تازہ ترین

برطانوی عدالت نے جولین اسانج کی امریکہ حوالگی کی درخواست مسترد کردی

Julian Assange cannot be extradited to US UK judge rules
  • واضح رہے
  • جنوری 4, 2021
  • 11:27 شام

بانی وکی لیکس کی صحت کو دیکھتے ہوئے انہیں ملک بدر کرنا ظالمانہ اقدام ہوگا۔ لندن کی سینٹرل کرمنل کورٹ کے ریمارکس

لندن: ایک برطانوی عدالت نے پیر کو فیصلہ سنایا ہے کہ وکی لیکس کے بانی جولین اسانج کو جاسوسی کے الزام میں امریکہ کے حوالے نہ کیا جائے۔ لندن کی سینٹرل کرمنل کورٹ میں جج وینیسا بیریٹسر نے فیصلہ دیا کہ اسانج کی دماغی صحت اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ انہیں ملک بدر کیا جائے۔

جج نے کہا کہ امریکہ میں اسانج کو ممکنہ طور پر قیدِ تنہائی میں رکھا جائے گا، جس کا مطلب ہے کہ ان کی امریکہ حوالگی ظالمانہ ہو گی۔ اسانج کو امریکہ میں سخت سکیورٹی والی جیل میں 175 سال قید کی سزا سنائی جا سکتی تھی۔ جج نے کہا کہ اسانج کو ان کے فیصلے کے خلاف امریکہ کی جانب سے ممکنہ اپیل تک حراست ہی میں رکھا جائے۔

49 سالہ اسانج نے اپنی ویب سائٹ وکی لیکس پر امریکہ کی عراق میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تفصیلات شائع کی تھیں، جس پر انہیں امریکہ میں جاسوسی اور سائبر ہیکنگ کے 17 مقدمات کا سامنا تھا۔

وہ اس وقت لندن کی ایک جیل میں قید ہیں۔ حال ہی میں اس جیل میں کرونا وائرس کی وبا پھوٹنے کی وجہ سے انہیں قیدِ تنہائی میں رکھا گیا ہے، جسے ان کے وکیل نے ’نفسیاتی تشدد‘ قرار دیتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اسانج خودکشی کی طرف مائل ہو سکتے ہیں۔

برطانوی صحافی گلین گرین والڈ نے انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ وہ یہ تو سمجھتے ہیں کہ اسانج کی امریکہ حوالگی کے خلاف فیصلہ اچھی خبر ہے، لیکن اسے ’صحافت کی فتح‘ نہیں سمجھنا چاہیے۔ جج نے واضح کیا ہے کہ وہ یہ سمجھتی ہیں کہ اسانج پر 2010 میں اشاعت کے سلسلے مقدمہ چلایا جا سکتا تھا۔ اس کی بجائے یہ امریکی جیلوں کے انتہائی ظالمانہ نظام کے خلاف فیصلہ ہے۔

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے