تازہ ترین
نئی حکومت کو درپیش بڑے چیلنجزکشمیراورفلسطین میں قتل عام جاریبھارتی دہشت گردی نے کشمیر کوموت کی وادی بنا دیاووٹ کا درست استعمال ہی قوم کی تقدیر بد لے گادہشت گرد متحرکنئے سال کا سورج طلوع ہوگیااسٹیبلشمنٹ کے سیاسی اسٹیج پر جمہوری کٹھ پتلی تماشاحکومت آئی ایل او کنونشن سی 176 کوتسلیم کرےجمہوریت کے اسٹیج پر” کٹھ پتلی تماشہ“ جاریدہشت گردی کا عالمی چمپئنالیکشن اور جمہوریت کے نام پر تماشا شروعافریقہ، ایشیا میں صحت بخش خوراک عوامی دسترس سے باہردُکھی انسانیت کا مسیحا : چوہدری بلال اکبر خانوحشی اسرائیل نے غزہ کو فلسطینی باشندوں کے قبرستان میں تبدیل کر دیا”اسٹیبلشمنٹ “ کے سیاسی اسٹیج پر ” نواز شریف “ کی واپسیراکھ سے خوشیاں پھوٹیںفلسطین لہو لہو ۔ ”انسانی حقوق“ کے چمپئن کہاں ہیں؟کول مائنز میں انسپکشن کا نظام بہتر بنا کر ہی حادثات میں کمی لائی جا سکتی ہےخوراک سے اسلحہ تک کی اسمگلنگ قومی خزانے کو چاٹ رہی ہےپاک فوج پاکستان میں زرعی انقلاب لانے کیلئے تیار

برصغیر کی ایٹمی قوت تاریخ کے اوراق میں

  • Abdullah Khadim
  • مئی 27, 2020
  • 11:20 شام

1998 میں بھارت نے پوکھران( راجستھان )کے صحرا میں ایٹمی دھماکہ کیا تو اس کے چند روز بعد پاکستان نے چاغی (بلوچستان) کے بلند و بالا پہاڑوں میں اس سے کئی گناہ زیادہ طاقتور ایٹمی دھماکے کرکے اپنا جواب دے دیا ہے۔

اس پر بھارت کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں کیونکہ اس کو پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کےاس درجے پر پہنچ جانے کی توقع نہ تھی اوع اس صلاحیت کو وہ" ہنوز دلی دور است" سمجھتے ہوئے اسے مرعوب کرنے کی کوشش کر رہا تھا ۔پاکستان کے یوں "اچانک" اتنی بڑی ایٹمی قوت کے طور پر خود کو منوانے پر مغربی دنیا میں بھی ایک بھونچال آگیا۔ بھارت کے چند روز قبل کے ایٹمی دھماکے (جن کی اصل تاریخ 1974 عیسوی سے شروع ہوتی ہے) پر گنگ رہنے والے مغربی ممالک نے پاکستانی "جواب" پر بے حد شور و غوغا کیا مگر اس شور میں ایک "مہین" سے آواز اسرائیل کی بھی تھی مہین اس لیے تھی کہ اسرائیل اس کے علاوہ کچھ "عمل" بھی کر رہا تھا یا کر چکا تھا جو چاغی کے بلند پہاڑوں میں ایٹمی دھماکہ ہونے سے ایک روز قبل رونما ہوتے ہوتے رہ گیا۔

ہوا یوں کہ ایک دن قبل ہے سعودی عرب کے اواکس(Awacs) طیاروں نے اسرائیلی جہازوں کے 6 سکویڈرنوں کو بھارت کی طرف پرواز کرتے ہوئے دیکھ لیا۔ وقت کی کشیدگی اور حالات کے سیاق و سباق میں سعودی فضائیہ کو یہ صورتحال بڑی معنی خیز معلوم ہوئی چنانچہ انہوں نے حکومت پاکستان کو فوری طور پر اس سے مطلع کر دیا۔ پاکستان کی مسلح افواج نے چند لمحوں میں معاملے کو بھانپ لیا اور مواصلاتی سیٹلائٹ کے ذریعے اسرائیلی طیاروں کی نقل و حرکت کی مانیٹرنگ شروع کر دی۔ رات 12 بجے کے قریب بھارتی سفیر سے فون پر رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی گئی تو پتہ چلا کہ وہ کہیں "گئے" ہوئے ہیں دوسری دفعہ فون کیا گیا بتایا گیا کہ وہ "سو" رہے ہیں اصرار کر کے جگایا گیا اور بھارت میں اسرائیلی طیاروں کی مصروفیت کا سبب پوچھا گیا تو اس نے بتایا کہ وہ کل سویرے اپنی حکومت سے صورت حال معلوم کرکے جواب دیں گے۔

پاکستانی حکام نے اس گول مول جواب کو غیر تسلی بخش پاکر سفیرکو فورا دفتر خارجہ میں طلب کیا اور اسے پاکستان کے بے حد قریب ایک ایئربیس پر ان کی موجودگی کی فلم دکھائی۔ اس نے کہا کہ یہ بھارتی طیارے ہیں ، وزارت خارجہ نے اس تجاہل عارفانہ کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا کہ یہ طیارے بھارت کے خرید کردہ نہیں بلکہ اسرائیل ہی کے ہیں جو کل جہاں پہنچے ہیں ۔ اپنی حکومت کو ہمارا یہ انتباہ پہنچا دو کہ اس نے اس موقع پر کوئی مہم جوئی کی تو ان طیاروں کے پاکستان کی طرف بڑھنے سے قبل ہی بھارت کو عبرتناک سبق سکھا دیا جائے گا چنانچہ اس نے اس وقت اپنی حکومت کو پاکستان کی تشویش سے مطلع کر دیا اور اسرائیل کا یہ منصوبہ ناکام ہوگیا۔ اگر پاکستان کے شاہینوں نے اپنے گردوپیش پر کڑی نظر نہ رکھی ہوئی ہوتی تو یہ کاروائی (خاکم بدہن) چاغی میں ایٹمی دھماکے سے قبل ہوجاتی جہاں تمام پاکستانی سائنسدان اپنے سازمان سمیت یہ تاریخی کارنامہ انجام دینے کے لئے مسلسل مصروف تھے۔ خدا کا شکر ہے اسرائیل عراق کے بعد اس قسم کی دوسری کارروائی کا تمغہ اپنے سینے پر آویزاں نہ کر سکا۔ پاکستان نے اگلے روز نہایت کامیابی سے یکے بعد دیگرے سات ایٹمی دھماکے کرکے یہود اور ہنود کے چھکے چھڑا دیے اور ان کی پشت پناہی کرنے والوں پر بھی بہت کچھ واضح کر دیا ۔

اسرائیل نے عراق کے ایٹمی ری ایکٹر کو سات جون 1981 میں اس وقت تباہ کیا تھا جب وہاں محافظوں کی ایک شفٹ اپنی ڈیوٹی ختم کرکے واپس جارہی تھی اور دوسری شفٹ والے ابھی اپنی ڈیوٹیاں سنبھالنے نہ پائے تھے، درمیانی وقفے کے اوقات کا صحیح سراغ لگا کر اسرائیلی طیاروں نے ایسا اچانک حملہ کیا کہ سب کچھ ملیا میٹ ہو گیا اور ساتھ ہی نامور سائنس دان بھی اللہ کو پیارا ہو گیا۔جو اس ری ایکٹر کا معمار تھا ۔ اس طرح عراق اس شعبے میں سالہا سال پیچھے چلا گیا۔

پاکستانی سائنسدانوں اور ان تنصیبات کے محافظوں کو عراق کے اس ناخوشگوار واقعہ کا اچھی طرح علم تھا صرف علم ہی نہیں وہ بھارت کی طرف سے ایسی طالع آزمائیوں سے کئی دفعہ نمٹ بھی چکے تھے۔ کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز پر بھارت کے جاسوس اور حملہ آور طیاروں نے کئی ناکام کی تھیں۔ لیبارٹریز کے گرد نواح میں بھی کئی جاسوسوں ممنوعہ علاقے کے اندر گھسنے کی کوششیں کر چکے تھے۔ ان ناپاک ارادوں کی خاطر بھارت نے اپنے چند ایک طیارے بھی تباہ کرا لئے تھے۔ لہذا جب اسرائیلی طیاروں کی مدد سے اس نے متذکرہ کارروائی کی کوشش کی تو پاکستان کے لیے نئی بات نہ تھی بلکہ "Just Another Action" تھا۔

Abdullah Khadim

تخم حکمت سے صحافت تک کا مسافر

Abdullah Khadim