تازہ ترین

دہشت گردی کی آگ

Dehshatt Gardi Ki Aag
  • محمد قیصر چوہان
  • مئی 11, 2023
  • 7:56 شام

پاکستان ایک بار پھر سے دہشت گردی کی آگ میں جلنے لگا۔ دہشت گردی کے واقعات تسلسل ہورہے ہیں، پاکستان کے سیکیورٹی ادارے بھی دہشت گردوں، ان کے سہولت کاروں اور ہنڈلرز کا تعاقب کررہے ہیں۔

یوں دیکھا جائے تو ملک میں سیکیورٹی کی صورتحال خاصی پیچیدہ اور سنگین ہے، اس وقت ہمارے سامنے دو منظر نامے ہیں۔پہلے منظر نامہ کا تعلق مملکت خدادادپاکستان کے عمومی سیاسی و معاشی حالات سے ہے جہاں پر اربوں ڈالرکا قرضہ، ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے دباو ¿ پر یوٹیلٹی بلز پر عوام کو دی گئی رعایتوں کا خاتمہ، گیس و بجلی کی قیمتوں میں اضافہ، آئے روز بڑھتی مہنگائی، لوڈ شیڈنگ، غربت، خود کشیوں، طبقاتی نظام تعلیم و صحت، عدمِ عدل و انصاف، ریاستی تشدد، بے روزگاری، جہالت، دہشت گردی، صاف پانی کی عدم دستیابی اور ملکی و قومی اداروں کی نجکاری جیسی بھیانک تصاویر نظر آتی ہیں۔بدقسمتی سے پاکستان ایک مسئلہ سے نکلنے کی کوشش کرتا ہے تو دوسرے مسئلہ سے دو چار ہو جاتا ہے، انتہا پسندی ملکی معاشرت کو برباد کررہی ہے ،اس انتہاپسندی کے جراثیم دہشت گردی کی بیماری کا سبب ہیں، انتہا پسندی کا تعلق اذہان سے ہے، جب کوئی ذہن ہی دہشت گرد بن جائے گا تو دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں ہوسکتا، اسی لیے ملک میں دہشت گرد عناصر دوبارہ سے منظم ہو کر کارروائیاں کر رہے ہیںان کارروائیوں میں ملکی سیکیورٹی اداروں پر حملے سر فہرست ہیں۔ افغانستان میں جب طالبان حکومت قائم ہوئی تو ہر محب وطن شخص نے اس وقت کی حکومت کو خبردار کیا تھا کہ ہمیں محتاط ہو جانا چاہیے لیکن ہم محتاط کیا ہوتے تحریک انصاف کی حکومت نے جو کام کیا اس کے بعد یہی سب ہونا تھا۔

ساڑھے چار لاکھ افغانیوں کو قانونی دستاویزات کے ساتھ پاکستان لایا گیا جو واپس نہیں گئے۔اس کے علاوہ تین سے ساڑھے تین ملین افغانی غیر قانونی طور پر پاکستان میں مقیم ہیں ،انہی میں سے بعض لوگ ہیں جو گزشتہ کچھ عرصہ سے پاکستان کو اقتصادی و معاشی میدان میں کمزور کرنے کیلئے ڈالروں کی بوریاں بھر بھر کر افغانستان اسمگل کر رہے ہیں اور پاکستان کو ایک مرتبہ پھر دہشت گردی کی دلدل میں دھکیلنے کی گھناو ¿نی سازش کر رہے ہیں۔جو لوگ گزشتہ 45 سال سے تزویراتی گہرائیوں کے چکر میں افغانستان کے عشق میں مبتلا ہیں اور اس نامراد عشق نے پاکستان کی بنیادیں تک ہلا کر رکھ دی ہیں لیکن ان کا عشق جو در حقیقت اربوں ڈالر کی جہاد انڈسٹری کے گرد گھومتا ہے، 70ہزار بے گناہ پاکستانیوں کی المناک موت اور کھربوں ڈالر کی معیشت کو نقصان کے بعد بھی ان کا عشق ختم نہیں ہوا۔ افغانستان میں طالبان حکومت آنے اور اس کے پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات کے باوجود پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات حکومت کیلئے تشویش کا باعث بن رہے ہیں۔ بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں فوجی آپریشن سے بچ کر افغانستان جانے والے طالبان جنگجو اب واپس پاکستان آرہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ملک میں دہشت گردی بڑھ رہی ہے۔ پاکستان مخالف قوتیں پاکستان میں شر پسندی پیدا کر کے ملک کو کھوکھلا کرنے کا منصوبہ بنائے ہوئے ہیں پہلے مرحلے میں ملکی معیشت کو تباہ کرنے کی کوشش کی گئی اور پاکستانی مارکیٹ سے ڈالر کو غائب کیا گیا اور مصنوعی معاشی بحران پیدا کیا گیا اور یہ تاثر دیا گیا کہ شاید پاکستان دیوالیہ ہو جائے اور معاشی طور پر تباہ حال ہو جائے اور بین الاقومی معاشی نظام سے کٹ جائے ۔

یہاں تک کہا گیا کہ دیوالیہ پن کے بعد اور پاکستان کی معاشی بدحالی کے بعد پاکستان کے پاس صرف نیوکلیئر اثاثے بچے ہیں جس پر اس کے بعد سودا کیا جائے گا۔ پاکستان کے پالیسی ساز افغانستان کی تاریخ اور وہاں کے نسلی و ثقافتی تفاوت کو پورے شمالی ہندوستان ، روس ، چین اور ایران کے تناظر میں دیکھنے کے بجائے محض بھائی چارے کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں، یہی پاکستان کی شمالی مغربی پالیسی کی ناکامی کا سبب ہے۔ٹی ٹی پی اور دیگر مقامی عسکریت پسند دھڑوں کے ساتھ تقریباً چھ امن معاہدے ناکام رہے ہیں اور پرتشدد واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔پاکستان نے اپنے انسداد دہشت گردی کے فوائد ضایع ہو جانے کا احساس کیے بغیر تشدد کی عدم موجودگی کو امن کی بحالی کے ساتھ تعبیرکیا۔اسی طرح افغانستان کے ساتھ پاکستان کی 2,640 کلومیٹر طویل سرحد پر باڑ لگانے کو امریکی انخلا اور طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد افغانستان سے عدم تحفظ اور تشدد کے پھیلاو ¿ کو کم کرنے کے ایک ذریعہ کے طور پر دیکھا گیا۔ تاہم جوں جوں وقت گزرتا گیا یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ سرحد پر باڑ لگانے کے باوجود پاکستان میں دراندازی کو نہیں روکا جا سکا۔شورش اور دہشت گردی کے تناظر میں، مختلف گروپوں کے مابین انضمام اور اتحاد دہشت گرد تنظیموں کی ملکیت اور لمبی عمر کے کلیدی اجزا ہیں۔ ایک عسکریت پسند گروپ جتنا زیادہ متحد ہوتا ہے اتنا ہی زیادہ مہلک ہوتا جاتا ہے۔

پچھلے دو سالوں میں تقریباً تمام عسکریت پسند دھڑے ٹی ٹی پی کے ساتھ ضم ہو چکے ہیں اور اپنی آپریشنل طاقت کو بڑھاتے ہوئے پاکستان میں اپنی جغرافیائی رسائی کو بڑھا رہے ہیں۔ یہ تمام انضمام اور اتحاد پاکستان میں عسکریت پسندوں کی بحالی میں بھی کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ان افراد کی سوچ پر بھی تعجب ہے جو پاکستانی طالبان کو تو دہشت گرد سمجھتے ہیں جب کہ افغان طالبان کو پاکستان کا دوست اور خیر خواہ تصور کرتے ہیں۔ ہمیں اچھے طالبان اور برے طالبان کا فرق ختم کرنا ہو گا اور اس بات پر یقین رکھنا ہو گا کہ جو ملک پاکستان کے اجتماعی عوامی مفادات کے برعکس پالیسی پر گامزن ہے تو ہمیں بھی کاونٹر فارن پالیسی پر چلنا ہوگا۔تحریک طالبان کے ساتھ مفاہمت کی سوچ کو ختم کرنے کی ضرورت ہے اور ان دہشت گردوں کا قلع قمع کرنا بہت ضروری ہے یہ دہشت گرد اعلیٰ تربیت یافتہ ہیں اور پاکستان مخالف قوتوں کے آلہ کار ہیں اور یہ پاکستان کا امن تباہ کررہے ہیں۔اسی طرح جو تنظیمیں پاکستان کی وحدت اور عوامی مفادات کو نقصان پہنچا رہی ہیں، دہشت گردی میں ملوث ہیں، ان کے ساتھ انہی کی زبان میں بات کرنا ہوگی، جو ملک ایسی تنظیموں کی قیادت اور جنگجووں کو پناہ دے رہا ہے، انھیں تربیت کی آزادی دے رہا ہے، ان کی کھل کر حمایت کررہا ہے، اس ملک کی حکومت کے ساتھ بھی کھل کر بات کرنے کی ضرورت ہے،پاکستانی طالبان کو اندرونی اوربیرونی امداد مل رہی ہے۔ جب تک اس امداد کو نہیں روکا جاتا، دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔

محمد قیصر چوہان

سینئر صحافی،مصنف اورنیشنل وانٹرنیشنل امور،سپورٹس سمیت دیگر موضوعات پر لکھتے ہیں جبکہ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے انٹرویوز بھی کرتے ہیں۔

محمد قیصر چوہان