تازہ ترین

آنحضرتؐ کا رعب و دبدبہ (خوبصورت واقعہ)

hazrat mohammad pbuh ka rob e dabdaba ka khoobsurat waqia
  • واضح رہے
  • جون 1, 2021
  • 1:32 شام

مکہ مکرمہ زمانہ جاہلیت میں بھی تجارت کا بڑا مرکز تھا۔ لوگ دور دور سے اپنے سامان تجارت کے ساتھ اس مقدس شہر میں آتے تھے

ابوجہل بن ہشام نہ صرف کفر کا سرغنہ تھا بلکہ وہ رسہ گیر بھی تھا، جس کو جی چاہتا ذلیل کر دیتا، مارتا، پیٹتا یا اس کے کاروبار کو نقصان پہنچاتا۔ اس کے دل و دماغ میں فرعونیت بھری ہوئی تھی۔ ”زبید“ یمن کا بڑا شہر ہے۔ وہاں کے رہنے والوں کو زبیدی کہا جاتا ہے۔

ایک مرتبہ ایک زبیدی اپنے تین بہترین اونٹوں کے ساتھ مکہ مکرمہ کے بازار ”حزورہ“ میں آتا ہے۔ اس نے انہیں فروخت کے لیے پیش کیا۔ لوگ انہیں دیکھ رہے ہیں، بڑے خوب صورت اور مہنگے اونٹ، ہر کسی کی نگاہوں کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ اتنے میں مکہ مکرمہ کا یہ بڑا چوہدری ابوجہل بھی آجاتا ہے۔ اس نے اونٹوں کو دیکھا تو اسے بڑے پسند آئے۔

ابوجہل نے زبیدی کو پکارا: ارے او زبیدی! کتنے دام لو گے؟ زبیدی ایک لمبا سفر کرکے آیا تھا۔ اسے امید تھی کہ ان اونٹوں کی فروخت سے اسے ایک بڑی رقم مل جائے گی۔ اس نے اپنی خواہش اور توقع کے مطابق دام بتا دیئے۔ ابوجہل نے شیطانی مسکراہٹ کے ساتھ اسے دیکھا اور کہا کہ اتنی زیادہ رقم۔ سنو! جو تم نے دام طلب کئے ہیں، میں ان کا صرف تیسرا حصہ دوں گا۔ بولو: سودا منظور ہے؟

مطلوبہ قیمت کا صرف تیسرا حصہ! زبیدی نے نفی میں سر ہلا دیا۔ وہ بڑی آس اور امید لے کر آیا تھا۔ اس نے کہا میں تو منافع چاہتا ہوں اور مجھے یہاں خسارے کا سودا کرنے کے لیے کہا جارہا ہے۔

ابوجہل نے اونٹوں کی جو قیمت لگائی، اس کی خبر فوراً پورے بازار میں پھیل گئی۔ سب کو معلوم ہو گیا کہ زبیدی نے اسے کم قیمت پر اونٹ بیچنے سے انکار کر دیا ہے۔ ابوجہل کا خوف اور ڈر ہر کسی کو تھا۔ اب لوگ ڈر رہے ہیں کہ اگر ہم نے ابوجہل سے بڑھ کر قیمت لگائی تو وہ ناراض ہو جائے گا اور اس کی ناراضی کا مطلب یہ ہے کہ رسوا ہونا پڑے گا، لہٰذا اس کی ناراضی کے ڈر سے کوئی اونٹ خرید نہیں رہا۔ انہیں ناقابل فروخت بنا دیا گیا۔

زبیدی نے کچھ دیر انتظار کیا کہ شاید اس کے اونٹ بک جائیں، مگر کوئی گاہک ابوجہل کی ناراضی کے ڈر سے انہیں خریدنے کے لیے تیار نہیں ہوا۔

اس کا رخ اب اس رحم دل کی طرف ہے جو اعلیٰ اخلاق والے ہیں۔ جس کی کوئی مدد نہیں کرتا، وہ اس کی مدد کرتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ سیدنا ابو بکر صدیقؓ، سیدنا عمر فاروقؓ اور سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ کے ہمراہ مسجد حرام میں تشریف فرما ہیں۔

بنو زبید کا یہ شخص آپ ﷺ کے پاس آتا ہے اور دہائی دیتا ہے: قریش کی جماعت! بھلا تمہارے پاس مال کیسے آئے گا؟ تجارتی قافلے تمہاری طرف کیسے آئیں گے؟ کوئی تاجر تمہارے پاس کیسے مقیم ہو گا؟ جو تمہارے پاس حرم میں آجاتا ہے، تم اس پر ظلم کرتے ہو۔

یہ شخص پہلے قریش کے مختلف حلقوں کے پاس جاکر اپنی فریاد سنا چکا تھا، مگر تمام نے خاموشی اختیار کرلی تھی۔

اللہ کے رسول ﷺ نے اس سے پوچھا: ”تجھ پر کس نے ظلم کیا ہے؟“ زبیدی نے بتایا کہ ابوجہل نے مجھ پرظلم کیا ہے، پھر اس نے پوری تفصیل کے ساتھ سارا واقعہ آپ ﷺ کے گوش گزار کر دیا۔ اللہ کے رسول ﷺ نے پوچھا: ”تمہارے اونٹ کہاں ہیں؟“

زبیدی کہنے لگا کہ وہ ابھی ”حزورہ“ ہی میں ہیں۔ آپ ﷺ نے اپنے ساتھیوں کو اپنے ہمراہ چلنے کا اشارہ کیا اور ان کے ساتھ اونٹوں کی طرف گئے۔ زبیدی کے اونٹ واقعی بڑے خوب صورت اور حسین و جمیل تھے۔

زبیدی سے پوچھا: ان کی کتنی قیمت لو گے؟ اس نے جو قیمت بتائی، آپ نے وہ سودا منظور کر لیا اور اسے قیمت ادا کر دی۔

تھوڑی دیر گزری ہے، اللہ کے رسول ﷺ ان خریدے ہوئے اونٹوں کو فروخت کر رہے ہیں۔ گاہک آکر دیکھ رہے ہیں اور تھوڑی دیر کے بعد ان میں سے دو اونٹوں کا سودا ہو گیا ہے۔

جانتے ہیں کتنی قیمت پر؟ جتنی قیمت آپ نے تین اونٹوں کی زبیدی کو ادا کی تھی اتنی قیمت میں دو اونٹوں کو فروخت کر دیا گیا ہے۔

اب منافع میں ایک اونٹ بچ گیا۔ تھوڑی دیر گزری، اس کا بھی گاہک آگیا ہے۔ اللہ کے رسولﷺ نے اسے بھی فروخت کر دیا ہے اور جو رقم آپ ﷺ کو ملی، آپ ﷺ نے وہ بنو عبد المطلب کی بیواﺅں کو دےدی۔

زبیدی کو اس کا حق مل گیا، اس کے اونٹ اس کی مرضی کی قیمت پر فروخت ہوگئے ہیں۔

مگر اس بڑے مجرم کو سبق تو سکھانا ہے، اسے بتانا ہے کہ دوبارہ اس قسم کی حرکت نہ کرے۔ ابوجہل اسی بازار میں خاموش چپ چاپ بیٹھا ہوا ہے۔ وہ کسی سے کوئی بات نہیں کر رہا ہے۔ سوچ رہا ہو گا کہ سوائے محمد ﷺ کے کون ہے جو میرے مقابلے میں آنے کی جرأت کر سکتا ہے۔

اللہ کے رسول ﷺ اس کے پاس تشریف لے گئے اور اسے ڈانٹتے ہوئے خبردار کیا: ”اے عمرو! دوبارہ اس طرح نہ کرنا جس طرح تم نے اس دیہاتی شخص کے ساتھ کیا ہے، ورنہ تم میری طرف سے وہ کچھ دیکھو گے جسے تم پسند نہیں کرو گے۔“

ابوجہل نے آپ ﷺ کو دیکھا تو شدید مرعوب ہو گیا۔ اس میں ہمت اور جرأت ہی نہ رہی کہ وہ آپ ﷺ کے سامنے کوئی بات کر سکے۔ جب آپﷺ نے اسے متنبہ کیا تو فوراً کہنے لگا: اے محمد! میں دوبارہ کبھی ایسا نہیں کروں گا۔

اللہ کے رسول ﷺ واپس تشریف لے گئے ہیں۔ بازار میں امیہ بن خلف اور وہ مشرکین جو اس وقت وہاں موجود تھے، ابوجہل کے پاس آئے ہیں۔ کہہ رہے ہیں: ابوالحکم! تمہیں کیا ہو گیا؟ ارے تم تو محمد کے سامنے بالکل مرے جا رہے تھے۔ کیا تم ان کی پیروی کرنا چاہتے ہو یا ان کا رعب اور دبدبہ تم پر طاری ہو گیا تھا؟

ابوجہل ان کی بات کے جواب میں کہہ رہا ہے: اللہ کی قسم! میں کبھی ان کی پیروی نہیں کروں گا۔ ان کے روبرو میری عاجزی اس وجہ سے تھی کہ میں نے ان کا جادو دیکھ لیا تھا۔ میں نے دیکھا کہ ان کے دائیں بائیں کچھ آدمی ہیں جن کے پاس نیزے ہیں۔ انہوں نے وہ نیزے مجھ پر تان لیے تھے۔ اگر میں محمدﷺ کی مخالفت کرتا تو وہ نیزے میرے بدن میں گھونپ دیتے۔ (انساب الاشراف و سبل الہدی و الرشاد)

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے