تازہ ترین
گجرانوالہ میں پنجاب کالج کے طلباء کی گرفتاریاں: وجوہات، واقعات اور اثراتپاکستان ایشیائی ترقیاتی بینک کے بانی ژاؤ چن فان کا نام لے لیا گیا۔اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی کو ایک سال بیت گیاگریٹر اسرائیل قیام کامنصوبہغزہ کو کھنڈر بنانے کے بعد اسرائیل کی خوفناک ڈیجیٹل دہشت گردیآئی پی پیز معاہدے عوام کا خون نچوڑ نے لگےایٹمی پاکستان 84 ہزار 907 ارب روپے کا مقروضافواج پاکستان کی ناقابل فراموش خدماتراج مستری کے بیٹے ارشد ندیم نے پیرس اولمپکس میں تاریخ رقم کردیہیلتھ اینڈ سیفٹی ان کول مائنز “ ورکشاپ”ٹی ٹی پی ، را ،داعش، این ڈی ایس اور براس متحرکفلسطینیوں کی نسل کشیدرس گاہیں ، رقص گاہیں بننے لگیسی پیک دہشت گرودں کے نشانے پرحافظ نعیم الرحمن امیر جماعت اسلامی منتخبنئی حکومت کو درپیش بڑے چیلنجزکشمیراورفلسطین میں قتل عام جاریبھارتی دہشت گردی نے کشمیر کوموت کی وادی بنا دیاووٹ کا درست استعمال ہی قوم کی تقدیر بد لے گادہشت گرد متحرک

گوادر کرکٹ اسٹیڈیم کے معمار انجینئر حنیف حسین

gawadar cricket stadium ke maymaar engineer hanif hussain
  • محمد قیصر چوہان
  • اگست 6, 2021
  • 4:44 شام

گوادرکرکٹ ایسوسی ایشن کے سابق صدر حاجی حنیف حسین نے کوہ باتیل کے دامن میں بنے گراﺅنڈ کو آرٹ کا نمونہ بنانے میں اہم ترین کردار ادا کیا

رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ بلوچستان بدقمستی سے ملک کا سب سے زیادہ پسماندہ علاقہ ہے، اس کے تجارتی حب گوادر میں نوجوان نسل کیلئے کھیلوں کی سہولیات ناپید ہیں۔

ملک کے دیگر شہروں کی طرح گوادرمیں بھی کرکٹ نوجوانوں کا مقبول ترین کھیل ہے لیکن کچھ سال پہلے تک یہاں کرکٹ کھیلنے کیلئے باقاعدہ کوئی گراﺅنڈ یا اسٹیڈیم موجود نہیں تھا۔ البتہ گوادر میں کرکٹ کے کھیل کا بے پناہ ٹیلنٹ موجود تھا اور اب بھی ہے۔

گوادر جیسے دور دراز ساحلی شہر میں کرکٹ کا شوق اب سے نہیں بلکہ سلطنت عمان کے عہد 1950ء کی دہائی سے ہے۔ پدی زر (west Bay) اور دیمی زر(East Bay)  گوادر کرکٹ کی نرسری تھا کیونکہ یہاں بچوں کی بڑی تعداد ٹیپ بال کرکٹ کھیلتی تھی، لیکن اب پدی اور دیمی زر کی جگہ میرین ڑرائیو روڈ اور ایسٹ بے ایکسپریس وے تعمیر ہوئی جو ملکی مفاد میں اہم قربانی سے کم نہیں ہے۔

گوادر میں کرکٹ کی ابتدا اسماعیلی کمیونٹی نے کی تھی۔ پہلے گوادر الیون پھر اسماعیلیہ کلب بعد ازاں کیپٹن غنی آصف و غفور ساجد کے قائم کردہ پہلے پیور بلوچ بیسڈ آصف الیون (کلب) 1978ء سے ہوتا ہے۔

عیسی خان جعفر جو کراچی کے بزنس مین اور کرکٹ کے پرستار رہے انہوں نے 1981ء میں گوادر کرکٹ ایسوسی ایشن مجید کامریڈ، کریم بخش چھوٹا اور غنی آصف کے ساتھ مل کر بنایا۔ تاہم مقامی ٹیلنٹ کو اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھانے کیلئے ایک باقاعدہ گراﺅنڈ کی اشد ضرورت تھی۔

اس سہولت کیلئے گوادر کے نوجوان کرکٹرز اپنے مسیحا کا انتظار کرتے رہے۔ اور انہیں انجینئر حاجی حنیف حسین کی صورت میں ایک مسیحا مل گیا، جنہوں نے گوادر جیسے پسماندہ ترین علاقے میں جدید سہولتوں سے آراستہ کرکٹ گراﺅنڈ بنانے کی جدوجہد کا آغاز کیا۔

gawadar cricket stadium ke maymaar engineer hanif hussain

وہ یکم دسمبر 2016ء کو گوادر کرکٹ ایسوسی ایشن کے صدر منتخب ہوئے تھے اور گوادر کرکٹ میں انقلابی تبدیلیاں لاکر علامہ محمد اقبال کے شعر ’’ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی‘‘ کی بھرپور ترجمانی کی۔ ساحلی شہر سے تعلق رکھنے والے حاجی حنیف حسین کا نام جہد مسلسل، محنت، لگن اور بلند حوصلے کا نام ہے۔

وہ درد دل رکھنے والے انتہائی سادہ عاجزی پسند مستقل مزاج کرکٹ آرگنائزر ہیں۔ ایک سیلف میڈ انسان کے طور پر ان کی حیثیت ایک اعلیٰ کردار کے حامل رہنما کی بھی ہے، پیشے کے اعتبارسے وہ انجینئرہیں۔ حاجی حنیف نیو اسٹار کلب جو 1983 میں قاہم ہوا کے سابق کپتان، صدر و سیکریٹری کے عہدے پر فائز رہے ہیں۔

زندگی میں اپنے اصول اور نظریات کی خاطر ایثار و قربانی کی اعلیٰ مثال اپنے عملی کردار سے رقم کررہے ہیں۔ ان کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے پاکستان اور پاکستانی معاشرہ کو دیا بہت کچھ، مگر لیا کچھ نہیں۔

کرکٹرز کے حقوق کی جنگ انتہائی جرأت اور استقامت سے لڑنے والے حاجی حنیف حسین صاحب نے اپنی زندگی کرکٹ کے کھیل اور کرکٹرز کی خدمت کیلئے وقف کر رکھی ہے وہ ملکی کرکٹ کی بہتری اور سبز ہلالی پرچم کی سر بلندی کیلئے کوشاں ہیں۔

حیران کن قائدانہ صلاحیتوں کے مالک حاجی حنیف حسین اپنے مضبوط حوصلوں اور بے مثال کردار کے ذریعے حالات کے دھاروں کا رخ موڑ دیتے ہیں۔ عاجزی اور انکساری ان کی شخصیت کا نمایاں پہلو ہے۔

بطور کرکٹ آرگنائزر ان کا شاندار سفر معرکہ آرائیوں سے بھرا پڑا ہے۔ حنیف حسین صاحب ان شخصیات میں سے ہیں جو کسی بھی معاشرے کا قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں۔

گوادر شہر کے ساحل پدی زر سے ذرا آگے بڑھیں تو یہاں کے طویل قامت پہاڑ کوہ باتیل کے ساتھ ساتھ ماہی گیروں اور کشتی سازوں کی بستیاں دکھائی دیتی ہیں، یہ پدی زر سائیڈ جو آج کل میرین ڈرائیو روڈ ہے، جگمگاتی روشنیوں کے ساتھ استقبال کرتی ہے، جس کے ختم ہوتے ہی پورٹ روڈ شروع ہو جاتی ہے جو آپ کو گوادر کی بندرگاہ کی جانب لے جاتی ہے جسے پاکستان نے چین کے تعاون سے بنایا ہے۔

لیکن بندرگاہ کے سیکورٹی چیک پوائنٹ سے ذرا پہلے دائیں جانب گوادر کا کرکٹ اسٹیڈیم ہے۔ کوہ باتیل کے دامن میں بنا گوادر کا یہ کرکٹ اسٹیڈیم آپ کو رکنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ یہ فن تعمیر کا ایک غیر معمولی نمونہ دکھائی دیتا ہے اور یہی انفرادیت اسے دنیا کے خوبصورت کرکٹ اسٹیڈیمز کی فہرست میں شامل کرتی ہے۔

پہاڑ کے دامن میں بنے اس اسٹیڈیم میں خوبصورت سبز گھاس کی فیلڈ، پختہ پچ اور شائقین کیلئے مختص جگہ، جبکہ بھورے رنگ کے مرکزی دروازے کے ساتھ سینیٹر محمد اسحاق بلوچ کے نام کی تختی لگی ہوئی ہے۔ یہ اسٹیڈیم ان ہی کے نام پر رکھا گیا ہے۔

گوادرکرکٹ ایسوسی ایشن کے سابق صدر اور گوادر کرکٹ اکیڈمی کے بانی صدر انجینئرحاجی حنیف حسین کے مطابق یہ سنہ 1989ء کی بات ہے گوادر کے ماہی گیروں کے پاس بندرگاہ نہیں تھی جسے جیٹی کہا جاتا ہے۔

جب جیٹی بننے لگی تو اسی جگہ موجود کرکٹ گراؤنڈ کو ختم کرنا پڑا۔ گوادر میں کرکٹ کا پہلا گراؤنڈ کانجل تھا۔ پھر وہ جیٹی (بندرگاہ) کی زد میں آ گیا اس وقت کے ہمارے خطے کے بڑے اس وقت کے سینیٹر محمد اسحاق بلوچ کے پاس گئے اور انھیں بتایا کہ ہمارا گراؤنڈ جیٹی کی زد میں آ گیا ہے۔ محمد اسحاق بلوچ بہت اچھے لیڈر تھے انہوں نے ڈیڑھ دو لاکھ سے یہ زمین خرید کر کوہ باتیل کی گود میں موجود اس بہترین بیک ڈروپ پر گراﺅنڈ کی بنیاد رکھی اور گوادر کرکٹ پھر سے رواں دواں ہوا۔

gawadar cricket stadium ke maymaar engineer hanif hussain

پھر گوادر میونسپل کمیٹی کے چیئرمین کہدا محمد نے اس کیلئے ڈیمارکیشن کروائی اور پھر چھوٹا سا پویلین بنوایا گیا۔ مرحوم امام بخش امام کی گوادر کرکٹ کیلئے بے پناہ قربانیاں ہیں۔ وہ گوادر کے سینئر ترین کرکٹر تھے، جو بہترین منیجر بھی رہے۔ اسٹیڈیم تیار ہونے کے بعد ڈسٹرکٹ کابینہ کے سربراہ امام بخش امام نے سب طلبا کو بلوایا اور پوچھا کہ اسٹیڈیم کا نام کیا رکھیں؟

سب طلبا نے ایک ساتھ کہا کہ اس کا نام سینیٹر محمد اسحاق بلوچ اسٹیڈیم رکھا جائے۔ یوں اس کا یہ نام رکھ دیا گیا۔ مرحوم امام بخش امام، اس وقت کے صدر نے تمام کلبوں کے مشاورت سے سینیٹر کے خدمات کے اعتراف میں نام سینیٹر محمد اسحاق بلوچ کرکٹ اسٹیڈیم رکھا۔ مشاورت میں سینئر کرکٹر غنی آصف، کہدہ محمد، رسول بخش، ڈاکٹر مجید راجہ، مراد قریش، علی شاہین، استاد اسحاق بھی شامل تھے۔

اسٹیڈیم تیار ہونے کے بعد 1999ء میں چیئرمین حاجی حمید کی نگرانی میں کرکٹ اسٹیڈیم کی چار دیواری اور اسٹپس کی تعمیر ہوئی اور پچ بھی دوبارہ بنائی گئی۔ مگر امام بخش امام و رسول بخش سمیت کمیٹی کے ممبر پچ سے مطمئن نہیں تھے۔

پچ کو اُکھاڑ کر دوبارہ بنایا گیا۔ یہ کام بلدیہ کے چیئرمین کے توسط سے ایم پی اے کے فنڈ سے کروایا گیا۔ اُس دور میں سیمنٹ کی پچ بنی ہوئی تھی وقت کے ساتھ ساتھ یہاں میچز کھیلے جاتے رہے، اس عرصے میں 2013ء سے 2014ء کے درمیان گوادر کے منتخب ممبر صوبائی اسمبلی میر حمل کلمتی نے 55 لاکھ گرانٹ دی جس سے ایک پویلین، آؤٹ فیلڈ کی مٹی، دو کمرے بشمول انڈر گراؤنڈ ٹینک تعمیر کیے گئے۔

یہ کام محکمہ کمیونکیشن اینڈ ورکس نے کیا۔ جب حاجی صاحب نے صدارت سنبھالی تو اسٹیڈیم ایک ریگستان کا منظر پیش کر رہا تھا اور آؤٹ فیلڈ میں گراس نہیں تھی۔ بارش کی صورت میں کئی دن تک گراﺅنڈ میں پانی کھڑا رہتا تھا۔

حاجی حنیف حسین صاحب نے اپنی انتھک محنت سے اس آؤٹ فیلڈ کو نا صرف کھیل بلکہ بیٹسمینوں کے لیے جنت بنایا اور گوادر ڈسٹرکٹ لیگ 2017ء میں کل 13 سنچریاں بنیں، جو عبدالواحد صالح، عدنان اسحاق، شریف وقار، بشیر بیون، فہد عبداللہ، ماجد بشام، شکیل احمد نے بنائیں۔

حاجی صاحب نے گوادر کے چاروں تحصیلوں ( گوادر، پسنی، جیونی اور اورماڑہ) کو بھی امن دوستی اور برابری کے ساتھ کے عملی نعرے کے تحت متحد کیا۔ حاجی صاحب ہر دس دن کے بعد گراﺅنڈ کی آوٹ فیلڈ کو پانی اور پھر ایک مکمل دن تک رول کیا کرتے تھے۔

ڈسٹرکٹ کابینہ کے اجلاس ہر تحصیل میں منعقد کیے گئے تاکہ احساس محرومی نہ ہو اور عملی طور پر ہر کام میرٹ کے عین مطابق اپنے منطقی انجام تک پہنچ سکے۔

گوادر کے تمام کرکٹرز سمیت سرزمین حاجی صاحب کی محنت و کام کے چشم دید گواہ ہیں۔ انہوں نے اپنے ذاتی کام اور گھر سے زیادہ توجہ اس اسٹیڈیم پر دی۔ تب جا کر گوادر کرکٹ گراﺅنڈ میڈیا کی توجہ کا مرکز بنا۔

gawadar cricket stadium ke maymaar engineer hanif hussain

2017ء میں حاجی حنیف حسین کی کوششوں سے پاکستان کرکٹ بورڈ نے گوادر کرکٹ ایسوسی ایشن کو اسٹیڈیم میں ٹرف پچ بنانے کیلئے گوجرانوالہ سے 90 ٹن مٹی منگوا کر دی تھی، جس سے اسٹیڈیم کی تین ٹرف پچ بنائی گئیں۔ یہ مٹی تین ٹرکوں میں منگوائی گئی اور ایک ٹرک کا کرایہ ڈیڑھ لاکھ روپے تھا۔

اس وقت پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیف کیوریٹر آغا زاہد نے تین ٹرف پچ، باؤنڈری روف، دو عدد رولرز، گراس کٹنگ مشین، پچ کور اور دیگرسامان پاکستان کرکٹ بورڈ کی معاونت فراہم کئے۔ اس وقت تک گوادر کے اس سٹیڈیم کے پاس کھیلنے کے حقوق یعنی پلئینگ رائٹس نہیں تھے، کیونکہ اسٹیڈیم میں پچ سیمنٹڈ تھی اور گوادر کی کرکٹ کلبوں کے کاغذات مکمل نہیں تھے، لہٰذا پہلے تمام کرکٹ کلبوں کے کاغذات مکمل کرکے پاکستان کرکٹ بورڈ میں جمع کرائے گئے۔

حاجی حنیف ایک سال کی مسلسل جدوجہد سے پی سی بی کو باور کرانے میں کامیاب ہوئے کہ گوادر پلینگ رائٹس کے قابل ہے۔ سابق ٹیسٹ کرکٹر اقبال قاسم، سینیٹر تاج حیدر و کبیر محمد شہی، سابق ٹیسٹ کرکٹرآغا زاہد، سابق ٹیسٹ کرکٹر شفیق پاپا، حاجی منصور خان، مراد اسماعیل، جاوید سلمان، عارف اکبر، عمران مراد، شبیر ماجد، حاجی محسن، سعید شکیل، یاسر، شعیب نور، امجد مراد، عمر، عابد، نسیم موسیٰ، بابر ناصر، غنی آف، باسط لطیف، نثار حسین، کریم نواز، وسیم نے اس سلسلے میں معاونت کی۔

حاجی حنیف کی جدوجہد اور ایک سال کے کام کے بعد گوادر اسٹیڈیم کو 2018ء میں پلیئنگ رائٹس مل گئے اور اسٹیڈیم کو بھی ایک زبردست پزیراہی ملی۔ 2017ء میں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف صاحب نے گوادر کا دورہ کیا اور ایک ارب کا ترقیاتی فنڈ دینے کا اعلان کیا۔

گوادر کرکٹ کے صدر حاجی حنیف حسین نے اس نادر موقع کا فاہدہ اٹھاتے ہوئے جی ڈی اے انجینئرر محمد ایاز اسد خان کے ذریعے اسٹیڈیم کو جدید سہولیات کی فراہمی کیلئے ایک ڈیٹیل اسٹیمیٹ پروجیکٹ میں شامل کروایا جو ایک دور رس کامیاب پلان ثابت ہوا۔

بعدازاں گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے اس اسٹیڈیم کیلئے ڈیڑھ کروڑ روپے گرانٹ کا اعلان کیا۔ ڈی جی جی ڈی اے شاہ زیب کاکڑ اور چیف انجینئرحاجی سید محمد، غلام محمد گہرام اور سمی بلوچ نے نے گھاس لگوانے اور دیگر تزئین و آرائش کا کام بہت محنت و جان فشانی سے کیا، جس کی جتنی بھی تعریف کی جاہے کم ہے۔

2017ء میں عبدالحمید، رشید حمید ہنڈا گوادر، حاجی غنی، عبدالروف، در محمد نگوری، محمد فیض کدواہی اور شیر جان نگوری کے تعاون سے ڈسٹرکٹ ایسوسی ایشن کے دفتر کم کانفرنس ہال کی تزئین و آرئش کرائی جس کا افتتاح ڈی سی گوادر محمد نعیم بازہی، برگیڈیئر اظفر کمال، سابق ناظم بابو گلاب اور برکت کھوسہ ڈی پی او گوادر نے کی۔

gawadar cricket stadium ke maymaar engineer hanif hussain

گوادر کرکٹ اسٹیڈیم کے بالکل ساتھ جی ڈی اے سیوریج واٹر کی ٹریٹمنٹ پلانٹ ہے جس سے گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی پانی سے گراﺅنڈ کو سر سبز کرنے میں مدد دے رہا، جو کہ ایک حوش آئند عمل ہے۔

یہاں ڈسٹرکٹ کرکٹ کمیٹی کے چیئرمین زاہد سعید اپنی قائدانہ صلاحیتوں سے اسٹیڈیم کو سنبھال رکھا ہے اور کلب ان کارکردگی سے مطمئن ہیں کیونکہ انہوں نے سب کو متحرک کر کیا ہوا ہے، ان کی نگرانی میں موجودہ تزئین و آرئش کا کام کیا جا رہا ہے۔

اپنی مدد آپ کے تحت ایک گراونڈ مین (حسین چھوٹا) کی خدمات حاصل کیں اور ڈسٹرکٹ لیگ کو چار گراؤنڈز مین حاجی حنیف، استاد اصغر اور اللہ داد مدد سے ممکن بنایا۔ گوادر کرکٹ اسٹیڈیم کی خوبصورتی کو برقرار رکھنے میں پاکستان آرمی کے کرنل عمران طارق اور میجر ارسلان نے اپنی ٹیم کے ساتھ بہت محنت کی، جو قابل تعریف ہے۔

گوادر کرکٹ اسٹیڈیم کا مرکزی دروازہ ہر وقت کھلا رہتا ہے، یہاں مقامی کھلاڑیوں کے علاوہ سیاح بھی آتے اور تصاویر بناتے ہیں۔ قومی سطح تک شہرت سے مختلف شہروں اور کمپنیوں کی ٹیمیں گوادر کرکٹ چیئرمین سے باقاعدہ اجازت لیکر کرکٹ میچ کھلتے ہیں۔

یہ اسٹیڈیم اب ایک مکمل آئیکون کی شکل کر چکا ہے۔ رواں سال مارچ میں پی ایس ایل کی دو ٹیموں کراچی کنگز اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے درمیان میچ کورونا وائرس کی وجہ سے ملتوی کیا گیا اگر یہ میچ ہو جاتا تو اس سے گوادر سمیت پورے بلوچستان میں کرکٹ کے کھیل کو فروغ ملتا۔

اب پاکستان کرکٹ بورڈ کو چاہیے کہ وہ پی ایس ایل کا ایک میچ گوادر کرکٹ گراﺅنڈ میں ضرور منعقد کرے تاکہ اس سے اس گراﺅنڈ اور گوادر سمیت بلوچستان میں کرکٹ کے کھیل کو فروغ ملے۔

محمد قیصر چوہان

سینئر صحافی،مصنف اورنیشنل وانٹرنیشنل امور،سپورٹس سمیت دیگر موضوعات پر لکھتے ہیں جبکہ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے انٹرویوز بھی کرتے ہیں۔

محمد قیصر چوہان