تازہ ترین

بچپن کی یادیں (حصہ دوم)

bachpan ki yadain
  • Mumtaz Saeed
  • مئی 4, 2020
  • 7:53 شام

. . . . . "زبردست" . . . . .

گاؤں میں یہ بات بہت عام تھی کہ جہاں کہیں پانچ چھ ِِپِلّوں(کتّےکے بچوں) کا جنم ھوتا تو اس بستی کا ایک آدھ آوارہ لڑکاجواِس خام خیالی میں مبتلا ھوتا تھا کہ پوری بستی کو اسنے قدرتی آفات سے نجات دلاۓ رکھنی ہے، اُن پِلّوں کو سونا یوریا کے خالی تھیلے میں ڈال کر ساتھ والی بستی میں پھینک جاتا تھا ۔ اکثر اِس بستی والے اُس  بستی میں اور اُس بستی والے اِس بستی میں پِلّے پھینک جاتے۔

ایسے ہی دو  گُلُّر (پِلّے) ہمارے گھر کے دروازے پہ آ برآمد ہوۓ ۔دو ہی آپشن تھے، یا پالتے یا پھر بھوکا مرنے کیلئے چھوڑ دیتے۔ اُنکو پالنے میں کیا حرج، دو ہی تو تھے ۔ پہلے ہی دن سے انکی تواضع ٹوٹے ہوئے مٹکے (گھڑے) کی باقیات میں دودھ ڈال کے کی گئی۔ یہ بات بھی ذہن نشین کرلی گئی کہ ان پِلّوں کو لوسی ُکتّا نہیں بننے دینا، جس کا مطلب یہ تھا کہ انکوگھر میں باندھ کے رکھنا ہے ۔۔۔

عام طور پر کتّوں کو بلایا جاتا تو "کُلّو کُلّو" کی آواز نکالتے۔ ہمارا اک گُلّر کیونکہ پھرتیلا  تھا اس لئے اسکو "زبردست" نام دیا گیا، جبکہ دوسرا بہت ڈھیٹ تھا ۔ اسکی توجہ اپنی طرف مبذول کروانے کیلئے "اُو اوُ" کی آواز نکالنا پڑتی، اس لئے اسکا نام ہی"اُو اُو" رکھ دیا ۔ یہ غیر معمولی بات تھی کہ ہم گُلروں کا نام بلاتے تو وہ پلک جھپکتے ہی حاضر ھو  جاتے۔

جب  دونوں پِلّے بڑے ہو کے گُلّر سے کتّے بن گئے تو منصوبے کے مطابق انکو باندھ دیا گیا۔ "اُو اُو" تو سہی رہ گیا،البتہ 'زبردست' کو جب بھی باندھ کے آ تے توپانچ دو گھنٹے بعد ہمارے پہلو میں آن کھڑا ہوتا۔ بارہا کوشش کے باوجود بھی 'زبردست' کو قابو نہ کر سکے۔ تھک ہار کے آخر کار اُس  کو اُس کے حال پے چھوڑنے پے مجبور ھو  گئے۔ یہ بات بہت تکلیف دہ تھی کہ 'زبردست' اب لُوسی کتّا بن جائےگا۔

پھر کیا ہونا تھا، سکول جا رہے ھیں تو 'زبردست' ساتھ ہے،طو طے پکڑنے جا رہے ھیں تو 'زبردست' ساتھ ہے ،شہد اتارنے جا رہے ھیں تو بھی زبردست ہے، اگر  کسی لڑکے سےہماری لڑائی ھو جاتی تو 'زبردست' اس پے خوب بھونکتا اور لڑکے کو ہم سے معافی مانگنے پے مجبور کر دیتا۔ اگر کوئی جانور رسّی چُھڑا کے بھاگ جاتا تو بھی 'زبردست' اسے رسّی سے پکڑ کے لے آتا۔گویا 'زبردست' ایک اچھا محافظ اور نوکر بھی تھا، بدلے میں اسکو صبح  شام ایک ایک روٹی دی جاتی۔ کیوں کے وہ کسی  کے گھر سے یا کسی کی پھینکی ہوئی چیز نہیں کھاتا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ اکثر لوگ لُوسی کتوں کو مارنے کیلئے روٹی یا کسی چیز میں زہر ڈال کے کھلا دیتے۔

ایک دفعہ طوطوں کیلئے جب پِیلوں(جال کا درخت جو عام طور پے قبرستانو ں یا سحراوں میں پایا جاتا ہے،اسکا پھل پِیلوں)  چننے گئے  تو کیا دیکھتے ھیں کہ درخت کے نیچے ایک بہت بڑا مشکی ناگ (کالا سانپ) پٙھن پھیلا کے بیٹھا ہے۔ہمیں بڑوں نے سمجھایا ہوا تھا کہ جب مشکی ناگ کہیں دیکھو تو اسکو کہو، "میاں مشکی تُو اپنے راستے جا ہم اپنے راستے جاتے ھیں"۔تین چار دفعہ  ایسا کہنے کے باوجود  بھی گھمنڈی سانپ پر  کوئی اثر نہ ہوا۔آخر کار ہمیں 'زبردست' کو بلانا پڑا۔ 'زبردست' جب آیا تو اسکو پتا چل گیا کہ خطرہ سانپ سے ہے۔وہ اسکی طرف لپکا مگر سانپ بھاگ کے پاس زمین میں جسمیں گھاس اُگی ہوئی تھی، جا گُھسا۔ 'زبردست' نے بھی پیچھا نہ چھوڑا اور اسکو ڈھونڈ نکالا۔ لڑائی دو گھنٹے جاری رہی، بستی کے لوگ بھی مزہ لینے کیلئے جمع ھو گے، سانپ پٙھن پھیلاتا پر زبردست پٙھن ہی منہ میں لے کے اسے خوب جھنجھوڑتا، آخر کار سانپ مر گیا اور 'زبردست' کی زبردست فتح ہوئی۔ اس شام کو میں نے 'زبردست' کو دو روٹیاں کھلایں اور اسکی گردن پے پاؤں رکھ کے "لیٹ لیٹ" بھی کہا۔ کتّوں کو بھی پتا ھوتا تھا کہ ایسا کر کے ان سے پیار جتایا جا رہا ہے۔

گھر کے پیچھے سڑک کے پاس ایک بہت بڑا آم کا درخت تھا۔اسکی چھاؤں میں ایک مسجد تھی جو کے ہاتھ سے بنائی گئی چوڑی چار دیواری پہ مشتمل تھی۔اسکے ساتھ ہی تین اینٹیں رکھ کےان کے اوپر مٹکا رکھا ھوتا تھا، راہگیر گذرتے ہوۓ مسجد کی دیوار پے بیٹھ کے پانی پیتے اور آرام کرنے کیلئے بیٹھ جاتے۔ ایک قلفی والا جو کے میرا دوست بن چکا تھا وہ بھی اپنی سائیکل مسجد کی دیوار کے ساتھ کھڑی کر کے قلفییاں بیچتا۔ پٙمپ سے جُڑے بڑے ہارن کی آواز "باکُو باکُو" کر کے پوری بستی میں سنائی دیتی۔دوپہر کے وقت اکثر میں اسے کھانا دیتا رہتا تھا،جبکہ وہ بھی اکثر  مجھے مفت میں قلفی دے دیا کرتا۔

ایک دن ہماری بستی کا مفت خورا اپنی سائیکل کے ہمراہ وہاں آ نمودار ہوا اور قلفی والے سے قلفی طلب کی ۔قلفی والے نے آنکھیں نکال کے کہا کہ پہلے بھی تم نے اٙٹھنّی(پچاس پیسہ) دینی ہے ۔یہ بات مفت خورے کو انتہائی ناگوار گزری۔جیسے وہ محکمہ خوراک کا کوئی افسر ہو، اسنے کہا، "سکرین ملا کہ قلفی بیچتے ھو اور پیسے مانگتے ہو"۔ یہی کہ کر اسنے تُوتی  (ہارن) کو اکھاڑ کے اوپر اچھال دیا۔ درخت کی ٹہنیو ں سےاِدھر اُدھر ھوتا ہوا ہارن میرے سر پے آ بجا۔ ہارن پے پٙتری تھی جسکی وجہ سے میرے سر سے خون بہنے لگا۔ میں نے وقت ضائع کئے بغیر بلند آواز میں "زابردست زابردست " کہا۔ پہلے تو وہ شخص حیران ہوا پھر اسکو قلفے والے نے بتایا کہ یہ اسکے کتّے کا نام ہے۔ پہلے ہی وہ بہت کر چکا تھا، یہ سنتے ہی وہ سائیکل پہ سوار ہو کے رفتار سے بھگا نے لگا ۔'زبردست' بھی آ چکا تھا۔پہلے تو 'زبردست' قلفے والے کو وِلن سمجھا،مگر جب میں نے اسے 'اندھا' کہا اور مفت خورے کی طرف اشارہ کر کے "ہابیش ہابیش" (کتے کو کسی کی طرف کاٹنے کیلیے دورانے کی آواز) کیا تو وہ اسکے پیچھے بھاگا ۔ 'زبردست'  قریب پہنچ کے جب بڑی بڑی باچھیں کھول کے بھونکا تو وہ شخص حواس باختہ ہو کے سائیکل سمیت گر گیااور کراھنے لگا۔ یہ دیکھ کر میں نو دو گیارہ ہو گیا،اگلے دن جب پتا چلا کہ اسکا بازو ٹوٹ گیا ہے تو کوئی دکھ نہ ہوا۔
'زبردست' بس بھونکتا تھا، کاٹتا نہیں تھا، لُوسی جو تھا۔

Mumtaz Saeed

گورنمنٹ کالج سمّہ سٹہ میں انگریزی کا پروفیسر۔سات سال سے ہائر ایجوکیشن سے وابستگی۔تعلیم ا یم فل انگلش لٹریچر۔

Mumtaz Saeed