تازہ ترین

محنت کش طبقہ اپنے ووٹ کی طاقت سے پاکستان کی تقدیر بدل سکتا ہے

Mehnat Kash tabqa apne vote ki takat sy pakistan ki taqdeer badal sakta ha
  • محمد قیصر چوہان
  • مئی 11, 2023
  • 7:59 شام

محنت کش طبقہ ضمیر کی آواز کے مطابق مخلص،ایماندار ،دیانتد ار نمائندوں کا انتخاب یقینی بنائے تو پاکستانی قوم جاگیرداروں ، سرمایہ داروں اور وڈیروں سے نجات حاصل کر سکتی ہے

ایگریکلچر ایمپلائز یونین بلوچستان کے جنرل سیکریٹری اور آل پاکستان لیبر فیڈریشن کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات منظور احمد بلوچ کا ” واضح رہے “ کو خصوصی انٹرویو

محنت کشوںکے مفادات اور حقوق کے تحفظ کی جنگ جرا ¿ت، بہادری اور استقامت کے ساتھ لڑنے والے منظور احمد بلوچ نے اپنی زندگی ٹریڈ یونین اورمزدوروں کی خدمت کیلئے وقف کر رکھی ہے۔ وہ محنت کشوں کا معیار زندگی بلند کرنے کیلئے کوشاں ہیں اور محنت کش طبقے کی صحت، پیشہ وارانہ تحفظ و سلامتی کے سلسلے میں قانون سازی کے حوالے سے بھی شعور اُجاگر کرنے کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ وہ محنت کشوں کا معیار زندگی بلند کرنے کیلئے کوشاں ہیں اور محنت کش طبقے کی صحت، پیشہ ورانہ تحفظ و سلامتی کے سلسلے میں قانون سازی کے حوالے سے بھی شعور اجاگر کرنے کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں،حیران کن قائدانہ صلاحیتوں کے مالک منظور احمد بلوچ اپنے مضبوط حوصلوں اور بے مثال کردارکے ذریعے حالات کے دھاروں کا رخ موڑ دیتے ہیں،عاجزی اور انکساری ان کی شخصیت کا نمایاں پہلو ہے۔ پاکستان اور محنت کشوں سے ان کی بے پناہ محبت ہر مصلحت سے بالاتر نظر آتی ہے بطور ٹریڈ یونین لیڈران کا کیریئر مزدوروں کے مفادات اور ان کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے معرکہ آرائیوں سے بھرا پڑا ہے۔ گزشتہ دنوں ”واضح رہے“ ویب سائٹ نے ایگریکلچر ایمپلائز یونین بلوچستان کے جنرل سیکریٹری اور آل پاکستان لیبر فیڈریشن کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات منظور احمد بلوچ کے ساتھ ایک نشست کا اہتمام کیا ۔اس میں ہونے والے گفتگو قارئین کی خدمت میں حاضر ہے۔

سوال: پاکستان کا محنت کش طبقہ اس وقت کس حال میں ہے؟

منظور احمد بلوچ:ملک کی موجودہ صورتحال میں محنت کز طبقہ خون کے آنسو رو رہا ہے۔تاریخ ساز مہنگائی اور بے روزگاری کے طوفان نے محنت کش طبقے کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے، موجودہ صورتحال میں مزدوروں کیلئے جسم و جان کا رشتہ قائم رکھنا محال ہوگیا ہے۔لیبر قوانین اور سماجی تحفظ کے قوانین کا اطلاق فارمل سیکٹر کے مزدوروں پر بھی مکمل نہیں ہے جبکہ انفارمل سیکٹر جو کہ تعداد کے اعتبار سے فارمل سیکٹر سے پانچ گنا زیادہ ہے لیبر قوانین اور سماجی بہبود کے قوانین سے مکمل محروم ہیں ان کے بچے تعلیم سے محروم اور مریض علاج سے محروم ہیں دیہاڑی لگ گئی تو رات کی روٹی کھا لیتے ہیں دیہاڑی نہ لگے تو ان کے بچے بھوک سے بلکتے رہتے ہیں۔کام کرنے والی جگہ پرمزدوروں کیلئے صحت و سلامتی کا انتظام نہ ہونے اور حفاظتی آلات کی عدم فراہمی کی وجہ سے آئے روز کوئلے کی کانوں، بجلی کے کھمبوں، گٹروں کے اندر اور دوسرے خطرناک کاموں میں انسانی جانوں کاضیاع ہورہا ہے۔سات کروڑ سے زائد محنت کش ٹھیکیداری نظام میں جکڑے ہوئے ہیں جس نے محنت کش طبقے کی زندگی اجیرن بنا رکھی ہے۔

سوال:محنت کش طبقے کی حالت کس طرح بہتر بنائی جا سکتی ہے؟

منظور احمد بلوچ:سیاسی جماعتیں جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے کلب ہیں جو اپنے طبقے کے مفادات کا ہی تحفظ کرتے ہیں، ظلم کے اس نظام نے کروڑوں انسانوں کو غربت اور افلاس اور بھوک میں جکڑ رکھا ہے ،محنت کش طبقہ تعلیم اور علاج ومعالجہ کی سہولت سے محروم ہے موجودہ صورتحال کا تقاضاہے کہ مزدوروں کی تمام تنظیمیں اور قیادت اپنے اپنے دائروں سے نکل کر مزدور کی خوشحالی، ان کے بچوں کی تعلیم اور علاج ومعالجہ کی سہولت، ان کی عزت نفس کے تحفظ اور انہیں غربت، افلاس، بے روزگاری سے نجات دلانے کیلئے متحد ہو کر کام کرنے پر آمادہ ہو جائیں۔ اب وقت ہے کہ مزدور لیڈر شپ سنبھل جائے اور محنت کش طبقے کے مفاد کی خاطر اپنے چھوٹے چھوٹے دائروں سے باہر نکل کر قومی دھارے میں شامل ہو کر ایک بڑی جدوجہد شروع کریں ، جب تک 75 سال سے مسلط حکمرانوں کو مسترد نہیں کیا جاتا اور سرمایہ داری، جاگیرداری اور افسر شاہی کے اس ٹرائیکا سے نجات حاصل کرکے ایماندار ، دیانتدار ، مخلص اور خدمتگار قیادت کا انتخاب نہیں کیا جاتا،اس وقت تک مزدوروں کا کوئی مسئلہ حل نہیں ہوگا اور نہ ہی محنت کش طبقے کی خوشحالی ممکن ہے،پاکستان کے آئین کے مطابق مزدوروںاور کسانوں کو بنیادی حقوق دیئے جائیں۔

سوال:اس وقت بلوچستان میں ٹریڈ یونینز کی کیا صورتحال ہے؟

منظور احمد بلوچ :کسی بھی ادارے کے ملازمین کو آئی ایل او کے کنونشن اور پاکستان کے 1973 کے آئین کے تحت یونین سازی کا حق حاصل ہے لیکن بلوچستان ہائی کورٹ کے حکم کی روشنی میںبلوچستان کے محکمہ لیبر نے ٹریڈ یونینز حکومت بلوچستان سرونٹ (کنڈکٹ) رولز 1979کے تحت 62 سرکاری، نیم سرکاری اور خود مختار اداروں کی ٹریڈ یونینز کی رجسٹریشن منسوخ کی ہوئی ہے یہ اقدام عالمی اور ملکی قوانین کے برعکس اور بنیادی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے لہٰذا میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطاءبندیال سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ بلوچستان ہائیکورٹ کی جانب سے بلوچستان میں ٹریڈ یونین پر عائد کی جانے والی پابندی پر از خود نوٹس لیں اور اس غیر آئینی ا ور غیرقانونی پابندی کو فوری طور پر ختم کرائیں۔ بلوچستان میں ٹریڈ یونینز پر پابندی سے ملازمین اپنے حقوق سے محروم ہیں،معاشرہ غلامانہ دور کی طرف جا چکا ہے ،افسر شاہی کا راج قائم ہو چکا ہے جو کسی بھی صورت میں معاشرے کیلئے سود مند نہیں،کسی بھی معامشرے کے فلاح و بہبود کیلئے ٹریڈ یونینز کا قیام ضروری ہے تاکہ چھوٹے ملازمین اپنے حقوق کیلئے آواز بلند کرسکیں، بلوچستان ہائی کورٹ کے حکم کی روشنی میںبلوچستان کے محکمہ لیبرکے اقدام سے نہ صرف ملازمین اپنے حقوق سے محروم ہیں بلکہ بے روزگاری میں بھی اضافہ ہوا ہے ۔ ہم عدالتوں کا احترام کرتے ہیں ہمیں معلوم ہے کہ آئین کے تحت، پولیس، ملٹری ملیشیا، فرنٹیئر کور، حکومت کے پریس جہاں اہم سرکاری دستاویزات شائع ہوتی ہیں، ہسپتال جہاں دماغی امراض کے مریض ہوتے ہیں وہاں یونین سازی نہیں ہوسکتی لیکن باقی جگہوں پر تو آئین نے اجازت دے رکھی ہے۔ ہماری کسی بھی یونین کے احتجاج یا مظاہرے سے کبھی بھی حکومتی نظام متاثر نہیں ہوا بلکہ ہم آئین کے دائرہ کار کے اندر رہ کر احتجاج کرتے رہے ہیں، کسی بھی معاشرے کی ترقی کیلئے ضروری ہے کہ وہاں ملازمین کو اپنے حق کیلئے آواز بلند کرنے کی آزادی ہو جس کا بہترین طریقہ یونین سازی ہے اور پاکستان میں 1973 کے آئین کی شق نمبر 17 نے انہیں یہ حق دیا ہے لہٰذامیں سپریم کورٹ آف پاکستان سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے بلوچستان ہائیکورٹ کی جانب سے بلوچستان میں ٹریڈ یونین پر عائد کی جانے والی غیر آئینی ا و رغیرقانونی پابندی کو فوری طور پر ختم کرائے۔

سوال:مزدوریونین کی ممبر شپ میں اضافہ کیوں نہیں ہورہا؟

منظور احمد بلوچ: ٹھیکیداری نظام کی وجہ سے ٹریڈ یونین کی ممبرشپ میں اضافہ نہیں ہو رہا ۔ مزدور قیادت کو اپنی سوچ بدلنی ہوگی‘ تنظیم سازی کیلئے جدید طریقے اپنانے ہوںگے ،مزدور وں کی یونینزجاگیرداروں، سرمایہ داروں اور افسر شاہی کے نشانے پر ہیں،ایک طے شدہ منصوبے کے تحت ٹریڈ یونینز کی حوصلہ شکنی کی جا رہی ہے جس کے باعث ٹریڈ یونین کی نہ صرف ممبر شپ کم ہوگئی ہے اور ٹریڈ یونین کی تعداد میں بھی کمی آرہی ہے،اس کے علاوہ عام فیکٹری ورکرز صنعتی قوانین اور فوائد و نقصانات سے ناواقف ہیں،کارخانوں میں مالکان کی پاکٹ یونینز مزدوروں کی فلاح و بہبود کے لیے کچھ نہیں کرتی ہیں اس وجہ سے عام مزدوروں میں عدم دلچسپی کا رجحان ہے۔اس کی ذمے داری حکمران ٹرائیکا پر عائد ہوتی ہے جو جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور افسر شاہی پر مشتمل ہے جو ریاست اور عوام کو درپیش تمام مسائل کا ذمے دار ہے ،ٹریڈ یونینز کے ذریعے مزدور لیڈر شپ قومی سطح پر پروان چڑھ رہی تھی جسے روکنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور افسر شاہی غریب اور متوسط طبقے سے اُبھرنے والی لیڈر شپ کو ہر صورت روکنا چاہتا ہے۔ حکمرانوں نے پبلک سیکٹر کے اداروں کی نج کاری کی اور مالکان نے اداروں میں ٹھیکیداری نظام کو متعارف کروا کر ٹریڈ یونینز پر عملاً پابندیاں عاید کر دیں جس کے نتیجے میں یونینز کی تعداد نہ ہونے کے برابر رہ گئی اور ان اداروں سے بہت بڑی تعداد میں ریگولر ملازمین کو ملازمتوں سے فارغ کر دیا گیا جس کی وجہ ٹریڈ یونینز کمزور ہو گئیں اور ان کی ممبر شپ میں بھی کمی ہوئی۔ مزدور لیڈر شپ کو چاہیے کہ وہ اپنے کارکنوں کو لیبر قوانین، اپنے حقوق اور فرائض سے آشنا کرے۔

سوال: لیبر کورٹس 90 دن میں فیصلے کیوں نہیں دیتیں؟

منظور احمد بلوچ: عدالتوں میں انصاف تو دور کی بات ایک پیپر حاصل کرنے کیلئے بھی پیسے دینے پڑتے ہیں۔ مزدور ملازمت سے برطرف کردیا جائے یا اس کے ساتھ دوران ملازمت کوئی زیادتی اور ناانصافی ہو رہی ہو تو وہ وکیلوں کی فیس اور مقدمات کے اخراجات ادا کرنے کے قابل نہیں ہوتا جبکہ اس کے مقابلے پر کمپنی اور سیٹھ بھاری معاوضے ادا کرکے اچھے وکیل کرتے ہیں جو متاثرہ فرد کو انصاف سے محروم رکھتے ہیں اور مقدمے کی تاریخ پر تاریخ کے ذریعے انصاف کا حصول ناممکن بنا دیتے ہیں جن کیسزکا فیصلہ قانون کے مطابق 90 دن میں ہونا چاہیے‘ وہ 10، 10 سال یا اس سے بھی زیادہ عرصے تک عدالتوں میں التوا کا شکار رہتے ہیں۔ آجر اور اجیر کے درمیان مقدمات کی تعداد بہت زیادہ ہے اور لیبر کورٹس کی تعداد بہت کم ہے اس کے ساتھ مجاز ججوں کی تعداد بھی ضرورت سے بہت کم ہے۔ نیشنل انڈسٹریل ریلیشن کمیشن (این آئی آر سی) جوکہ ملک گیر یونینز کے صنعتی تنازعات کو حل کرنے کیلئے ایک اہم ادارہ ہے۔ اس میں اکثر ممبران کی نشستیں خالی رہتی ہیں جس کی وجہ سے بے شمار مقدمات التوا کا شکار رہتے ہیں۔ عام طور پر بینچ کی تعداد ہی پوری نہیں ہوتی جس کی وجہ سے سنگل بینچ کے فیصلوں کے خلاف فل بینچ میں کئی اہم مقدمات کی اپیلیں پینڈنگ رہتی ہیں۔ این آئی آر سی میں ممبران کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے پورے ملک میں قائم کمیشن کے دفاتر میں اسلام آباد سے ہی ممبر جاکر مقدمات کی سماعت کرتا ہے۔ ان تمام مشکلات کی روشنی میں حکومت وقت سے یہ استدعا ہے کہ این آئی آر سی اور دوسری لیبر کورٹس میں ججوں کی خالی نشستوں کو فی الفور پ ±ر کرکے عملے کی تعداد بھی مکمل کی جائے۔ 90 دن میں لیبر کورٹس اس لیے فیصلے نہیں کرتیں کہ پاکستان میں انسان صرف چند ہزار افراد پر مشتمل اشرافیہ کو سمجھا جاتا ہے۔ مزدوروں، کسانوں اور غریب عوام کو ملکی نظام انسان ہی نہیں سمجھتا۔ لیبر کورٹس سے عدالت عظمیٰ تک غریب عوام کو نظر انداز کردیا جاتا ہے مزدوروں کے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ وہ اپنی ووٹ کی طاقت کو سمجھیں اور اس کے ذریعے پاکستان کا، اپنا اور اپنی آئندہ نسل کا مستقبل محفوظ کریں۔

سوال:کیا آپ سوشل سیکورٹی اسکیم سے مطمئن ہیں؟

منظور احمد بلوچ:سوشل سیکورٹی ڈپارنمنٹ، ای او بی آئی اور ورکرز ویلفیئر بورڈ ان تینوں کی کارکردگی کسی بھی حوالے سے تسلی بخش نہیں ہے ان ادروں میں کرپشن کا راج ہے ۔ لیبر انسپکٹر اداروں میں انسپکشن کر کے ملازمین کی رجسٹریشن کرنے کے بجائے اپنی جیبیں بھر تے ہیںجس کے سبب ای او بی آئی میں مزدوروں کی رجسٹریشن نہ ہونے کے برابر ہے۔ ملک بھر کے فلاحی اداروں میں مزدوروں کی رجسٹریشن آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں،بدقسمتی یہ ہے کہ ان اداروں کے سربراہان ماہانہ رشوت کے عوض کارخانوں اور فیکٹری کے مالکان کے ساتھ ملکر رجسٹریشن کے عمل کو انتہائی پیچیدہ بنا کر مزدوروں کا استحصال کرتے ہیںاور یوں مزدوروں کی اکثریت بغیر کسی سوشل پروٹیکشن کے ملازمت کرنے پر مجبور ہے۔ای او بی آئی کے اہلکاروں کا رویہ پنشن کے حقدار مزدوروں کے ساتھ بڑا ہی ظالمانہ ہے جن کے پیسوں کے بل بوتے پر یہ اہلکار اور افسران موج کرتے ہیں جب وہ ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن کیلئے ان کے پاس جاتے ہیں تو ان کو انتہائی ذلت آمیز رویہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ان سے ایسا سلوک کیا جاتا ہے جیسے وہ ان سے اپنا قانونی حق نہیں خیرات لینے آئے ہیں،یہی حال ورکرز ویلفیئر بورڈ کا ہے کہ محنت کش میرج گرانٹ، بچوں کی اسکالرشپ اور ان کے لواحقین ڈیتھ گرانٹ کیلئے مارے مارے پھرتے ہیںان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا، انہیں اپنے چیک لینے کیلئے کئی کئی سال تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔

جو رشوت دے اس کاکام جلدی ہو جاتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ فلاحی ادارے صرف اور صرف بیوروکریسی اور ان اداروں میں کام کرنے والے ملازمین بالخصوص افسران کے فائدے تک محدود ہوگئے ،اب ان اداروں سے رجسٹرڈ ملازمت پیشہ افراد کو وہ مراعات و سہولیات میسر نہیں ہیں جو ان اداروں کو فراہم کرنے تھیں۔رجسٹرڈ ملازمین کے نام پر جو فنڈ آجروں سے جمع کیا جاتا ہے اس کا 80 فیصد تک حصہ ان محکموں میں کام کرنے والے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں، گاڑیوں، پیٹرول اور دیگر مراعات پر خرچ ہو جاتا ہے ،بقایا 20 فیصد رقم ٹینڈر و دیگر مراحل کے بعد خرچ ہوتی ہے۔مزدور علاج اور اپنے بچوںکی تعلیم کیلئے دھکے کھا رہے ہیں،فیکٹریوں سے آنے والا فنڈ مزدوروں کے بجائے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور دیگر مراعات پر خرچ ہو جاتا ہے۔برسراقتدار سیاسی جماعتیں جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے کلب ہیں جن کی سرپرستی میں کرپٹ اور بدمعاش مافیا ان اداروں کو جونک کی طرح چمٹا ہوا ہے۔ محنت کشوں کی فلاح و بہبود کیلئے قائم سرکاری محکمے فیکٹری مالکان کے ساتھ ساز باز کرکے مزدوروں کا استحصال کررہے ہیں، لیبر ڈپارٹمنٹ مزدوروں کے حقوق کیلئے ان فیکٹریوں کا محاسبہ نہیں کرتا،اکثر مزدور تنظیمیں بھی صرف اپنے مفاد کو مدنظر رکھتی ہیں اور وہ مزدوروں کو حقوق کی آگاہی نہیں دیتیں، سرکاری سطح پر بھی اکثر مزدور تنظیمیں کاغذی ہوتی ہیں اور غیر ملکی این جی اوز کے ایجنڈے پر کام کرتی ہیں اور مزدورکی فلاح و بہبود کے نام پر حکومتی اداروں سے ملی بھگت کرکے فنڈز خوردبرد کرتی ہیں،ضرورت اس امر کی ہے کہ اداروں میں مزدوروں کے حقیقی نمائندوں کو نمائندگی دی جائے‘ صنعتی اداروں کو پابند بنایا جائے کہ وہ اپنی لیبر فورس کی رجسٹریشن کرائیں۔

سوال: آپ کے خیال میںکیا محنت کشوں کو ملکی سیاست میں حصہ لینا چاہیے؟

منظور احمد بلوچ:پاکستان کی سیاست پر سرمایہ داروں اور جاگیر داروں کا قبضہ ہے۔مزدور کسان جب کسی جاگیرداروں ، سرمایہ داروں ، جرنیلوں ، ججوں اور بیورو کریٹس زندہ باد کا نعرہ لگاتے ہیں تو مزدوروں اورکسانوں کی آنے والے نسلوں کا مستقبل تاریک ہوجاتا ہے۔انگریزوں نے اپنی خدمت اور یہاں کے مظلوم اور محکوم عوام کو اپنی غلامی میں جکڑے رکھنے کیلئے ایک جاگیردار طبقہ اور دوسرا نو دولتی طبقہ پروان چڑھایا۔ ایک قوم کو غلام رکھنے کیلئے افسر شاہی کی تربیت کی اور اب یہی ٹرائیکاگزشتہ 75 سال سے پاکستان پر مسلط ہے ۔محنت کشوں کی نمائندہ تنظیموں کے عہدیداران سیاست کے رموز کو عام پارلیمانی سیاسی قائدین سے زیادہ بہتر سمجھتے ہیں کیوں کے مزدور قیادت کا براہ راست تعلق عام انسانوں سے ہوتاہے اور عام شہری کی ضروریات، ان کی محرومیوں، ان کو درپیش مسائل سے آگاہی کے سبب محنت کشوں کے لیڈر ہی عوام کے حقیقی نمائندہ بن سکتے ہیں۔سیاسی جماعتیں غریب مزدوروں کے ووٹ سے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ کر غریب مزدور کو بھول جاتی ہیں ۔جاگیردارورں ،سرمایا داروں اور بیوروکریسی نے ملکرمحنت کش طبقے کیلئے سیاست کو شجر ممنوعہ قرار دیا ہے۔ پاکستان میں رائج جمہوری نظام جمہوریت کی توہین ہے ، دراصل یہ جمہوریت کے لبادھے میں مافیاز اور آمریت کا قائم کردہ ایک استحصالی نظام ہے۔اس نظام نے پاکستان کے مزدور سمیت عام آدمی کو پارلیمنٹ سے دور رکھا ہوا ہے۔پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن 75 سال سے کبھی زرعی پالیسی نہیں بن سکی اور نہ ہی کوئی کسان پارلیمنٹ کا حصہ بنا ہے۔مزدوروں، کسانوں اور غریب عوام کو سیاسی عمل سے دور رکھنا ایک مستقل پالیسی کا حصہ ہے۔مزدور اور کسان جب تک سیاسی عمل کا حصہ نہیں بنیں گے اور اس ٹرائیکا کے تسلط کو توڑنے کے اپنی ووٹ کی طاقت کو مجتمع کرکے اس کے ذریعے ایک دیانتدار قیادت کا انتخاب نہیں کریں گے محنت کشوں کے حالات نہیں بدلیں گے۔محنت کشوں کو غربت سے نجات حاصل کرنے کیلئے ملکی سیاست میں ضرور حصہ لینا ہوگا۔جب مزدور اور کسان پارلیمنٹ کا حصہ بنیں گے تو ہی پاکستان ترقی کرے گا۔

سوال:آپ کے نزدیک پاکستان کی معیشت کو مضبوط بنانے کیلئے کن اقدامات کی ضرورت ہے؟

منظور احمد بلوچ :سب سے پہلے حکومت ایک مزدور دوست لیبر پالیسی بنا ئے پھر صنعت کاری کیلئے ایک سازگار ماحول فراہم کیا جائے۔ آجر اور اجیر گاڑی کے دو پہیوں کی طرح ہیں جب تک ان دونوں پہیوں میں ہم آہنگی نہیں ہوگی، کسی بھی صنعت کا چلنا اور اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنا ناممکن ہے۔مزدور ہی وہ بنیادی اکائی ہے جو صنعتکار کے بنائے گئے گئے خوابوں میں اپنے خون پسینے سے رنگ بھرتا ہے۔ پاکستان کی ترقی میں آجر اور آجیر کا کردار بڑی اہمیت کا حامل ہے ،دونوں کا باہمی رابط اور کارخانے یا فیکٹری میں سازگار ماحول پیداوار میں اضافے کا باعث بنتا ہے ،مزدوروں کی صلاحیتوں میں اضافے کیلئے ضروری ہے کہ جاب سیکورٹی، تنخواہ اور دیگر مراعات کے حوالے سے بھی مزدور کو مطمئن رکھیں، محنت کشوں کی ضروریات کا خیال رکھا جائے ،ان کی مراعات میں اضافہ کیاجائے‘ تعلیم و صحت اور رہائش مہیا کی جائے‘ رعایتی نرخ پر راشن فراہم کیا جائے تا کہ وہ یکسوئی سے اپنے کام اور کارکردگی پر توجہ دے سکے،جس کا ثمر آجر اور اجیر دونوں کو حاصل ہوگا کہ وہ انڈسٹری اور ادارہ کامیابی سے ٹارگٹس اور منافع حاصل کرسکے گا۔اس کے علاوہ یہ بھی ضروری ہے کہ کارخانے میں کام کرنے والا مزدور ہنرمند ہو، اپنے کام سے اچھی طرح واقف ہو اور اپنے کام پر مکمل دسترس رکھتا ہو۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ جہاں ٹیکنیکل ادارے قائم ہوں جو فیلڈ اور مارکیٹ کے مطابق ہنر مند تیار کرسکیں وہیں اپرینٹس شپ ٹریننگ کورس کا قانون موجود ہے جس پر عملدرآمد کرتے ہوئے تمام بڑے ادارے اپرینٹس شپ کے ذریعے نوجوانوں کو باصلاحیت ہنر مند بنائیں تاکہ ان کے ادارے کی ضروریات اور مشینوں و آلات کی ٹریننگ بہتر انداز سے فراہم کی جاسکے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اور آجر مل کر آئی ٹی، کمپیوٹر، سول، الیکٹریکل، میکنیکل و میٹالرجی میں سرٹیفکیٹ، ڈپلوما اور جاب ٹریننگ کے ادارے مشترکہ طور پر قائم کریں ۔باصلاحیت محنت کش کارخانے یا فیکٹری کی پیداوار میں اضافہ کرسکتے ہیں لہٰذا آجر، اجیر کی صلاحیت کو بڑھانے میں اپنا کردار ادا کرے، ایک صحت مند اور خوشحال مزدور ہی آجر اور ملک کی ترقی کا ضامن ہوسکتا ہے۔صنعت اور زراعت کو پروان چڑھا کرہی پاکستان کو ترقی ،عوام کو خوشحالی کی راہ پر گامزن کیا جا سکتا ہے۔

سوال:ٹریڈیونین جمہوریت کے فروغ میں کیا کردار ادا کرسکتی ہیں؟

جواب: پاکستان کا جمہوری نظام اور پارلیمنٹ سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور بیوروکریسی کے ہاتھوں یرغمال ہے۔پاکستان میں اگر کہیں جمہوریت واقعی موجود ہے تو صرف ٹریڈ یونینز میں ہے،سیاسی جماعتوں میں جمہوریت کا صرف راگ الاپا جاتا ہے ،یہ سیاسی جماعتیں نہیں ہیں بلکہ خاندانی بادشاہتیں ہیں جن کے ذریعے عوام کو غلام بنایا ہوا ہے۔ٹریڈ یونین میں ہر 2 یا 4سال بعد باقاعدگی سے انتخابات ہوتے ہیں،ہر یونین کا اپنا ایک دستور ہوتا ہے جس کی پابندی کی جاتی ہے ،ٹریڈ یونینز کے اس جمہوری کلچر کے برعکس جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے تسلط میں قائم نام نہاد سیاسی جماعتیں جمہوریت کا صرف راگ الاپتی ہیں اور ٹریڈ یونینز کے ذریعے اُبھرنے والی مزدور لیڈر شپ سے خائف ہیں۔اور یہی وجہ ہے کہ سرمایہ دار، جاگیردار اور افسر شاہی آئے دن ٹریڈ یونین کارکنوں کے حقوق کے پامال کرتے ہیں اور ان پر قدغن لگاتے ہیں۔ اگر مزدور لیڈر شپ اُبھر گئی تو ملک بھر کی طرح سیاسی جماعتوں میں بھی حقیقی جمہوریت فروغ پائے گی۔ بدقسمتی سے انگریزوں کے تربیت یافتہ کالے انگریزوں اور پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد پیدا ہونے والے ریاستی اداروں اور اشرافیہ نے” لڑاﺅ اور حکومت کرو “کے تحت عوام میں پروپیگنڈے سے نفاق کے ایسے بیج بوئے کہ وہ ایک جیسے مسائل کا شکار ہونے کے باوجود متحد نہیں ہو پاتے،عوام میں مزدور اپنے ہنر کے باعث منظم قوت ہے مگر یہ منظم قوت خود مختلف ٹکڑیوں میں تقسیم ہوکر کمزور ہوچکی ہے اور اس کا خمیازہ بھی بھگت رہی ہے ،مٹی کو سونا بنانے ، ویرانے کو چار چاند لگانے، زندگی کو رواں دواں رکھنے والی قوت مزدوروں کے پاس ہے ان کو ہر وقت یہ موقع میسر ہے کہ وہ سیاسی قوت بن کر دنیا کو بدل سکتا ہے مگر اس کیلئے انہیں متحد ہونا پڑے گا ، مزدور بلا تفریق اپنی قوت پر بھروسہ کرتے ہوئے منظم ہوجائیں اور شعوری طور پر سیاست کا حصہ بنیں تو وہ بھی پارلیمنٹ کا حصہ بن کر ملکی ترقی میں کردار ادا کرسکتے ہیں۔

سوال: آپ کے نزدیک پاکستان کی تقدیر بدلنے کا فارمولا کیا ہے؟

منظور احمد بلوچ:کوئی بھی معاشرہ ووٹ کی اہمیت سے انکار نہیں کر سکتا،ترقی یافتہ ممالک میں ووٹ کی بڑی اہمیت ہے اس کو صرف پرچی نہیںبلکہ ملک و قوم کی تقدیر سمجھ کر کاسٹ کیا جاتا ہے۔ ووٹ قومی امانت اور ایک اہم ترین فریضہ ہے اور اس کا صحیح استعمال ہر پاکستانی شہری کا حق اور بنیادی ذمہ داری ہے کیونکہ ووٹ کے صحیح استعمال سے ہی پاکستان کامستقبل روشن بنانے کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے پاکستان میں موجود سات کروڑ سے زائد مزدور اپنے ووٹ کی طاقت سے پاکستان کی تقدیر بدل سکتا ہے ، محنت کش طبقہ بغیر کسی دباﺅ میں آئے، اپنے ضمیر کی آواز کے مطابق مخلص،ایماندار اور دیانت دار قیادت اور نمائندوں کا انتخاب یقینی بنائے تو پاکستانی قوم جاگیرداروں ، سرمایہ داروں اور وڈیروں سے نجات حاصل کر سکتی ہے۔ ووٹ کا صحیح استعمال ہر پاکستانی مرد و عورت پر فرض ہے۔ پاکستان میں نوجوانوں اور خواتین کی تعداد بہت زیادہ ہے لہٰذا نوجوان نسل اور خواتین کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتااگر پاکستان کی سول سوسائٹی کے نمائندے ملک کی نوجوان نسل اورخواتین سمیت محنت کش طبقے میں ووٹ کے صحیح استعمال کا شعور اُجاگر کرکے انہیں اپنی طاقت کا احساس دلائے تو ووٹ کی طاقت سے روایتی سیاستدانوں ،جاگیرداروں ، سرمایہ داروں اور وڈیروں سے نجات حاصل کر سکتی ہے۔جب تک ووٹ کا ٹرن آﺅٹ70 فیصد سے زائد نہیں ہو گا اس وقت تک جمہوریت مضبوط نہیں ہو سکتی، پاکستان کی ترقی وخوشحالی کیلئے ووٹ کے صحیح استعمال کی اشد ضرورت ہے۔

محمد قیصر چوہان

سینئر صحافی،مصنف اورنیشنل وانٹرنیشنل امور،سپورٹس سمیت دیگر موضوعات پر لکھتے ہیں جبکہ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے انٹرویوز بھی کرتے ہیں۔

محمد قیصر چوہان