تازہ ترین

پاکستان کو ورلڈ کپ جتوانا میرا مشن ہے۔ سرفراز احمد

sarfraz ahmed
  • واضح رہے
  • اپریل 23, 2019
  • 2:26 صبح

قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان نے کچھ عرصہ قبل لاہور میں ’’واضح رہے‘‘ کو دیئے گئے خصوصی انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ میگا ایونٹ میں نمبر پانچ پوزیشن پر بیٹنگ کریں گے۔

س: ورلڈ کپ کے حوالے سے آپ نے کیا منصوبہ بندی کر رکھی ہے؟

ج: پاکستانی ٹیم کے فتوحات کے تسلسل کو برقرار رکھنا میری ترجیح ہے۔ میں خود کو ہمیشہ ایک ٹیم مین کی حیثیت سے دیکھتا ہوں۔ میرا مشن ایک ایسی ٹیم بنانا ہے جو پوری دنیا میں ناقابل تسخیر ہو۔ سلیکٹرز، کوچنگ اور ٹیکنیکل اسٹاف کی مشاورت سے ورلڈ کپ کیلئے متوان ٹیم بنائی جائے گی اور مجھے یقین ہے کہ ہم چیمپئنز ٹرافی کی طرح ورلڈ کپ کا ٹائٹل بھی جیتیں گے۔ میں نے اپنے حوالے سے فیصلہ کیا ہے کہ نمبر پانچ پر بیٹنگ کروں گا۔ لیکن اگر ضرورت پیش آئی اور ٹیم مشکل میں ہوئی تو کسی بھی پوزیشن پر بیٹنگ کیلئے تیار ہوں۔

س: آپ کا اپنا فیورٹ کپتان کون ہے؟

ج: ہر کپتان کا اپنا اسٹائل ہوتا ہے، میں جارح مزاج کپتان ہوں، مگر میرے پسندیدہ کپتان مصباح الحق ہیں، جو مشکل سچویشن میں بھی ہمیشہ پُرسکون رہتے تھے۔ مصباح الحق نے جس کمٹمنٹ کے ساتھ پاکستان کرکٹ ٹیم کی کپتانی کے فرائض سر انجام دیئے وہ میرے لئے رول ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ عمران خان بھی آئیڈیل ہیں۔ میری پوری کوشش ہے کہ میں عمران خان کی طرح ورلڈ کپ جیتوں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی ٹیم ورلڈ کپ جیتنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ ہم بھارت کے خلاف ہی نہیں بلکہ ورلڈ کپ کے تمام دس میچ جیتنے کی کوشش کریں گے، فتوحات کے تسلسل کو برقرار رکھ کر ہی ہم ورلڈ چیمپئن بن سکتے ہیں۔ اسی طرح افغانستان اور بنگلہ دیش کیخلاف ہونے والے وارم اپ میچز میں بھی جان لڑا دیں گے۔

س: آپ کے خیال میں کیا خوبیاں طرز کپتان کو بہتر بناتی ہیں؟

ج: کمیونکیشن دراصل قیادت کا اہم ترین حصہ ہے اور کھلاڑیوں کو نگاہ میں رکھنا کہ وہ کیا کرنا پسند کرتے ہیں۔ ان کیلئے کیا درست ہے اور کیا نہیں۔ اچھا کپتان تمام کھلاڑیوں کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے ان کو اچھا پرفارم کرنے پر اکساتا ہے اور میچ کی آخری گیند تک فائٹ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

س: آپ نے کرکرٹ کب کھیلنا شروع کی اور قومی ٹیم تک آنے میں کتنا وقت لگا؟

ج: میں نے کرکٹ کھیلنے کا باقاعدہ آغاز 2001 میں کیا تھا اور کے سی سی اے زون نمبر 6 کی طرف سے انڈر 15 کرکٹ کھیلا تھا۔ میں ابتدا میں پاکستان کرکٹ کلب کی جانب سے کھیلا جہاں کوچ اعظم خان نے میرے کھیل کو نکھارنے میں بہت مدد کی۔ جب میں اعظم بھائی کے پاس گیا تھا تو مجھ میں کھیل کے لحاظ سے کئی خامیاں تھیں اور میں وکٹ کیپنگ بھی زیادہ اچھی نہیں کرتا تھا، بلکہ میں صرف بیٹنگ کی طرف توجہ دیتا تھا مگر کلب کے کوچ افتخار احمد کے علاوہ ظفر بھائی نے میری بھرپور رہنمائی کی۔ اسی طرح میرے ساتھ کھیلنے والے چند فرسٹ کلاس کرکٹرز نے بھی مجھے بہتر کھلاڑی بننے میں مدد فراہم کی اور آج میں جو کچھ بھی ہوں ان لوگوں کی وجہ سے ہی ہوں۔ میں نے ظہور بوائز اسکول کی طرف سے اسکول کرکٹ کھیلی۔ اس کے بعد جناح کالج کی طرف سے انٹرکالجیٹ کرکٹ بھی کھیلی۔ جبکہ ڈومیسٹک سطح پر کے ای ایس سی سمیت پی آئی اے اور کراچی کیلئے بھی کرکٹ کھیلی۔ میرے خاندان میں کچھ لوگ کلب کرکٹ کی سطح تک کھیلے ہیں، مگر میں پہلا فرد ہوں جو نیشنل لیول پر کھیل رہا ہے۔

س: کرکٹ کیریئر کے آغاز پر آپ کا آئیڈیل کون سا وکٹ کیپر تھا؟

ج: پاکستان کے معین خان اور راشد لطیف ہی میرے آئیڈیل تھے اور ہیں۔ ان عظیم وکٹ کیپرز کے مفید مشوروں پر عمل کرنے سے ہی میری وکٹ کیپنگ میں بہتری آئی۔ پاکستان سُپر لیگ میں سری لنکا کے سابق کپتان کمار سنگاکارا میری کپتانی میں کھیلے تھے اور اس دوران اس عظیم وکٹ کیپر بیٹسمین نے مجھے وکٹ کیپنگ اور بیٹنگ کے شعبے میں نکھار لانے کے علاوہ کپتانی کے فن کے گر بھی بتائے تھے، جن پر میں ان کا بے حد مشکور ہوں۔

س: بالنگ، بیٹنگ، فیلڈنگ اور وکٹ کیپنگ میں سب سے زیادہ مشکل شعبہ کون سا ہے؟

ج: بلاشبہ وکٹ کیپنگ کا شعبہ سب سے مشکل ترین ہے کیونکہ وکٹ کیپر ایک لمحے کیلئے بھی رلیکس سے نہیں ہو سکتا اسے دوسرے کھلاڑیوں کی نسبت زیادہ الرٹ رہنا پڑتا ہے۔ چار روزہ میچ یا ٹیسٹ کرکٹ میں تو پورا دن وکٹوں کے عقب میں اٹھنا بیٹھنا پڑتا ہے اور زرا سی بھی کوتاہی سے کیچ ڈراپ یا اسٹمپ مس ہو سکتا ہے۔

س: وکٹ کیپر اور بالخصوص کپتان ہونے کی حیثیت سے آپ کو ہمہ وقت اپنے بالرز کی حوصلہ افزائی کرنا پڑتی ہے بعض اوقات اس کیلئے آپ بہت زیادہ جذباتی بھی ہوجاتے ہیں؟

ج: میرا جذباتی پن نیچرل ہے۔ لیکن ماضی میں کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے جس کے بعد میں نے اپنے آپ میں ٹھہراؤ لانے کی بہت کوشش کی ہے۔ بحیثیت وکٹ کیپر میں اب بھی اپنے بالرز کی مسلسل حوصلہ افزائی کرتا ہوں، ان کے جذبے کو بڑھا کرتا ہوں۔ یہ میرے فرائض میں شامل ہے اور گیم کا ایک حصہ ہے۔ بعض اوقات جب کوئی بیٹسمین گھبراہٹ کا شکار ہو جاتا ہے تو میں بالر سے کہتا ہوں کہ زیادہ تجربات نہ کرو بلکہ اپنی لائن اور لینتھ پر بالنگ کرو، بیٹسمین خود بخود آؤٹ ہو جاتا ہے۔ اکثر اوقات تو وکٹ کیپر اور بالر کے درمیان آئی کانٹیکٹ ہی کافی ہوتا ہے۔

س: آپ نے اب تک تینوں فارمیٹس میں زیادہ تر رنز پریشر میں کئے ہیں، پریشر ہینڈل کرنے کا فن کس سے سیکھا؟

ج: میں ہمیشہ یہ ذہن بنا کر جاتا ہوں کہ گراﺅنڈ میں سو فیصد کارکردگی دکھانی ہے۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کی طرف سے کھیلتے ہوئے قوم اور میڈیا کا پریشر ہوتا ہے، جبکہ کپتانی کا پریشر اس سے بھی کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ لوگ آپ سے اچھی کارکردگی دکھانے کی توقع کر رہے ہوتے ہیں تو یہ دباؤ قدرتی امر ہے۔ اسی لئے مجھے پریشر میں پرفارم کرکے زیادہ مزہ آتا ہے۔

س: 2013 میں جب آپ کو ٹیسٹ ٹیم سے ڈراپ کر دیا گیا تھا تو آپ اپنا مستقبل کیا دیکھ رہے تھے؟

ج: ٹیسٹ ٹیم سے ڈراپ ہونے کے بعد میں اپنے کیریئر کو ختم ہوتا ہوا دیکھ رہا تھا اس لئے خاصہ پریشان بھی تھا، لیکن ان حالات میں پاکستان کرکٹ کلب کے کوچ اعظم خان، ظفر بھائی، کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے مالک ندیم عمر اور منیجر معین خان نے میرا حوصلہ بڑھایا اور میرے کھیل میں موجود خامیوں کی نشاندہی کرکے انہیں دور کرنے میں میری مدد کی۔ ان کی بروقت رہنمائی نے ہی میرے ڈوبتے ہوئے کیریئر کو بچایا۔ اور آج یہ وقت ہے کہ میں ورلڈ کپ میں اپنی ٹیم کی قیادت کروں گا۔

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے