تازہ ترین

مادہ اور روح

01-life-after-death-GettyImages-87482710-770
  • خرم علی راؤ
  • جون 1, 2020
  • 3:02 شام

دنیا میں پیدا ہونے والاہر جاندار بشمول انسان ہمارے عقیدے کے مطابق مادہ اور روح کا مرکب ہے اور روح اللہ کا امر ہے۔آج کل کی دنیا میں مادی ترقی کا غلغلہ مچا ہوا ہے

اور نسل انسانی سائنسی اور مادی ترقی کے اعتبار سے شاید اپنی تاریخ کے سب سے زریں دور سے گزر رہی ہے۔ انسانوں نے مادے پر محنت کی تو اسے آسمانوں میں اڑا دیا بلکہ خلاؤں میں پہنچا دیا ،سمندروں کی تہیں انسانی مادی رسائی سے نہ بچ سکیں اور آبدوزوں کی شکل میں وہاں تک بھی باآسانی رسائی مل گئی۔بلاشبہ مادے پر محنت کرنے نے بہت کچھ ملا، یہ سب کرشمات سائنس اور ٹیکنالوجی نامی جن نے دکھائے ہیں چند صدیوں قبل تک یہ جن مشرق کے اور مسلمانوں کے قبضے میں تھا اور اسوقت مشرقی اور اسلامی تہذیب کا شمار دنیا کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ تہذیب میں ہوا کرتا تھا لیکن زمانے کے تغیرات،حالات و واقعات سے یہ جن مشرقی قبضے سے نکل گیا اور مغرب کے سائنسی عاملوں نے کئی سو سال کی ریاضت اور چلہ کشی کے بعد اسے قابو کرلیا اور آجکل یہ مغربی تہذیب کو بام عروج عطا کئے ہوئے ہے

اور وہ زمین و آسمانوں میں دھوم مچا رہے ہیں اور دنیا کو اپنی تہذیب کی چمک سے مسحور کر کے رکھا ہوا ہے۔ لیکن کیا بات اتنی ہی سادہ ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے اس جن کو قابو کر کے انسانیت کو صرف فوائد اور سہولیات ہی ملی ہیں یا تصویر کا ایک رخ اور بھی ہے۔ مانا کہ ٹیکنالوجی اور سائنس نے ہمیں بے شمار فوائد، سہولیات اور آسانیاں دی ہیں۔ برقی رو، فون،انٹرنیٹ، علاج معالجے کے شعبے میں حیرت انگیز ترقی، رسل و رسائل کے ذرائع اور سفری سہولیات میں زبردست آسانیاں، رابطہ کاری کے بہت سے وسائل اوراس دورِ جدید میں ایجاد شدہ دیگر بہت سی اشیاء وغیرہ۔ یہ سب اب آپ کی عام رسائی اور فنگر ٹپ پر ہیں۔ لیکن اس ٹیکنالوجی کے جن نے جہاں بہت کچھ دیا ہے وہیں بہت کچھ چھین بھی لیا ہے اور سود و زیاں کا حساب رکھنے والے بہت اہل نظر یہ بھی کہتے پائے گئے یہ لینا اس دینے سے بہت زیادہ ہے۔

میں علامہ کے شعر میں مشینوں اور ٹیکنالوجی پر کی گئ تنقید کہ؎ ہے دل کے لئے موت مشینوں کی حکومت ،،احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات جیسی باتوں کو دلیل بلکل نہیں بناتا حالانکہ اس ٹیکنالوجی سے بھری مشینی دنیا کی مشینوں نے انسانوں سے انکے بہت سے فطری خواص کس بے رحمی سے آہستہ آہستہ چھین لئے ہیں اور مادہ پرست تہذیب نے اپنی تہذیبی ترقی اور چکاچوند کا فائدہ اٹھا کر انسانی اور دینی اخلاقیات پر اپنے مادر پدر آزاد نظریات اور اعمال کی ترویج کرتے ہوئے کیسی ضرب لگانے کی کوشش کی ہے اور کیسے انسانوں کو رفتہ رفتہ مشینوں میں ڈھالتی جا رہی ہے

کہ بس کسی بھی اخلاقیات کی پرواہ کئے بغیر لذات اور آسائشات کے حصول کے لئے ہر طریقہ اور ترکیب حلال و حرام کی پرواہ کئے بغیر استعمال کر گزرو کیونکہ یہ حلال و حرام کا تصور تو انکی آزاد تہذیب میں ہے ہی نہیں یا پھر بہت محدود اور ناقص ہے ۔ میں تو کچھ ٹھوس حقائق پر بات کروں گا اور ان میں سب سے پہلے اور سب سے اہم ہے گلوبل وارمنگ۔ ٹیکنالوجی کے استعمال کے لئے بنائے گئے نظاموں نے عالمی موسم بگاڑ دیا ہے۔ اوزون کی تہہ جو ہمیں سورج کی ہلاکت خیز شعاؤں سے تحفظ دینے کا سب سے بڑا قدرتی ذریعہ اور غلاف تھا وہ دیگر صنعتوں کے ساتھ ساتھ فریج اور ائیر کنڈیشنز میں استعمال ہونے والی گیسز کے بے تحاشہ اضافے کی وجہ سے کئی جگہ سے پھٹ چکا ہے۔ لکڑی کے حصول کے لئے جنگلات کے بے تحاشا کٹاؤ کی وجہ سے دنیا یعنی کرہ ارض کے پھیپڑے خراب ہورہے ہیں

اور فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور آکسیجن کا قدرتی تناسب بگڑ چکا ہے جس سے گرین ہاؤس افیکٹ جھوم جھوم کر رقص کررہا اور لمبی لمبی چھلانگیں لگا رہا ہے۔ اسی کی وجہ سے عالمی درجہ حرارت تبدیل ہورہا ہے اورقطبین بھی اب ہزاروں سال سے منجمد حالت میں رہنے سے تنگ آگئے ہیں اور پگھلنے کے موڈ میں آ گئے ہیں جس سے زبردست طوفانوں اور بد ترین موسمیاتی تغیرات کا خطرہ آنکھیں دکھا رہا ہے ۔ پھر آتی ہے ایٹمی یا نیوکلئیر پاور جس نے دنیا بھر کو گویا بارود کے ڈھیر پر بٹھا دیا ہے

اور ابھی جیسے کشمیر کے معاملے پر کچھ عرصے پہلے تک ہندو پاک کی نیو کلیئر ریاستیں آمنے سامنے بظاہر گنڈاسہ تھامے کھڑی ایک دوسرے کو للکار رہی تھیں اور ایسے ہی دنیا میں کئی جنگی فلیش پوائنٹس اور بھی موجود ہیں اور اگر خدا نخواستہ خاکم بہ دہن کوئی ایسی ویسی بات ہوگئ یعنی جنگ کے شعلے کہیں بھی بھڑک اٹھے تو پھر اس کے اثرات صرف کسی ایک جگہ تک محدودنہیں رہیں گے بلکہ سارا کرہ ارض بد ترین طور پر متاثر ہوگا اور ابھی اسی خدشے پر چند دن پہلے ہی بی بی سی نے اس پر پوری تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے جو اس شعبے کے ماہرین کی تیار کردہ ہے۔

اور بھی بہت سی باتیں اور خطرات و خدشات ہیں جوسائنس اور ٹیکنالوجی کی وجہ سے یا اگر ہمدردانہ انداز میں کہا جائے تو ملٹی نیشنل کمپنیوں کے اس گلوبل ولیج میں ان کمپنیوں اور سرمایہ دار بڑے ممالک کے بے تحاشہ منافع کے لئے کئے جانے والے سرمایہ دارانہ اقدامات کے لئے اس کے یعنی ٹیکنالوجی کے غلط استعمال سے کی وجہ نہ صرف پیدا ہوچکے ہیں بلکہ جوان ہوکرآنکھیں دکھا رہے اورجائیداد میں سے حصہ بھی مانگ رہے ہیں۔

اخر میں چلتے چلتے موجودہ سائنسی دنیا کے امام جناب آئن اسٹائن کی ایک بات شئیر کرتا چلوں کہ کسی نے ان سے پوچھا تھا کہ جناب آپ دنیا کے ذہین ترین انسان اور بڑا دماغ کہلاتے ہیں اور بجا طور پر کہلاتے ہیں کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ تیسری عالمی جنگ میں کون سے ہتھیار استعمال کئے جائیں گے۔ وہ ستم ظریف سوال سن کر کچھ دیر سوچتا رہا اور پھر بولا کہ یہ تو میں یقین سے نہیں بتا سکتا لیکن یہ یقین سے بتا سکتا ہوں کہ چوتھی عالمی جنگ میں کون سے ہتھیار استعمال ہونگے،پوچھا گیا کہ کونسے؟ آئن اسٹائن بولا۔۔ پتھر اور ڈنڈے۔

تو یہ تو تھا مادے اور اس کی خدشات سے بھری ترقی کی روداد اور اب آتے ہیں روح پر کہ ہر جاندار مادے اور روح کا ہی مرکب ہے۔ اب جس طرح مادے پر محنت نے حیر انگیز نتائج دیئے ہیں اسی طرح روح پر محنت اس سے ہزاروں گنا زیادہ عجائب و غرائب پر مبنی مفید نتائج دیتی رہی ہے اور ہزاروں لاکھوں مثالیں ہیں ہر ہر مذہب کے ان حضرات کی جنہوں نے روحانی بالیدگی حاصل کرنے کی محنت کی اور معجزے برپا کرکے دکھا دیئے۔دین اسلام کا مرتب کردہ نظام حیات روح پر محنت کرنے فوائد حاصل کرنے کا سب سے بہتر نظام ہے کیونکہ یہ اس کا مرتب کردہ نصاب اور طریقہ ہے جو روح،

مادہ اور تمام عالمین اور مخلوقات کا خالق ہے اور اس نے انسانوں کی بھلائی اور فائدے کے لئے دین اسلام کی شکل میں بہترین طرز حیات برائے عمل تعلیم کیا ہے۔ اب ایک مثال پر بات ختم کرتا ہوں کہ روح کی گوناگوں اور بے شمار طاقتوں میں سے صرف ایک طاقت خیال یا سوچ کی ہے اور کوئی بھی فرد چاہے وہ روح کو نہ بھی مانتا ہو خیال کی رسائی،رفتار اور پہنچ سے کیسے انکار کرسکتا ہے کہ خیال اور سوچ آناً فاناً کائنات بلکہ ورائے کائنات تک لے جا سکتی ہے اور انسانی سوچ کہاں کہاں تک چلی جاتی ہے اسی مضمون کو مرزا غالب نے بھی یوں باندھا ہے کہ ؎ ہے

کہاں تمنا کا دوسرا قدم یا رب۔۔ ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا پایا۔ تو روح پر محنت کرنا اور اسکے قواعد کو ضوابط کے مطابق اسے توانا بنانا آپ کو مشکلات سے مکھن میں سے بال کی طرح باہر نکال لینے کا ضامن ہے اورہر قسم کے حالات چین سکون راحت اور آرام مہیا کرتا ہے اسی لئے یہ عام مشاہدہ ہے کہ جن افراد کا تعلق اللہ پاک سے مضبوط ہوتا ہے اور جو اہل اللہ شمار ہوتے ہیں اور جن کی ارواح اس تعلق مع اللہ کی وجہ سےتوانا ہوتی ہیں وہ چین و سکون کی نعمت سے نہ صرف خود مالامال ہوتے ہیں بلکہ اسے دوسروں کو بھی منتقل کردیتے ہیں اور ان کی صحبت میں رہنے والا بنا کسی مادی سبب کے خود کو پرسکون اورمحفوظ کرتا ہے۔

خرم علی راؤ

خرم علی راؤ،، پیشے کے اعتبار سےسائنس ٹیچر ہیں،،کالم نگار،بلاگر،پروفیشنل ترجمہ نگار، بھی ہیں،

خرم علی راؤ