جس طرح ارشد ندیم نے گولڈ میڈل جیت کر ملک کا سر فخر سے بلند کیا اور اُن کے استقبال میں ایئرپورٹ سے لے کر میڈیا، حکومت اور عوام نے ہاتھوں ہاتھ لیا—ویسے ہی ایک اور سنہری باب پاکستان کی روئنگ ٹیم نے تھائی لینڈ میں رقم کیا۔ مگر فرق صرف اتنا ہے کہ اس بار یہ تاریخی جیت نہ تو خبروں میں نمایاں ہوئی، نہ ہی کسی جلسے کی زینت بنی، اور نہ ہی کھلاڑیوں کو اُن کی محنت کا وہ صلہ ملا جس کے وہ حق دار تھے۔
تھائی لینڈ میں پاکستانی چپو برداروں کی طوفانی کارکردگی
تھائی لینڈ کے شہر پتایا میں ہونے والی ایشین انڈور روئنگ چیمپئن شپ میں پاکستانی دستے نے سب کو حیران کر دیا۔ مقبول علی کی قیادت میں چھ رکنی ٹیم نے 10 گولڈ، 3 سلور، اور 1 برانز میڈل اپنے نام کیے۔
یہ وہ مقابلہ تھا جس میں بارہ ممالک کی ٹیموں نے حصہ لیا، جن میں بھارت، سری لنکا، جنوبی کوریا، اور ایران جیسے بڑے ممالک بھی شامل تھے۔ اس کے باوجود پاکستانی ٹیم نے تیسری پوزیشن حاصل کر کے عالمی سطح پر ملک کا نام روشن کیا۔
کھلاڑیوں کی انفرادی کارکردگی
یہ محض تمغے نہیں، یہ اُن لمحات کی پہچان ہیں جو اِن کھلاڑیوں نے دن رات محنت کر کے حاصل کیے۔
استقبال تو ہوا، مگر اعتراف کہاں ہے؟
جب ٹیم وطن واپس لوٹی تو لاہور ایئرپورٹ پر ان کا سادہ مگر پُرجوش استقبال ضرور کیا گیا۔ مگر جو پذیرائی ارشد ندیم جیسے دیگر قومی ہیروز کو ملی، وہ ان چپو تھامے ہیروز کو نہ مل سکی۔ نہ کوئی اعزازات، نہ حکومتی دعوے، نہ ٹی وی پر بریکنگ نیوز، اور نہ ہی عوامی سطح پر کوئی جشن۔
کامیابی کا پیمانہ صرف میڈیا کوریج؟
یہ سوال ہمیں بطور قوم خود سے پوچھنا ہے:
کیا صرف اُن ہیرو کو سراہا جائے گا جو میڈیا میں جگہ بنا سکیں؟ کیا کامیابی کا پیمانہ صرف وہ کھیل بن گئے ہیں جو کیمروں کے سامنے ہوں؟ اگر ہاں، تو ہم بہت سے ہیروز کو خاموشی کی دھند میں گم کر رہے ہیں۔
وقت ہے رویے بدلنے کا
ارشد ندیم کی کامیابی پر ہمیں فخر ہے، اور ہمیشہ رہے گا۔ مگر اسی فخر کو ہمیں روئنگ ٹیم جیسے دیگر شعبوں میں نمایاں کارکردگی دکھانے والوں تک بھی پھیلانا ہو گا۔ یہ کھلاڑی نہ صرف پاکستان کے لیے کھیلتے ہیں بلکہ عالمی سطح پر ملک کی پہچان بن رہے ہیں۔
آخر میں: تمغے چاہے نیزے سے آئیں یا چپو سے، دونوں پاکستان کے ماتھے کا جھومر ہیں
حکومت، میڈیا، اور عوام کو چاہیئے کہ ان غیر معروف کھیلوں میں چمکتے ستاروں کو بھی وہی اہمیت دی جائے جو دیگر مشہور کھلاڑیوں کو دی جاتی ہے۔ کیونکہ قومیں صرف کرکٹ یا نیزہ بازی سے نہیں، ہر میدان میں جیتنے والوں سے بنتی ہیں۔