تازہ ترین

حضرت عدی بن حاتم طائیؓ

hazrat adi ibn hatim tai
  • واضح رہے
  • اگست 6, 2021
  • 4:33 شام

ہجرت نبوی کے نویں سال شاہان عرب میں سے ایک شخص اپنی شدید نفرت و بے زاری اور مسلسل حجود و انکار کے بعد دائرۂ اسلام میں داخل ہوئے

یہ بادشاہ تھے عدی بن حاتم طائی جن کے والد کی سخاوت فیاضی آج تک ضرب المثل ہے۔ ریاست و حکومت عدی کو اپنے والد سے وراثت میں ملی تھی چنانچہ اس کے قبیلۂ بنی طے نے ان کو اپنا بادشاہ بنا لیا۔ مال غنیمت کا چوتھائی حصہ ان کے لیے مقرر کیا اور قبیلے کی قیادت و سربراہی کی باگ ڈور ان کے سپرد کر دی۔

جب رسول اکرمؐ نے علی الاعلان اسلام کی دعوت کا آغاز کیا اور عرب کے بہت سے قبائل ایک ایک کر کے ان کے حلقۂ اطاعت میں آتے چلے گئے تو عدی نے محسوس کیا کہ اس دعوت کے پس پردہ ایک ایسی قیادت ابھر رہی ہے جو اس کی قیادت کے لیے موت کا حکم رکھتی ہے اور اس کو اس بات کا یقین ہو گیا کہ اس پیغام کے زیرسایہ ایک ایسی ریاست نشو و نما پا رہی ہے جو اس کی ریاست کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکے گی۔

چنانچہ وہ رسول اکرم کی شدید مخالفت اور ان کے ساتھ بغض و عدوات پر کمر بستہ ہو گئے، حالانکہ نہ تو وہ اس سے پہلے براہ راست رسول اکرمؐ سے واقف تھے نہ آپ کے دیدار سے مشرف ہوئے تھے۔ اس نے اپنی زندگی کے تقریباً بیس قیمتی سال اسلام اور مسلمانوں کی مخالفت کی نذر کر دیئے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے سینے کو قبولیت حق کے لیے کھول دیا۔

حضرت عدیؓ بن حاتم کے مسلمان ہونے کی کہانی ایک دلچسپ اور ناقابل فراموش کہانی ہے۔ ہم یہ بات انہی پر چھوڑتے ہیں کہ وہ اس کہانی کو اپنی زبان سے بیان کریں کیونکہ وہی اس کے لیے زیادہ مناسب ہیں اور انہی کا بیان زیادہ قابل اعتماد ہے۔ حضرت عدی اس کہانی کا آغاز کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں:

”جس وقت میں نے محمد کی نبوت اور ان کی دعوتی سرگرمیوں کا حال سنا اس وقت عرب کے کسی شخص کو مجھ سے زیادہ ان کے ساتھ نفرت نہ تھی۔ میں اپنے قبیلے سے مال غنیمت کا چوتھائی وصول کیا کرتا تھا جس طرح میرے علاوہ دوسرے سردار اپنے اپنے قبائل سے وصول کیا کرتے تھے۔

جب میں نے رسول اکرم کا ذکر سنا تو مجھے سخت ناگوار گزرا اور جب ان کی قوت و شوکت میں غیر معمولی اضافہ ہو گیا اور ان کے لشکر اور فوجی دستے عرب کے مشرق سے لے کر مغرب تک دھاوا مارنے لگے تو میں نے اپنے غلام کو جو میرے اونٹ چرایا کرتا تھا ہدایت کی:

”میرے سفر کے لیے چند تندرست و توانا اور سیدھی سادی اونٹنیاں ہر وقت تیار رکھو اور انہیں میرے قریب باندھ دو اور جب سنو کہ محمد کا لشکر یا ان کا کوئی فوجی دستہ اس علاقے میں داخل ہو گیا ہے تو مجھے اس کی خبر دو۔“

ایک دن صبح کے وقت غلام نے مجھ سے کہا:

”آقا! آپ اپنے علاقے میں محمد کے سواروں کی آمد پر جو کچھ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اب اسے کر گزریئے۔“

میں نے وجہ پوچھی تو اس نے بتایا:

میں نے کچھ جھنڈے اس علاقے میں حرکت کرتے ہوئے دیکھے ہیں۔ ان سے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ یہ محمد کا لشکر ہے۔“

میں نے اسے کہا:

”جن اونٹنیوں کو تیار رکھنے کا میں نے تم کو حکم دیا تھا انہیں فوراً میرے پاس لے آؤ۔“

پھر میں اسی وقت اٹھ کھڑا ہوا اور اپنے اہل و عیال کو اپنا پیارا وطن چھوڑنے اور کوچ کرنے کا حکم دے دیا اور تیز رفتاری کے ساتھ سرزمین شام کی طرف روانہ ہو گیا تاکہ اپنے ہم مذہب نصاریٰ کے پاس پہنچ کر وہاں قیام کروں۔

میں عجلت میں اپنے گھر کے تمام افراد کو جمع نہ کر سکا۔ جب خطرے کی حدود سے نکل کر جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ اپنی بہن کو قبیلہ طے کے باقی ماندہ افراد کے ساتھ اپنے وطن نجد ہی میں چھوڑ آیا ہوں۔ اب میرے لیے اس کے پاس پلٹ کر جانے کی کوئی گنجائش نہ تھی۔

مجبوراً اسے چھوڑ کر اپنے ساتھ آئے اہل خانہ کو لیے شام چلا گیا اور وہاں اپنے ہم مذہبوں میں قیام پذیر ہو گیا اور میرے پیچھے میری بہن میری توقع کے مطابق ان حالات سے دوچار ہوئی جن کا پہلے ہی سے مجھے اندیشہ تھا۔

شام میں مجھ کو اطلاع ملی کہ محمد کے سواروں نے ہمارے علاقے پر حملہ کیا۔ میری بہن کو گرفتار کر لیا گیا اور اسے دوسرے قیدیوں کے ساتھ یثرب لے جایا گیا اور مسجد کے دروازے کے قریب ایک احاطے میں بند کر دیا گیا۔ مجھے یہ اطلاع بھی ملی کہ ایک دن نبی کا گزر میری بہن کی طرف سے ہوا تو اس نے اٹھ کر عرض کیا:

”اے اللہ کے رسولؐ! میرے والد فوت ہو چکے ہیں، میرا سر پرست غائب ہے، آپ مجھ پر احسان کیجئے، اللہ تعالیٰ آپ پر احسان کرے گا۔“ تو رسول اکرمؐ نے اس سے پوچھا:

”کون ہے تمہارا سر پرست؟“

وہ بولی۔ ”عدی بن حاتم۔“

”کون عدی بن حاتم؟ اللہ اور اس کے رسول سے بھاگنے والا؟“

اتنا کہہ کر رسول اکرمؐ اسے اس کے حال پر چھوڑ کر آگے بڑھ گئے۔ دوسرے روز بھی جب آپؐ کا گزر اس کی طرف ہوا تو اس نے دوبارہ وہی باتیں کہیں جو کل کہہ چکی تھی اور آپؐ نے بھی وہی جواب دیا جو کل دے چکے تھے اور جب تیسرے دن آپؐ ادھر سے گزرے تو چونکہ وہ مایوس ہو چکی تھی اس لیے خاموش رہی، آپؐ سے کچھ نہیں کہا تو رسول اکرمؐ کے پیچھے سے ایک شخص نے اسے اشارہ کیا کہ اٹھ کر رسول اکرمؐ سے بات کرو چنانچہ اس نے کہا:

”اے اللہ کے رسول! میرا باپ فوت ہو چکا ہے اور میرا سر پرست لاپتہ ہے۔ آپ میرے اوپر احسان فرمایئے اللہ تعالیٰ آپ پر احسان فرمائے گا اور آپ نے اس پر احسان فرماتے ہوئے اس کی رہائی کا حکم صادر فرما دیا۔ رہائی پا کر اس نے کہا کہ میں اپنے گھر والوں کے پاس شام جانا چاہتی ہوں۔

نبیؐ نے اس سے کہا کہ جب تک تمہارے قبیلہ کا کوئی قابل اعتماد آدمی نہیں مل جاتا روانگی میں جلدی نہ کرنا اور جب کوئی قابل اعتماد شخص مل جائے تو مجھے بتایا۔ رسول اکرمؐ کے جانے کے بعد اس نے اس آدمی کے متعلق دریافت کیا جس نے اسے بات کرنے کا اشارہ کیا تھا، تو معلوم ہوا کہ وہ علیؓ ابن ابی طالب تھے۔

وہ مدینہ میں ٹھہری رہی۔ اسی دوران کچھ لوگوں کا وفد وہاں آیا جس میں ایسے لوگ بھی شامل تھے جن کے اوپر وہ اعتماد کر سکتی تھی۔ اس نے بارگاہ نبویؐ میں عرض کیا کہ میرے قبیلے کے کچھ لوگ یہاں آئے ہیں، مجھے ان کے اوپر مکمل اعتماد ہے، وہ مجھے میری منزل تک پہنچا دیں گے تو نبی اکرمؐ نے اسے پہننے کے کپڑے، سواری کی اونٹنی اور بقدر ضرورت زاد راہ دے کر رخصت کیا اور وہ ان کے ساتھ روانہ ہو گئی۔

عدیؓ نے سلسلۂ بیان جاری رکھتے ہوئے کہا کہ شام میں ہم کو برابر اس کے حالات کی اطلاع ملتی رہتی تھی اور ہم اس کے شام پہنچنے کے منتظر تھے حالانکہ میں نے محمد کے مقابلے میں جو رویہ اپنایا تھا اس کے پیش نظر ہمارے دل ان اطلاعات کی تصدیق کرنے پر آمادہ نہیں تھے جو میری بہن کے ساتھ محمد کے اس احسان عظیم کے سلسلے میں ہم تک پہنچ رہی تھیں۔

انہی حالات میں ایک روز میں اپنے گھر والوں کے ساتھ بیٹھا تھا کہ اچانک میری نگاہ ایک عورت پر پڑی جو اپنی ہودج میں بیٹھی ہماری طرف چلی آرہی تھی۔ میرے دل نے کہا۔ ”یہ حاتم کی بیٹی ہے۔ یہ میری بہن ہے، جب وہ کچھ اور قریب آئی تو ہم نے اسے صاف طور پر پہچان لیا۔ واقعی وہ میری بہن ہی تھی۔ وہ ہمارے پاس پہنچ کر سواری سے اترتے ہی خفگی کے لہجے میں بولی:

”بے مروت۔۔۔۔۔ ظالم۔۔۔۔۔ تو نے اپنی بیوی اور بچوں کو تو اپنے ساتھ لے لیا اور اپنے باپ کی اولاد اور اپنی عزت کو پیچھے چھوڑ کر چلا آیا۔“

میں نے کہا۔ ”پیاری بہن! صرف اچھی باتیں کہو۔“ اور میں اسے راضی کرنے لگا۔ آخرکار وہ مجھ سے راضی ہو گئی اور پھر اس نے اپنے سارے حالات تفصیل سے بیان کئے جو بالکل وہی تھے جو ہم کو پہلے پہنچتے رہے تھے۔

پھر میں نے اس سے مشورہ کرتے ہوئے پوچھا۔ وہ نہایت دور اندیش، عقل مند اور سمجھ دار عورت تھی۔ ”اس شخص (محمد) کے متعلق تمہاری کیا رائے ہے؟“

اس نے کہا ”میری رائے یہ ہے کہ تم جلد از جلد ان کی خدمت میں پہنچ جاؤ، اگر واقعی وہ نبی ہیں تو تمہارے جیسے آدمی کا ان کی تصدیق و تائید میں پیچھے رہ جانا بڑی افسوس ناک بات ہوگی اور اگر وہ بادشاہ ہیں تو ان کے یہاں تمہاری ناقدری نہیں ہوگی۔“

عدیؓ بن حاتم کہتے ہیں کہ پھر میں نے سفر کی تیاری کی اور رسول اکرمؐ کی خدمت میں مدینہ پہنچا۔ میں نے اس سے پہلے نہ تو ان کے پاس اپنے پہنچنے کی اطلاع بھیجی تھی نہ ان سے اپنے لیے امان حاصل کی تھی۔ البتہ مجھے اس بات کی اطلاع ہو گئی تھی کہ انہوں نے میرے متعلق اپنے اصحاب سے فرمایا ہے کہ ”مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ عدی بن حاتم کا ہاتھ میرے ہاتھ میں دے دے گا۔“

جب میں مدینہ پہنچا تو اس وقت رسول اکرمؓ مسجد میں تشریف فرما تھے۔ میں نے حاضر خدمت ہو کر آپ کو سلام کیا تو پوچھا:

”کون ہو؟“

”عدی، حاتم طائی کا بیٹا۔“ میں نے جواب دیا۔

یہ سن کر آپؐ اپنی جگہ سے اٹھے اور میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر کی طرف لے چلے۔ آپؐ مجھے ساتھ لیے چلے جارہے تھے کہ راستے میں انہیں ایک نہایت بوڑھی عورت ملی جس کے ساتھ ایک چھوٹا سا بچہ تھا۔ وہ آپ کو روک کر اپنی کسی ضرورت کے متعلق باتیں کرنے لگی۔

آپؐ ٹھہر کر پوری توجہ کے ساتھ اس کی باتیں سنتے رہے۔ دوران گفتگو میں وہیں کھڑا رہا۔ کھڑا کھڑا میں اپنے دل میں سوچ رہا تھا کہ ”بخدا یہ بادشاہ نہیں ہو سکتے۔“

بڑی بی سے فارغ ہوکر آپؐ نے پھر میرا ہاتھ تھام لیا اور چلتے ہوئے اپنے گھر پہنچ گئے۔ گھر میں پہنچ کر آپؐ نے چمڑے کا ایک تکیہ اٹھایا جس میں کھجور کے ریشے بھرے ہوئے تھے۔ آپؐ نے اس کو میری طرف ڈالتے ہوئے فرمایا کہ اس پر بیٹھ جاؤ مگر آپ کے سامنے اس پر بیٹھتے ہوئے مجھے شرم آئی۔

اور میں نے اسے بے ادبی پر محمول کرتے ہوئے عرض کیا، نہیں اس پر آپ تشریف رکھیں لیکن آپؐ نے اصرار کر کے مجھے اس پر بٹھایا اور خود زمین پر بیٹھ گئے کیونکہ گھر میں اس کے علاوہ دوسرا تکیہ نہیں تھا۔ یہ دیکھ کر میں نے دل میں کہا۔ ”بخدا یہ انداز کسی بادشاہ کا ہرگز نہیں ہو سکتا۔“ اطمینان سے بیٹھ جانے کے بعد آپؐ نے مجھے مخاطب کیا:

”عدی! بتاؤ کیا تم رکوسی نہ تھے؟ تم ایک ایسے دین کو اختیار کئے ہوئے نہ تھے جو نصرانیت اور صائبیت کے درمیان تھا؟“

”بے شک میں رکوسی تھا اے اللہ کے رسول۔“ میں نے جواب دیا۔

”کیا تم اپنی قوم سے مال غنیمت کا چوتھائی حصہ وصول نہیں کرتے تھے کیا تم ان سے وہ مال نہیں لیتے تھے جو تمہارے دین میں حلال نہ تھا؟“ آپ نے دوبارہ فرمایا۔

”ہاں، اے اللہ کے رسول! میں ایسا کرتا تھا۔“ اور اس وقت مجھے یقین ہو گیا کہ یہ نبی مرسل ہیں۔

اس کے بعد آپؐ نے فرمایا:

”عدی! شاید تم اس دین کو قبول کرنے سے اس لیے ہچکچا رہے ہو کہ آج مسلمان مفلس اور تنگ دست ہیں لیکن خدا کی طرف سے وہ وقت بہت جلد آنے والا ہے جب ان کے یہاں مال و دولت کی اتنی فراوانی ہو جائے گی کہ اسے کوئی لینے والا نہیں ملے گا۔

یا شاید تم اس دین میں داخل ہونا اس لیے ناپسند کرتے ہو کہ آج مسلمانوں کی تعداد کم اور ان کے دشمنوں کی تعداد زیادہ ہے لیکن خدا کی قسم عنقریب تم سنو گے کہ ایک عورت تن تنہا اپنے اونٹ پر سوار ہو کر حج بیت اللہ کے لیے قادسیہ سے نکلتی ہے اور دوران سفر اسے خدا کے سوا کسی کا خوف نہیں محسوس ہوتا۔

یا شاید اس دین کو قبول کرنا تم کو اس لیے گورا نہیں ہے کہ تم دیکھ رہے ہو کہ آج زمام حکومت دوسروں کے ہاتھوں میں ہے اور مسلمان اس سے محروم ہیں لیکن خدا کی قسم تم جلد ہی سن لو گے کہ بابل کے سفید محلات مسلمانوں کے ہاتھوں فنا ہو گئے اور کسریٰ کے خزانے ان کے قبضے میں آگئے۔“

”کیا؟ کسریٰ ابن ہرمز کے خزانے؟“ میں نے حیرت سے پوچھا۔

”ہاں، ہاں۔ کسریٰ ابن ہرمز کے خزانے۔“ آپؐ نے پورے وثوق کے ساتھ فرمایا۔

”اسی وقت کلمۂ شہادت پڑھ کر میں دائرہؐ اسلام میں داخل ہو گیا۔“

حضرت عدی ابن حاتمؓ نے طویل عمر پائی تھی۔ وہ کہتے ہیں:

”رسول اکرمؐ کی دو پیشن گوئیاں تو حرف بہ حرف پوری ہو چکی ہیں صرف ایک باقی رہ گئی ہے اور خدا کی قسم وہ بھی یقینا پوری ہو کر رہے گی۔ میں نے ایک عورت کو دیکھا کہ وہ قادسیہ سے اونٹ پر سوار ہو کر نکلی اور بلاخوف و خطر مکہ پہنچ گئی اور میں اس فوج کے اگلے دستے میں تھا جس نے کسریٰ کے خزانوں پر حملہ کر کے ان پر قبضہ کیا تھا، میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ تیسری پیشن گوئی بھی ضرور پوری ہوگی۔“

اللہ کی مشیت کے مطابق نبی کرمؐ کی بات پوری ہوئی اور تیسری پیشن گوئی بھی خلیفہ زاہد و عابد حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے دور خلافت میں پوری ہو گئی۔ اس وقت مسلمان مالی اعتبار سے اس قدر خوش حال ہو گئے تھے کہ خلیفہ کا منادی فقراءو مساکین کا زکوٰة کا مال لینے کے لیے پکارتا مگر کوئی اس کو لینے والا نہ تھا۔ اس طرح رسول اکرمؐ کی بات صحیح اور حضرت عدی ابن حاتمؓ کی قسم پوری ہوئی۔

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے