تازہ ترین

’’2023 تک جاری کھاتوں کا خسارہ 60 ارب ڈالر ہوجائیگا‘‘

’’2023 تک جاری کھاتوں کا خسارہ 60 ارب ڈالر ہوجائیگا‘‘
  • واضح رہے
  • مئی 14, 2019
  • 12:00 صبح

غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کیلئے 40 ارب ڈالر درکار ہوں گے۔ اندھا دھند قرضوں کیخلاف نیا اور موثر قانون بنانے کی ضرورت ہے۔ میاں زاہد حسین

پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فورم اور آل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ 2023 تک جاری کھاتوں کا خسارہ 60 ارب ڈالر تک پہنچنے کا تخمینہ ہے، جبکہ غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کیلئے چالیس ارب ڈالر بھی درکار ہوں گے۔ حکومت کو 2023 تک مجموعی طور پر ایک سو ارب ڈالر کی ضرورت ہو گی، جو پاکستان کے جی ڈی پی کا تیسرا حصہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ٹیکس میں جتنا چاہے اضافہ کر لیا جائے، ایکسپورٹ میں اضافہ کئے بغیر یہ ادائیگیاں ممکن نہیں ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ قرضوں کو ری شیڈول کرنا ہی سب سے بہترین آپشن ہے۔

میاں زاہد حسین نے بزنس کمیونٹی سے گفتگو میں کہا کہ حکومت کو 4 برس تک دو دہاری تلوار پر چلنا ہو گا۔ حکومت اپنے اخراجات کم نہیں کر سکے گی اور نہ ہی موجودہ حالات میں دفاعی اخراجات میں کوئی کمی ممکن ہے، اس لئے قرضوں کی ادائیگیوں کا سارا ملبہ ٹیکس کے نظام پر ہی گرے گا۔ زرعی شعبہ، پراپرٹی سیکٹر، اسٹاک ایکسچینج، چھوٹے کاروبار اور پروفیشنلز کو ٹیکس نیٹ میں لانا بھی مشکل کام ہو گا مگر یہ کڑوی گولی ہر حال میں نگلنا پڑے گی ورنہ ملک دیوالیہ ہو جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ ماضی کی کئی حکومتوں نے آئی ایم ایف سے نجکاری کے تحریری معاہدے کئے جن پر عمل نہیں کیا گیا۔ موجودہ حکومت کیلئے بھی ناکام اداروں سے جان چھڑانا مشکل ہو گا مگر انہیں مصنوعی طور پر زندہ رکھنے کیلئے سالانہ 600 ارب روپے درکار ہیں، جن کا انتظام ناممکن ہو گا۔

میاں زاہد حسین نے کہا کہ غیر ملکی قرضوں میں سے 20 ارب ڈالر چین، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور پیرس کلب کو واپس کرنے ہیں، تاہم اگر یہ تمام ممالک قرضہ کی ادائیگی پانچ برس کیلئے موخر کر دیں تو پاکستان کو چند برس کیلئے بڑا ریلیف مل جائے گا، جس سے زرمبادلہ کے ذخائر مستحکم رہیں گے۔ ملٹی لیٹرل ادارے کبھی بھی پاکستان کا قرضہ ری شیڈول نہیں کریں گے مگر آئی ایم ایف کی وجہ سے پاکستان کو قرضوں کی ادائیگی کے قابل بنانے میں دلچسپی لیں گے اور دس ارب ڈالر تک کا مزید قرضہ دے دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اندھا دھند قرضے لینے کیخلاف ایک لولا لنگڑا قانون موجود ہے جسے ختم کر کے سخت قانون بنایا جائے تاکہ مستقبل میں کوئی ترقی کے نام پر ملک و قوم کا سودا کرنے کی ہمت نہ کرے۔

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے