئی مسئلہ پیدا کیا جاتا ہے، ایسے حالات میںانڈسٹری کیسے چلے گی،پاور سیکٹر ملکی معیشت کو بنا اور بگاڑ سکتا ہے، آئی پی پیز پورے پاکستان کا مسئلہ ہے، آئی پی پیز کے ساتھ معاملات حل کرنے کی بجائے ریٹ بڑھا دئیے گئے اور گیس بند کردی گئی اوریہ سب کچھ آئی پی پیز کو بچانے کے لئے کیا جارہاہے ،وزیراعظم خود بتائیں کہ مہنگی بجلی اور گیس کی عدم فراہمی پر کیسے صنعتیں چلیں گی اورصنعتی پیداوار رکنے سے برآمدی آرڈرز کیسے پورے ہونگے،ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اپنے فیصلے کو فوری واپس لے۔

ناصر حیات مگوں نے کہا کہ ملک بھر میں 1100 کیپٹیو پاور یونٹس موجود ہیں،ہمارے مسائل پر بات کرنے کیلئے ای سی سی میں کوئی بھی پاکستانی بزنس مین شامل نہیں اورفیصلہ سامنے والے تین لوگ کرتے ہیں ،ہم حکومت تک اپنا پیغام پہنچا رہے ہیں کہ ہم روڈ بند کرکے پتھر نہیں مارسکتے لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ہم انڈسٹری کو بند ہوتا ہوا دیکھ لیں، وزیراعظم عمران خان اس مسئلے پر فوری توجہ دیں ۔انکا کہنا تھا کہ ہمارے پاس دنیا بھر سے آرڈر موصول ہوئے مگر گیس کا مسئلہ پیدا ہوگیا، ہم سمجھ رہے تھے کی بجلی سستی ہوگی مگر مزید مہنگی کردی گئی،اگر حکومت گیس کی لیکیج کے نقصان کو قابو کرتی تو ہمارے پاس گیس کا ذخیرہ زیادہ ہوتا۔

چیئرمین بزنس مین گروپ زبیر موتی والا نے کہا کہ ہمیں اگر ابھی حکومت بلاتی ہے تو ہم تیار ہیں، بجلی کی سپلائی بہتر کرنے کے لئے دو سے تین سال لگ جائیں گے، یہ تکنیکی مسائل ہم حکومت کو سمجھا سکتے ہیں، حکومت ہمیں 12 روپے کی بجائے 18 روپے کی بجلی دینا چاہتی ہے،اتنا بڑا اعلان کردیا گیا اور کسی کو اعتماد میں نہیں لیا گیا،ہمیںگیس سے بجلی کی پیداواری جولاگت آتی ہے وہی ریٹ دینے،بجلی کے والٹیج کے ڈراپ نہ ہونے کی یقین دہانی کرانے کی ضمانت دی جائے۔

زبیرموتی والا نے کہا کہ ہم نے وزیر اعظم سے بات کی کہ بجلی کی قیمت کم کیا جائے ،آئی پی پیز کے ساتھ حکومت مذاکرات کئے اور بجلی مہنگی کردی گئی ،گیس بند کرکے بجلی مہنگی کی گئی، سوال یہ ہے کہ کیا کے الیکٹرک ہمیں ضرورت کے مطابق گیس فراہم کرسکتا ہے، گرمیوں کراچی کی بجلی کی طلب بڑھ جائے گی ،گیس بند ہوگی تو بجلی مل نہیں سکے گی تو صنعتیں کیسے چلیںگی ،افسوس کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ جب بھی پاکستان کے لئے کچھ اچھا ہوتاہے تو مسائل پیدا کردیئے جاتے ہیں ،ہمیں بیرونی خریدار یہ کہہ رہے ہیں کہ جب گیس، بجلی نہیں تو آرڈر کیسے دوگے، اسی وجہ سے برآمدی آرڈرز اب دوسرے ملکوں کو منتقل ہونا شروع ہوگئے ہیں۔

ایک سوال پر زبیرموتی والا نے کہا کہ اگر ہم حکومتی فیصلے کے خلاف عدالت میں گئے تو معاملات مزید خراب ہوجائیں گے،افسوس تو اس بات کا ہے کہ مشیرتجارت عبدالرزاق داﺅد ان تمام باتوں کو سمجھتے اور اس حوالے سے بات بھی کرتے ہیں لیکن ان کی بات سنی نہیں جاتی۔

صدر کراچی چیمبر نے کہا کہ کراچی میں موجود کے الیکٹرک ملک کی سب سے بدتر سروس دینی والی کمپنی ہے،کے الیکٹرک نے کراچی کے بزنس اور شہریوں کو20 سال سے آگے بڑھنے نہیں دیا،ان کا پاس کوئی نظام ہی موجود نہیں ہے،کے الیکٹرک نے کئی برسوںسے پیسے لے کر رکھے ہیں مگر آج تک گرڈ تک نہیں لگ سکے،کراچی چیمبر حکومت کے اس فیصلے ہرگز قبول نہیں کرے گا، وزیراعظم عمران خان اس معاملے پر مداخلت کریں اور صنعتوں کو بچائیں، گزشتہ حکومتوں نے جو کچھ بھی کیا اس کا ملبہ صنعتکاروں پر کیوں گرا یاجارہا ہے، حکومت سے اپیل ہے کہ انرجی سیکٹر کو ڈی ریگولیٹ کریں،9 ارب ڈالر کا پاکستان کا انرجی امپورٹ ہے،5ارب ڈالر کا آئل انڈسٹری امپورٹ کرتی ہے،ملک کا پرائیویٹ شعبہ ہمیشہ آگے رہا ہے اورکراچی شہر نے ہمیشہ ملک کو بحران سے نکالا ہے،وزیر اعظم اس اقدام کو اٹھانے والوں کے خلاف کارروائی کرینگے،بیوروکریٹس کو لوگوں کے مسائل کا پتا ہی نہیں ہے۔

لاہور سے ایف پی سی سی آئی کے سینئرنائب صدر خواجہ شاہ زیب اکرم نے کہا کہ اگر وزیراعظم عمران خان اسٹیک ہولڈرز کو شامل کئے بغیرکوئی فیصلہ کریں گے تو ہم اسے تسلیم نہیں کریں گے ۔رائس ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے سابق چیئرمین عرفان احمد شیخ نے رائس سیکٹر کی جانب سے کہا کہ پچھلے 6 ماہ میں چاول کی 56 فیصد ایکسپورٹ بڑھی ہے لیکن رائس سیکٹر کی گیس بند کردی گئی ہے، چاول کوایکسپورٹ سیکٹر ہی سمجھا نہیں جارہا ہے حالانکہ پاکستان سے2 ارب ڈالر کا سالانہ رائس ایکسپورٹ ہوتا ہے،صورتحال کا نوٹس نہ لیا گیا تو رائس ایکسپورٹ بھی بند ہوجائے گی۔

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے