تازہ ترین
گجرانوالہ میں پنجاب کالج کے طلباء کی گرفتاریاں: وجوہات، واقعات اور اثراتپاکستان ایشیائی ترقیاتی بینک کے بانی ژاؤ چن فان کا نام لے لیا گیا۔اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی کو ایک سال بیت گیاگریٹر اسرائیل قیام کامنصوبہغزہ کو کھنڈر بنانے کے بعد اسرائیل کی خوفناک ڈیجیٹل دہشت گردیآئی پی پیز معاہدے عوام کا خون نچوڑ نے لگےایٹمی پاکستان 84 ہزار 907 ارب روپے کا مقروضافواج پاکستان کی ناقابل فراموش خدماتراج مستری کے بیٹے ارشد ندیم نے پیرس اولمپکس میں تاریخ رقم کردیہیلتھ اینڈ سیفٹی ان کول مائنز “ ورکشاپ”ٹی ٹی پی ، را ،داعش، این ڈی ایس اور براس متحرکفلسطینیوں کی نسل کشیدرس گاہیں ، رقص گاہیں بننے لگیسی پیک دہشت گرودں کے نشانے پرحافظ نعیم الرحمن امیر جماعت اسلامی منتخبنئی حکومت کو درپیش بڑے چیلنجزکشمیراورفلسطین میں قتل عام جاریبھارتی دہشت گردی نے کشمیر کوموت کی وادی بنا دیاووٹ کا درست استعمال ہی قوم کی تقدیر بد لے گادہشت گرد متحرک

چین کے ساتھ چاند تک جنگ

cheen ke sath chand tak jang
  • واضح رہے
  • اگست 24, 2022
  • 11:07 شام

امریکہ زمینی، فضائی اور سمندری محاذ پر تو چین سے برسر پیکار ہے ہی، مگر اب چین کیخلاف خلا میں بھی عسکری منصوبے بنا رہا ہے

بیجنگ: چین نے چاند سے پتھر لانے کیلئے مئی 2020ء میں خلائی جہاز روانہ کیا تھا۔ اسے اس مشن میں بے پناہ کامیابی حاصل ہوئی ہے اور چاند کے ماحول سمیت اس کی سطح اور اس پر ممکنہ کاشت کاری کے بارے میں مفید معلومات ملی ہیں۔ امریکہ اور سوویت یونین کے بعد چین تیسرا ملک ہے، جس کے پاس چاند کے ٹکڑے ہیں۔

ماہرین فلکیات کا کہنا ہے کہ چین سے پہلے چاند کی زمین یا سطح سے جو نمونے کرۂ عرض پر لائے گئے تھے وہ تقریباً تین ارب سال پرانے ہیں۔ لیکن ان سے چاند کی درست عمر کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ نئے نمونوں سے چاند کی درست عمر کے متعلق پتا چلایا جا رہا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ چین نے گزشتہ برس مکمل ہونے والے اپنے کامیاب خلائی مشن میں جو چاند کے ٹکڑے حاصل کئے، ان کی عمر پہلے کے مشنز میں دستیاب پتھروں سے بہت کم ہے۔ چین کی مختلف لیباریٹریوں میں ان نمونوں کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ تاہم چین ان پتھروں کے ذریعے چاند کی عمر کا تعین کیوں کرنا چاہتا ہے، یہ واضح نہیں۔

امریکہ اور اس کے اتحادی کو خدشہ ہے کہ اس مشن کے ذریعے چین خلا میں سُپر پاور بننے کا عظم رکھتا ہے۔ امریکی جریدے ایکسڑیم ٹیک کے مطابق چین کی خلا میں عسکری موجودگی پر صرف ناسا کو خوف نہیں ہے، بلکہ ملکی انٹیلی جنس کو بھی شدید تحفظات ہیں۔

ایکسڑیم ٹیک کی رپورٹ کے مطابق نیشنل انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر کے دفتر نے گزشتہ برس ایک گلوبل رسک اسسمنٹ جاری کیا، جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ چین خلا میں ہتھیار بنانے کا ارادہ رکھتا ہے اور خلا میں امریکی صلاحیتوں سے زیادہ فوجی اور اقتصادی فوائد حاصل کرنے کیلئے اپنے مشن پر تیزی سے عمل کر رہا ہے۔

واضح رہے کہ امریکہ نے ٹرمپ دور میں یو ایس اسپیس فورس قائم کی تھی، جس کے ذریعے چاند پر بھی امریکہ اپنی بالادستی قائم کرنا چاہتا ہے۔ یہ فورس امریکی فوج کی ایک شاخ ہے۔ اس کا قیام مئی 2020ء میں عمل میں آیا۔ اس ضمن میں منعقدہ ایک تقریب میں خود سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے کہا تھا ''اسپیس جنگ کا نیا محاذ ہے۔ ہماری قومی سلامتی کو لاحق سنگین خطرات کے پیش نظر خلا میں برتری ضروری ہے''۔

گوکہ خلا میں بالادستی اور قوت کا مظاہرہ کرنے کی روش امریکہ نے خود شروع کی تھی۔ مگر امریکہ اور مغربی طاقتوں نے چین پر الزام عائد کیا ہے کہ اس کا مشن عسکری نوعیت کا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ چین اپنی فوج کے خلائی پروگرام پر اربوں ڈالر خوچ کر رہا ہے، تاکہ اس سال چاند پر ایک اسپیس اسٹیشن بنا لے اور اپنے ماہرین کو وہاں رہنے کیلئے بھیج سکے۔

بھارتی میڈیا آؤٹ لٹس نے آسٹریلیا کی وزارت دفاع کے ایک سابق آفیشل مالکوم ڈیوس کے خیالات پیش کرتے ہوئے اس تاثر کو مزید مضبوط کرنے کی کوشش کی ہے کہ چین کے ساتھ چاند تک جنگ ہونے کا امکان پیدا ہوگیا ہے، کیونکہ چین اسپیس پاور بننا چاہتا ہے۔

مالکوم ڈیوس کے مطابق چاند پر اربوں ڈالر مالیت کی معدنیات ہیں، جن کو نکالنے کیلئے چین اور امریکہ کے درمیان تنازعہ ہو سکتا ہے۔ مغرب میں ہماری فکر یہی ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ 2030ء کی دہائی تک ایک چینی کمپنی چاند پر ہوگی اور چاند کے وسائل پر پورے جنوبی بحیرہ چین کی طرح دعویٰ کر دے گی۔

سابق آسٹریلوی ذمہ دار کا کہنا ہے کہ چین اور روس دونوں نے اب خلا میں تعاون مزید بڑھانے کا اعلان کیا ہے۔ صدر شی جن پنگ اپنے ملک کو خلائی صنعت بنانے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ وہ چین کو خلائی طاقت بنانا چاہتے ہیں۔ چین 2025ء میں روبوٹ سے لیس قمری مشن شروع کرنے جا رہا ہے اور بین الاقوامی لونر ریسرچ اسٹیشن کا قیام اسی سلسلے کی کڑی ہے۔

مغربی میڈیا رپورٹس کے مطابق چین کا چاند مشن 70ء کی دہائی کے بعد خلا میں بھیجا گیا ایسا پہلا مشن ہے، جو چاند سے پتھروں کے نمونے زمین لے کر آئے گا۔ بغیر انسان کے اس مشن کو خلائی سائنس میں چین کی بڑھتی ہوئی طاقت سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔

گزشہ ماہ چین اور امریکہ کے درمیان چاند پر مشنز بھیجنے کے حوالے سے شدید تلخی دیکھنے میں آئی تھی۔ کئی میڈیا پلیٹ فارمز نے دونوں عالمی طاقتوں کے درمیان تازہ کشیدگی کو چاند پر قضے کی جنگ قرار دیا تھا۔

چین نے ناسا کے سربراہ بل نیلسن کے اس انتباہ کو ایک غیر ذمہ دارانہ بیان کے طور پر مسترد کر دیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ بیجنگ فوجی پروگرام کے ایک حصے کے طور پر چاند پر قبضہ کر سکتا ہے۔ چین کا کہنا تھا کہ اس نے ہمیشہ خلا میں قوموں کی برادری کی تعمیر پر زور دیا ہے۔

چین نے گزشتہ دہائی میں اپنے خلائی پروگرام کی رفتار تیز کرتے ہوئے چاند پر سائنسی تحقیق پر توجہ مرکوز کی۔ چین نے 2013ء میں اپنی پہلی چاند پر بغیر عملے کے لینڈنگ کی تھی اور توقع ہے کہ اس دہائی کے آخر تک خلا بازوں کو چاند پر بھیجنے کے لیے طاقتور راکٹ لانچ کیے جائیں گے۔

نیلسن نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ہمیں بہت فکر مند ہونا چاہیے کہ چین چاند پر اتر رہا ہے اور کہہ رہا ہے اب یہ ہمارا ہے اور تم اس سے دور رہو۔ امریکی خلائی ایجنسی کے سربراہ نے چین کے خلائی پروگرام کو ایک فوجی پروگرام قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس نے دوسروں سے آئیڈیاز اور ٹیکنالوجی چرائی۔

تاہم چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ژاؤ لیجیان نے کہا کہ یہ پہلا موقع نہیں کہ امریکی نیشنل ایروناٹکس اینڈ اسپیس ایڈمنسٹریشن (ناسا) کے سربراہ نے حقائق کو نظر انداز کیا ہو اور چین کے بارے میں غیر ذمہ دارانہ بات کی ہو۔ انہوں نے چین کی عام اور معقول بیرونی خلا کی کوششوں کے خلاف مسلسل ایک مہم چلائی اور چین اس طرح کے غیر ذمہ دارانہ تبصروں کی سختی سے مخالفت کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ چین نے ہمیشہ خلا میں انسانیت کے مشترکہ مستقبل کی تعمیر کو فروغ دیا اور اس کے ہتھیار بنانے اور خلا میں کسی بھی ہتھیار کی دوڑ کی مخالفت کی ہے۔

واضح رہے کہ ناسا اپنے آرٹیمس پروگرام کے تحت 2024ء میں چاند کے گرد چکر لگانے اور 2025ء تک قمری جنوبی قطب کے قریب عملے کے ساتھ لینڈنگ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ جبکہ چین اس دہائی میں کسی وقت چاند کے قطب جنوبی پر بغیر عملے کے مشن بھیجنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے