تازہ ترین

شخصیت پرستی بھی بت پرستی کی طرح خطرناک ہے: محمد سعید بٹ

shakhsiyat parasti bhi but parasti ki tarah khatarnaak hai
  • محمد قیصر چوہان
  • مئی 2, 2022
  • 12:56 صبح

اسلامی اسکالر، مفکر اور محقق محمد سعید بٹ نے کہا ہے کہ اسلام کا نظام غربت ختم کرنے کے لیے بہترین ہے، لہٰذا زکوة کے نظام کو فعال کیا جانا چاہیئے

اسلامی اسکالر ،مفکر،محقق، ادیب، شاعر اور نقاد محمد سعید بٹ کو علم و ادب کی دنیا میں ایک کثیر الجہت شخصیت کے طور پر قابل رشک مقام حاصل ہے۔ محمد سعید بٹ کے مقاصد میں دعوت وتبلیغ دین، اصلاح احوال امت، تجدید و احیاء دین، ترویج و اقامت اسلام، امت میں اتحاد و یگانگت، انتہا پسندی کا انسداد اور امن کا فروغ سرفہرست ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی نوجوان نسل کی علمی و فکری، اخلاقی و رُونی، تعلیمی و شعوری اور سماجی و ثقافتی اصلاح شامل ہے۔

محمد سعید بٹ گوروں کے دیس برطانیہ میں بھی ہر عمر کے افراد کو راہ نمائی مہیا کر رہے ہیں اور آئندہ نسلوں کی دینی و دنیوی، اخلاقی و رُوحانی تعلیم و تربیت اور فکری آبیاری کا اہم فریضہ ادا کرتے رہیں گے۔ موچی گیٹ اندرون لاہور میں پیدا ہونے والے محمد سعید بٹ نے جوانی میں پاکستان ریلوے کی طرف سے فرسٹ کلاس کرکٹ بھی کھیلی اور گورنمنٹ کالج (جی سی) کو پنجاب اولمپک گیمز میں پہلوانی میں گولڈ میڈل بھی دلوایا۔ انہوں نے چار کتابیں لکھیں ہیں۔

1972ء میں وہ ذریعہ معاش کے سلسلے میں گوروں کے دیس برطانیہ چلے گئے۔گزشتہ دنوںمحمد سعید بٹ اپنے آبائی وطن پاکستان تشریف میںلائے تو معروف صحافی عنصر اقبال کی وساطت سے ان کے ساتھ ایک نشست کا اہتمام کیا جس میں اسلامی اسکالر،مفکر، محقق، ادیب، شاعراورنقادمحمد سعید بٹ سے ہونے والی گفتگو قارئین کی خدمت میں حاضر ہے:

سوال: سب سے پہلے تو آپ ہمیں اسلام کے معنی و مفہوم کے بارے میں بتائیں؟

محمد سعید بٹ: اسلام کا لفظ، س، ل، م، سَلَمَ سے نکلا ہے۔ اس کے لغوی معانی بچنے، محفوظ رہنے، مصالحت اور امن و سلامتی پانے اور فراہم کرنے کے ہیں۔ حدیث نبوی ﷺمیں اس لغوی معنی کے لحاظ سے ارشاد ہے :”بہتر مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔“اسی مادہ کے باب اِفعال سے لفظ ’اسلام‘ بنا ہے۔ لغت کی رو سے لفظ اسلام چار معانی پر دلالت کرتا ہے۔

1۔ اسلام کا لغوی معنی خود امن و سکون پانا، دوسرے افراد کو امن و سلامتی دینا اور کسی چیز کی حفاظت کرنا ہے۔ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :ترجمعہ ”اللہ اس کے ذریعے ان لوگوں کو جو اس کی رضا کے پیرو ہیں، سلامتی کی راہوں کی ہدایت فرماتا ہے۔“

2۔ ’اسلام‘ کا دوسرا مفہوم ماننا، تسلیم کرنا، جھکنا اور خود سپردگی و اطاعت اختیار کرنا ہے۔ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :ترجمعہ”اور جب ان کے رب نے ان سے فرمایا : (میرے سامنے) گردن جھکا دو، تو عرض کرنے لگے : میں نے سارے جہانوں کے رب کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا“۔3۔ ’اسلام‘ میں تیسرا مفہوم صلح و آشتی کا پایا جاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں فرمایا :ترجمعہ”اے ایمان والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاو ¿۔“4۔ اسی طرح ایک بلند و بالا درخت کو بھی عربی لغت میں السّلم کہا جاتا ہے ۔مندرجہ بالا معانی کے لحاظ سے لغوی طور پر اسلام سے مراد امن پانا، سر تسلیم خم کرنا، صلح و آشتی اور بلندی کے ہیں۔

سوال: اسلام مذہب ہے یا دین؟

محمد سعید بٹ: اسلام دین ہے مذہب نہیں کیوں کہ دین میں زیادہ وسعت اور جامعیت پائی جاتی ہے۔ قرآن حکیم نے کسی بھی جگہ اسلام کو مذہب نہیں بلکہ ہمیشہ دین ہی قرار دیا ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ،ترجمعہ:”بے شک دین اللہ کے نزدیک اسلام ہی ہے۔“

وہ نظامِ حیات جو کمال درجہ جامعیت کی شان کے ساتھ بیک وقت دنیا اور آخرت کو محیط نہ ہو اسے مذہب یا فلسفہ اور نظریہ تو قرار دیا جا سکتا ہے، دین نہیں کہا جا سکتا جبکہ دین اسلام کل ہے جس میں معیشت، معاشرت، سیاست سب شامل ہیں۔ معروف معنوں میں مذہب بندے اور خدا کے اس تعلق کا نام ہے جسے انسان کے دنیوی معاملات سے کوئی سروکار نہیں۔

اس لیے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا،ترجمعہ: ”آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو (بطورِ) دین (یعنی مکمل نظام حیات کی حیثیت سے) پسند کر لیا۔“ دین اسلام انسان کے لیے زندگی کے تمام تر شعبہ جات میں اس کی مکمل رہنمائی کرتاہے اور کرتا رہے گا، اس کی تبلیغ و دعوت کے اصول حکمت و دانشمندی، وعظ و تلقین اور بحث ومباحثہ پر قائم ہیں۔

سوال: ایمان کی صفات کون کون سی ہیں؟

محمد سعید بٹ: آئمہ و محدثین نے ایمان اور ایمانیات کو قرآن و حدیث سے اخذ کر کے اس کی تعلیم کو آسان اور سادہ طریقے سے سمجھانے کے لیے نہایت خوبصورت پیرائے میں بیان کیا ہے۔ علمائے اسلام نے ایمان کی صفات کو دو طرح سے بیان کیا ہے :اِیمانِ م جمَل میں ایمانیات کو نہایت مختصر مگر جامع طریقے سے بیان کیا گیا ہے کیونکہ مجمَل کا معنی ہی ”خلاصہ“ ہے۔ اس میں اللہ پر ایمان لانے کا ذکر اس طرح ہوا ہے کہ بغیر اعلان کیے جملہ ایمانیات اس میں در آئیں، جبکہ ایمانِ مفَصَّل میں قرآن و حدیث کی روشنی میں ثابت شدہ ایمانیات کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔

سوال: متعصبین اور معاندین اسلام اس کی اشاعت کو فتوحات اور ملکی محاربات کا نتیجہ قرار دیتے ہیں اور یہ کہتے ہوئے ان کی زبان نہیں تھک رہی ہے کہ، اسلام کو بزور شمشیر پھیلایا گیا ہے، ان کا دعویٰ ہے کہ اسلام نے اپنی ذاتی خوبیوں اور محاسن سے لوگوں کو اپنا مطیع فرمان نہیں بنایا بلکہ اپنی طاقت و قوت سے جبر واکراہ کے ذریعہ دین اسلام کا قلاوہ ان کی گردن میں ڈال دیا ہے اور اسی جبر واکراہ نے امتدادِ زمانہ کے ساتھ ساتھ رضا ورغبت کا لبادہ اوڑھ لیا ہے،آپ تعلیمات اسلام کی روشنی میں اس قسم کی مسموم ذہنیت رکھنے والوں کے باطل خیالات پر کیا کہیں گے؟

محمد سعید بٹ: اللہ تعالیٰ کے آخری رسول حضرت محمد ﷺ پر جو صحیفہ ربانی نازل ہوا، اس نے سب سے پہلے عقل انسانی کو مخاطب کیا۔اور غور وفکر، فہم و تدبر کی دعوت دی کہ اسلام اپنی کسی بھی تعلیم کو لوگوں پر زبردستی نہیں تھوپتا ہے۔ بلکہ وہ لوگوں کو غور وفکر کا موقع فراہم کرتا ہے۔

حق وباطل کے امتیاز کو واضح کرتا ہے۔ ضلالت وگمراہی اور نجات و فلاح کے راستے سے لوگوں کو روشناس کراتا ہے پھر یہ کہ جو مذہب اپنی ترویج واشاعت کے لیے دعوت و تبلیغ، ارشاد و تلقین کا راستہ اختیار کرنے اور سوچنے سمجھنے کا لوگوں سے مطالبہ کرتا ہو، وہ بھلا کیوں کسی مذہب کے پیروکاروں کو جبر وکراہ کے ذریعہ اپنے مذہب میں داخل کرنے کی کوشش کرے گا۔ اور زور زبردستی اختیار کرے گا۔ اسلام کی دو حیثیت ہے ایک حیثیت میں وہ دنیا کے لیے اللہ کا قانون ہے۔

دوسری حیثیت میں وہ نیکی و تقویٰ کی جانب ایک دعوت اور پکار ہے۔ پہلی حیثیت کا منشاءدنیا میں امن قائم کرنا ہے اس کو ظالم و سرکش انسانوں کے ہاتھوں تباہ ہونے سے بچانا اور دنیا والوں کو اخلاق وانسانیت کے حدود کا پابند بنانا ہے۔ جس کے لیے قوت وطاقت کے استعمال کی ضرورت ہے لیکن دوسری حیثیت میں وہ قلوب کا تزکیہ کرنے والا ارواح کو پاک وصاف کرنے والا، حیوانی کثافتوں کو دور کرکے بنی آدم کو اعلیٰ درجہ کا انسان بنانے والا ہے۔

جس کے لیے تلوار کی دھار نہیں بلکہ ہدایت کا نور، دست و پاکا انقیاد نہیں بلکہ دلوں کا جھکاو ¿ اور جسموں کی پابندی نہیں بلکہ روحوں کی اسیری درکار ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمانوں کو طویل معرکہ آرائیوں سے سابقہ پڑا ہے۔ ان کے یہ محاربات جارحانہ ہوں یا مدافعانہ، فتوحاتِ ملکی کے لیے ہوں یا اعلاء کلمة اللہ کے لیے ان تمام محاربات و فتوحات کا مقصد اور حاصل یہ نہ تھا کہ کسی کو بزورِ شمشیر اور حکومت و اقتدار کے بل بوتے پر مسلمان بنایا جائے اسلام نے تو صرف اور صرف اپنی خوبیوں اور محاسن سے عالم میں رسوخ اور مقبولیت حاصل کی ہے۔

اس نے جس تیزی کے ساتھ اقوام وملل کے اذہان و قلوب کو مسخر کیا اس طرح کی نظیر دوسرے مذاہب میں دیکھنے کو نہیں ملتی ہے یہ بات کہ اسلام میں کوئی زور و زبردستی نہیں ہے، اس کو ثابت کرنے کے لیے شریعت اسلام کے اصول، رسولﷺ کے اوصاف وخصائل اخلاق حمیدہ وطریقہ تعلیم اور پھر آپ کے بعد آپ کے صحابہ کا طرز عمل یہ ساری چیزیں تاریخ میں محفوظ ہیں۔

شریعت اسلام نے بہ زور و تخویف کسی کو مسلمان بنانے کی سخت ممانعت کی ہے قرآن کی متعدد آیات اس بات پر شاہد عدل ہیں۔ اللہ رب العزت نے انسانوں کو ارادہ واختیار کی آزادی دی ہے۔ اور رد و قبول کے فیصلوں کو اس کے ہاتھوں سونپ دیا ہے۔ دین ومذاہب کے سلسلے میں وہ بالکل آزاد ہیں۔ چاہے تو قبول کرکے اپنی دنیا وآخرت کو سنواریں،اور چاہے تو انجامِ بد کے لیے تیارہو جائیں کیونکہ اسلامی ریاست کے ذریعہ ان پر زور زبردستی، طاقت ،قوت اور جبر واکراہ اور حکومت واقتدار کا استعمال کرکے اپنا ہم مذہب بنانا ناجائز ہے۔

اسی لیے تمام انبیاءو رسول کو اللہ نے پیغام رساں بنایا اور انہیں حکم دیا کہ صرف میرا پیغامِ حق ان تک پہنچادو، تم پھر اپنے فرض منصبی سے آزاد ہو۔ تمہارا کام صرف پیغام رسانی کا ہے۔ وہ اپنے مذہبی رسم ورواج، دین ومذہب کے افعال واعمال کی ادائیگی میں قطعی طور پر کسی کے پابند نہیں ہیں حق و باطل کا فیصلہ تو ہم کریں گے۔

سوال: دین اسلام میں مذہبی آزادی کا کیا تصور ہے؟

محمد سعید بٹ: اس کے ثبوت کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ اشاعت اسلام کے لیے کوئی کمیٹی یا کوئی ادارہ قائم نہیں کیاگیا۔ اسلامی ریاست میں یہود ونصاریٰ پوری آزادی کے ساتھ مذہبی امور کو ادا کرتے تھے ان کو بھی ملت اسلامیہ میں وہی حقوق حاصل تھے جو خود مسلمانوں کو حاصل تھے ان کے جان ومال کی وہی قدروقیمت تھی جو ایک مسلمان کے جان ومال کی تھی۔

اسلام نے مساوات اور مذہبی آزادی کے وہ فراخدل اصول وضابطے تیار کیے جن کی وجہ سے سلطنت اسلامیہ کے عروج کے زمانہ میں یہودی وعیسائی اور دوسرے مذاہب کے ماننے والے ایک ساتھ رہتے تھے اور بڑے بڑے عہدے حاصل کرنے میں مسلمانوں سے مزاحمت کرتے تھے۔

اسلام نے جس طرح سے غیر مذاہب کے لوگوں کا ادب واحترام محفوظ رکھاہے انہیں مذہبی آزادی، معاشرتی و تجارتی آزادی کی چھوٹ دی ہے کسی دوسرے مذہب میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔

سوال:دین اسلام میں مسلک کی کیا اہمیت ہے؟

محمد سعیدبٹ: فروعی مسائل میں اختلافات کی بنیاد پر مختلف مسلک وجود میں آئے جیسے حنفی، مالکی، شافعی ،حنبلی وغیرہ۔ ہر مسلمان کسی نہ کسی مسلک کو اپنائے ہوئے ہے اور دین کے معاملات میں راہنمائی حاصل کرتا ہے۔ لیکن بہتر یہی ہے کہ مسلک کے فروعی اختلافات کو چھوڑ کرقرآن اور اللہ تعالیٰ کے آخری نبی حضرت محمد ﷺ کی حیات مبارکہ کی روشنی میں زندگی بسر کی جائے۔

سوال:اسلام اور تزکیہ نفس کامغربی نفسیات کے ساتھ آپ تقابلی جائزہ کس طرح کریں گے؟

محمد سعیدبٹ: تزکیہ نفس ایک قرآنی اصطلاح ہے۔اسلامی شریعت کی اصطلاح میں تزکیہ کا مطلب ہے اپنے نفس کوان ممنوع معیوب اور مکروہ امور سے پاک صاف رکھنا جنہیں قرآن وسنت میں ممنوع معیوب اورمکروہ کہا گیا ہے۔گویا نفس کو گناہ اور عیب دارکاموں کی آلودگی سے پاک صاف کرلینا اور اسے قرآن وسنت کی روشنی میں محمود ومحبوب اور خوب صورت خیالات وامور سے آراستہ رکھنا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے انبیاءکو جن اہم امورکیلئے بھیجا ان میں سے ایک تزکیہ نفس بھی ہے ۔رسول اکرم پر نوع انسانی کی اصلاح کے حوالے جو اہم ذمہ داری ڈالی گئی اس کے چار پہلو ہیں۔تلاوت آیات،تعلیم کتاب،تعلیم حکمت،تزکیہ انسانی۔ قرآن مجید میں یہی مضمون چار مختلف مقامات پر آیا ہے جن میں ترتیب مختلف ہے لیکن ذمہ داریاں یہی دہرائی گئی ہیں۔تزکیہ نفس کے حصول کیلئے قرآن وحدیث میں وارد بہت سے امور کااختیار کرنا اور بہت سےامور کا ترک کرنا ضروری ہے۔

سوال: شخصیت پرستی پر کیا تبصرہ کریں گے؟

محمد سعیدبٹ: شخصیت پرستی، بت پرستی سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے کیونکہ بت کا دماغ نہیں ہوتا جو خراب ہو جائے۔لیکن جب تم انسان کی پوجا کرتے ہو تو وہ فرعون بن جاتا ہے۔کسی انسان کو پسند کرنا، سراہنا، محبت، عزت احترام کرنا اک نارمل سی بات ہے لیکن تعریف و توصیف کے حوالہ سے حدود عبور کر جانا اک انتہائی ابنارمل اور غیر متوازن رویہ ہے۔

بطور مسلمان ہمیں تو یوں بھی ہر مرحلہ ، مقام پر اعتدال اور میانہ روی کا حکم ہے اور یہاں تک کہ عبادت میں بھی ان رویوں کو ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے لیکن بہت سے لوگ ”ہیرو ورشپ“ کی لپیٹ میں آکر خود کو اس حد تک گرا لیتے ہیں کہ ان کی ذہنی، جسمانی، جذباتی، سماجی، روحانی ہیئت، ساخت اور تربیت پر رحم آنے لگتا ہے کہ یہ انداز کسی طرح بھی انسان کے شایان شان نہیں کیونکہ اس طرح کے بیمار رویے پورے کے پورے معاشرہ کو لے ڈوبتے ہیں۔

شخصیت پرستی، بت پرستی سے بھی چار ہاتھ آگے کا روگ ہے۔بتوں کو پوجنے والے بھی جانتے ہیں کہ مٹی، پلاسٹک، لکڑی یا کسی دھات سے بنا ہوا بت نہ دیکھ سکتا ہے نہ سن سکتا ہے نہ چھو سکتا ہے نہ محسوس کر سکتا ہے اور تو اور اپنے منہ پر بیٹھی مکھی بھی نہیں اڑا سکتا تو اس کے سامنے جو مرضی کرتے رہو، اس کا دماغ خراب نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ بےدماغا ہر قسم کے جذبات سے عاری ہوتا ہے۔

شخصیات کی ”پرستش“ ان کے دماغ خراب کر دیتی ہے اور ایک معمولی سا فانی انسان خود کو مافوق الفطرت سمجھنے کی حماقت میں مبتلا ہو کر خود اپنا بیڑہ غرق کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے ”پجاریوں “کو بھی لے ڈوبتا ہے۔ شخصیت پرستی بنیادی طور پر ایک منفی رویہ ہے جس میں حق و اِنصاف اور عقل و فکر کے تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کر کسی مذہبی و سیاسی لیڈر سے اس قدر محبت و عقیدت پیدا کی جاتی ہے کہ اس کے قول و عمل کو رفقاءاور پیروکاروں میں نفسیاتی سطح پر عقیدہ کا درجہ مل جاتا ہے۔شخصیت پرستی کی اسلام میں سختی سے ممانعت ہے۔

سوال: عقیدت و اِحترام کا قرآنی معیارکیا ہے؟

محمد سعید بٹ: اسلامی تعلیمات کے مطابق دینی اور سیاسی رہنما خواہ عقیدت و احترام کے کتنے ہی اُونچے منصب پرفائز ہو جائیں اختلاف و تنقید سے ماورا نہیں ہوتے۔ غیر مشروط اِطاعت و فرماں برداری صرف اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کی ہے۔ باقی سب سے عقیدت و محبت مشروط ہے۔

سوال: کیا مقام محبت اور مقام بندگی میں فرق ہے؟

محمد سعیدبٹ: بندگی وہی معتبر ہے جس کی بنیاد اللہ کی محبت پر ہو۔ جو بندگی اللہ کی محبت کے بغیر ہو وہ جھوٹ، دھوکہ، فراڈ اور بے کار ہے۔

محمد قیصر چوہان

سینئر صحافی،مصنف اورنیشنل وانٹرنیشنل امور،سپورٹس سمیت دیگر موضوعات پر لکھتے ہیں جبکہ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے انٹرویوز بھی کرتے ہیں۔

محمد قیصر چوہان