تازہ ترین

ہاں خدا موجود ہے،،،۔

  • خرم علی راؤ
  • مئی 17, 2020
  • 4:48 صبح

اس مضمون کا آغاز اس لئے کیا گیا کہ مسلمانوں کو خصوصا نوجوانوں کے سامنے انٹر نیٹ کی بے پناہ رسائی کے سبب ملحدین،

عقل پرست،فطرت پرست اور مادہ پرست حضرات کی جانب سے سامنے آنے والی گمراہ کن منطقوں کا جواب دیا جائے۔ اصل میں ان  عقل و فطرت پرست گمراہوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ عقل پرستی میں اتنے محو اور عقل کے اتنے زیادہ قائل ہیں کہ وہ سمجھ نہیں پاتے کہ علم کے میدان میں عقل سے فائق بھی کچھ ہو سکتا ہے،جیسا کہ میں نے پہلے لکھا ہے کہ عقل چراغِ راہ ضرور ہے مگر منزل نہیں۔ ہم اور ہماری عقول محدود ہیں، ہم جسمانی اعتبار سے،حیاتیاتی اور طبعی لحاظ سے ایک کمزور مخلوق ہیں، دیگر مخلوقات کے مقابلے میں، بس یہ شعور اور آموزش کی بے پناہ صلاحیت اس ہومو سیپن نسل کو باقی

نسلوں اور انواع سے ممتاز بناتی ہے۔ تو بھائی میری آپ کی عقول کی مثال اس وسیع و عریض کائنات اور اس کے معاملات کو سمجھنے کے اعتبار سے ایسی ہی حیثیت رکھتی ہے جیسے سمندر کے سامنے قطرہ یا بڑے ریگستان میں ریت کا ایک ذرہ، تو پھر اس کائنات اور نہ جانے ایسی کتنی کائناتوں یا عالمین کے بنانے والے کے بارے میں عقل کہاں تک ہماری راہنمائی کر سکے گی،ہمیں علم کے دیگر ماآخذات جو عقل سے فائق ہیں ان کی طرف لا محالہ رجوع کرنا  ہی پڑے گا،جن میں درجہ ء اول ہے وحی الہی۔، جسکا مکمل ترین مظہر ،ناقابلِ تبدیل حالت میں قرآنِ پاک کی شکل میں موجود ہے، میں جانتا ہوں کہ کوئی معترض جب تحریر کے اس حصے پر آئے گا تو ضرور بالضرور سوچے گا یا کہے گا کہ دیکھا آگیا نا عقلی دلائل پر بات کرتے کرتے قرآن پر،تو میرے بھائی یہ کلام الہی یہ قرآن عظیم،اپنی تمام تر مذہبی برکات،تجلیات اور فوائد کا حامل ہونے کے ساتھ ساتھ زبردست عقلی دلائل کا بھی حامل ہے اور تمام علوم کا سرچشمہ ہے،ایک ایسا لامحدود علم کا سمندر جس میں سے زمانوں سے علم کے موتی نکالے جارہے ہیں اور انشااللہ قیامت تک نکالے جاتے رہیں گے۔ تو آئیے خدا تعالی کے وجودِ مسعود پر چند قرآنی عقلی دلائل کے مفہوم پر بات کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

وہ لادین اور بے خدا قومیں جن کے سامنے آخرت کا کوئی تصوّر نہیں، جن کے نزدیک زندگی بس یہی دُنیا کی زندگی ہے، اور جن کے بارے میں قرآنِ کریم نے فرمایا ہے:

“ان الذین لا یرجون لقائنا ورضوا بالحیٰوة الدنیا واطمأنوا بھا والذین ھم عن اٰیاتنا غافلون، اولٰئک مأواھم النار بما کانوا یکسبون۔” (۱۰:۷،۸)

ترجمہ:…”البتہ جو لوگ اُمید نہیں رکھتے ہمارے ملنے کی، اور خوش ہوئے دُنیا کی زندگی پر اور اسی پر مطمئن ہوگئے، اور جو لوگ ہماری نشانیوں سے بے خبر ہیں، ایسوں کا ٹھکانا ہے آگ، بدلہ اس کا جو کماتے تھے۔” (ترجمہ حضرت شیخ الہند)

وہ اگر دُنیوی مسابقت کے مرض میں مبتلا ہوتیں اور دُنیوی کرّ و فرّ اور شان و شوکت ہی کو معراجِ کمال سمجھتیں، تو جائے تعجب نہ تھی، لیکن اُمتِ محمدیہ (علیٰ صاحبہا الصلوٰة والسلام) جن کے دِل میں عقیدہٴ آخرت کا یقین ہے اور جن کے سر پر آخرت کے محاسبہ کی، وہاں کی جزا و سزا کی اور وہاں کی کامیابی و ناکامی کی تلوار ہر وقت لٹکتی رہتی ہے، ان کی یہ آخرت فراموشی بہت ہی افسوسناک بھی ہے اور حیرت افزا بھی!

ہم نے غیروں کی تقلید و نقالی میں اپنا معیارِ زندگی بلند کرنا شروع کردیا، ہمارے سامنے ہمارے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کا نقشِ زندگی موجود تھا، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نمونے موجود تھے، اکابر اولیاء اللہ اور بزرگانِ دین کی مثالیں موجود تھیں، مگر ہم نے ان کی طرف آنکھ اُٹھاکر دیکھنا بھی پسند نہ کیا، بلکہ اس کی دعوت دینے والوں کو احمق و کودن سمجھا، اور معیارِ زندگی بلند کرنے کے شوق میں زندگی کی گاڑی پر اتنا نمائشی سامان لاد لیا کہ اب اس کا کھینچنا محال ہوگیا، گھر کے سارے مرد و زن، چھوٹے بڑے اس بوجھ کے کھینچنے میں دن رات ہلکان ہو رہے ہیں، رات کی نیند اور دن کا سکون غارت ہوکر رہ گیا ہے، ہمارے اعصاب جواب دے رہے ہیں، نفسیاتی امراض میں اضافہ ہو رہا ہے، علاج معالجے میں ۷۵ فیصد مسکن دوائیاں استعمال ہو رہی ہیں، خواب آور دوائیں خوراک کی طرح کھائی جارہی ہیں، ناگہانی اموات کی شرح حیرت ناک حد تک بڑھ رہی ہے، لیکن کسی بندہٴ خدا کو یہ عقل نہیں آتی کہ ہم نے نمود و نمائش کا یہ بارِ گراں آخر کس مقصد کے لئے لاد رکھا ہے؟ نہ یہی خیال آتا ہے کہ اگر موت اور موت کے بعد کی زندگی برحق ہے، اگر قبر کا سوال و جواب اور ثواب و عذاب برحق ہے، اگر حشر و نشر، قیامت کے دن کی ہولناکیاں اور جنت و دوزخ برحق ہیں، تو ہم نمود و نمائش کا جو بوجھ لادے پھر رہے ہیں، اور جس کی وجہ سے اب چشم بددُور ہمیں قرآنِ کریم کی تلاوت کی بھی فرصت نہیں رہی، یہ قبر و حشر میں ہمارے کس کام آئے گا؟

“سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا!”

کا تماشا شب و روز ہماری آنکھوں کے سامنے ہے، نمود و نمائش اور بلند معیارِ زندگی کے خبطی مریضوں کو ہم خالی ہاتھ جاتے ہوئے دن رات دیکھتے ہیں، لیکن ہماری چشمِ عبرت وا نہیں ہوتی۔

وہ کلامِ الٰہی ہے جس کے ایک حرف میں بھی کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی، اور وہ آج ٹھیک اسی طرح تروتازہ حالت میں موجود ہے، جس طرح کہ وہ حضرت خاتم النبیین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا تھا، اس نکتے پر دُنیا کے تمام اہلِ عقل متفق ہیں کہ یہ ٹھیک وہی کلام ہے جس کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کلامِ الٰہی کی حیثیت سے دُنیا کے سامنے پیش کیا تھا، اور اس میں ایک حرف کا بھی تغیر و تبدل نہیں ہوا، چنانچہ انگریزی دور میں صوبہ متحدہ کے لیفٹیننٹ گورنر سر ولیم میور، اپنی کتاب “لائف آف محمد” (صلی اللہ علیہ وسلم) میں لکھتے ہیں:

“یہ بالکل صحیح اور کامل قرآن ہے، اور اس میں ایک حرف کی بھی تحریف نہیں ہوئی، ہم ایک بڑی مضبوط بنا پر دعویٰ کرسکتے ہیں کہ قرآن کی ہر آیت خالص اور غیرمتغیر صورت میں ہے۔ اور آخرکار ہم اپنی بحث کو “ون ہیم” صاحب کے فیصلے پر ختم کرتے ہیں، وہ فیصلہ یہ ہے کہ ہمارے پاس جو قرآن ہے، ہم کامل طور پر اس میں ہر لفظ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا سمجھتے ہیں، جیسا کہ مسلمان اس کے ہر لفظ کو خدا کا لفظ خیال کرتے ہیں۔”

۔(مأخوذ از تنبیہ الحائرین ص:۴۱، از مولانا عبدالشکور لکھنوی)

یہ تمہید باندھنا ضروری تھا کہ آگے کی جانے والی بات ذرا اہمیت سے سمجھی جائے۔ تو جناب عقلی دلائل کے اگلے مرحلے میں القرآن الکریم سے اخذ شدہ پہلی عقلی دلیل برائے وجودِ مسعودِ خداوندی۔

تو صاحبان عقل و خرد پرستاں،ہوشیار باش،میں ایک دعوی کرنے لگا ہوں کہ اللہ تعالی خداوند تبارک و تعالی نہ صرف موجود ہے بلکہ اس نے دنیا والوں کی رہ نمائی کے لئے کتابیں  بھی وقتا فوقتا بھیجی ہیں جس میں سے ایک آخری ایڈیشن جو کہ ناقابلِ تبدیل اور نقائص سے پاک ہے القرآن کہلاتا ہے۔۔

ہوگیا دعوی،،اب جھٹلائیے اسے،کہ نہیں صاحب یہ تو نعوذ باللہ حضرت محمد صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تصنیف ہے، جو مشرکینِ عرب اور مسشرقین بے ادب کہتے رہے ہیں لیکن کوئی بھی انصاف پسند ۔صاحب عقل اسے کبھی بھی تسلیم نہیں کرے گا کہ قرآن میں پائی جانے والی باتیں،اس میں بیان کردہ دیگر باتوں کو تو چھوڑئیے اگر صرف سائنسی حقائق پر ہی بات کرلیں تو وہ ناقابل تردید ہیں مگر واضح رہے کہ قرآنِ پاک سائنس کی نہیں بلکہ سائنز کی کتاب ہے یعنی علامتی انداز کی حامل ہے اور سائنسی حقائق کے بارے میں اسکا بیان عقل پرستوں، سائنسدانوں،حکماء و فلاسفہ کے لئے علامتی انداز میں دیا گیا ہے،اور جو باتیں سائنس کے حوالے سے اس میں بیان ہوئی ہیں وہ ابھی تک تو کوئی مائی کا لال نہیں غلط ثابت کر سکا اور نہ ہی قیامت تک کر سکے گا،تو ان باتوں میں سے پہلی بات یا دلیل جس میں صرف ایک بات کا حوالہ برائے  ملحدعقل پرستاں  یہ پے کہ  علم الجنین یا ایمبریولوجی   کے اعتبار سے بچے کی پیدائش کے مختلف مراحل کی ترتیب،جنین کے مختلف مراحل کی تصویر کشی بعینہ بکل وہی ہے صاحب! جو آج کی جدید ترین مشینیں دکھا اور بتا رہی ہیں، کیا ایتھیسٹ حضرات بتانا پسند کریں گے کہ یہ کیسے ممکن ہوا کہ آج سے ڈیڑھ ہزار سال پہلے آنے والے کتاب میں ایسی درست تصویر کشی کیونکر ممکن ہو سکتی ہے،کیا کہتی ہے عقل؟

یاد رہے کہ ایمبریولوجی کے غیر مسلم ماہرین نے کئی مباحثوں اور ریسرچ کے بعد تھک ہار کر ان ساری باتوں کو مسلمہ سائنسی حقائق تسلیم کرتے ہوئے معجزہ یاماورائے عقل تسلیم کیا ہے اور یہ ساری باتیں ریکارڈ پر موجود ہیں۔ اور سائنسی طرز فکر میں استعمال ہونے والے دو معروف طریق ہائے کار یعنی تطبیقی اور اختلافی دونوں کے تحت یہ مسلمہ اور ناقابل تردید حقائق ثابت ہوئے،  بھائی ملحد ذرا بتنا اور سمجھانا کہ یہ کیسے ہوا؟1980 میں جنین کے متعلق قرآنی حقائق کو جمع کرکے اس کی سائنسی تصدیق کے لئے کینیڈا میں ڈاکٹڑ کیتھ مور کو جو اس علم کے بڑے ماہرین میں شمار ہوتے ہیں ،چند عرب حضرات نے بھیجا،اور انہوں نے جدید ترین آلات کی مدد سے ان قرآنی حقائق برائے جنین کو پرکھا اور درست ترین ہونے کا سرٹیفیکیٹ دیا۔ تو جناب یہ تو لاتعداد باتوں میں سے صرف ایک بات ہے جو ملحدین کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی و شافی ہونا چاہیئے کہ قرآن پاک ایک ایسی ہستی ایک ایسے خالق ،مالک، علیم و خبیر ،ایک ایسے زبرست اللہ جل شانہ کا کلام ہے جو موجود ہے۔ اگر آپ نہیں مانتے تو اسے تو کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن آپ زبردست نقصان اور خسارے میں آ سکتے ہیں۔

خرم علی راؤ

خرم علی راؤ،، پیشے کے اعتبار سےسائنس ٹیچر ہیں،،کالم نگار،بلاگر،پروفیشنل ترجمہ نگار، بھی ہیں،

خرم علی راؤ