”واضح رہے“ نے گرین پاکستان موومنٹ پارٹی کے چیئرمین عبدالہادی کاکڑ ایڈووکیٹ سے گزشتہ دنوں بلوچستان ہائی کورٹ میں ملاقات کی، اس موقع پر سپریم کورٹ سابق صدر علی احمد کرد بھی موجود تھے، اس ملاقات میں ہونے والی گفتگو قارئین کی خدمت میں حاضر ہے۔
واضح رہے: پاکستانی معاشرے میں نئی سے اسی جماعت بنا کر غریب لوگوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے کام کرنا کانٹوں پر چلنے کا نام ہے، آپ نے اس راستے پر چلنے کا انتخاب کیوں کیا؟
عبدالہادی کاکڑ: پاکستان کی پارلیمنٹ جاگیرداروں، وڈیروں، نوابوں اور سرمایہ داروں کے ہاتھوں یرغمال ہے۔ ملکی سیاست پر وڈیروں، جاگیرداروں، نوابوں اور سرمایہ داروں کو قابض دیکھتا ہوں تو میرا دل کڑھتا کہ یہ لوگ تو ہمارے معاشرے کے ترجمان نہیں ہیں یہ تو غریب کے مسائل سے واقف ہی نہیں۔ رات کو اے سی والے کمرے میں شان سے سونے والا گرمی میں بھٹے پر اینٹیں پکانے والے مزدور کے مسائل کیونکر جان سکتا ہے۔
طبقاتی کشمکش نہ صرف سیاسی جماعتوں میں ہے بلکہ ہمارے معاشرے کی رگوں میں سرایت کر چکی ہے۔ جاگیر دار، نواب، وڈیرہ اور سرمایہ دار طبقہ کسی صورت غریب کو آگے بڑھتا نہیں دیکھ سکتا۔ یہ لوگ یہی چاہتے ہیں کہ غریب کارکن گلیوں میں دھکے کھائے، الیکشن کے دوران نعرے لگائے، ووٹ مانگے اور لڑائی جھگڑے کرے اور ان نام نہاد سیاستدانوں کو کندھوں پر اُٹھائے۔
ہمارے معاشرے میں غریب لوگوں کو برابر کا شہری نہیں سمجھا جاتا اور اس کے ساتھ شروع دن سے ہی امتیازی سلوک ہو رہا ہے۔ مزدور طبقے کی انتھک محنت کی بدولت ہی ملکی صنعتیں، کارخانے، انڈسٹریز چلتی ہیں۔ محنت کش طبقے کی وجہ سے ہی سرمایہ دار صنعت کار اور اس کے بچے خوشحال زندگی بسر کرتے ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں محنت کش طبقے اور نوجوانوں کا استحصال دیکھ کر میں نے یہ فیصلہ کیا محنت کش طبقے اور نوجوان نسل کو سرمایہ دار، جاگیردار اور صنعت کار کے استحصال سے نجات دلاؤں گا۔ اور یوں میں نے گرین پاکستان موومنٹ پارٹی کی بنیاد رکھی۔
واضح رہے: نوجوان نسل کو سماجی برائیوں سے بچا کر ملکی ترقی کیلئے آرگنائز کرنے کے حوالے سے گرین پاکستان موومنٹ پارٹی کیا اقدامات کر رہی ہے؟
عبدالہادی کاکڑ: گرین پاکستان موومنٹ پارٹی کا مشن ملک کی نوجوان نسل میں سماجی بہبود کا جذبہ پیدا کرنا، نوجوانوں میں اعتماد کی بحالی اور قومی خدمت کے جذبے کو فروغ دے کر تعمیر وطن کی جدوجہد میں شریک کرنا، نوجوانوں کو معاشرے میں بڑھتی ہوئی اخلاقی اور جنسی بے راہ روی سے بچانا، سماجی اور معاشی استحصال کا خاتمہ کرنا، نوجوانوں کو منشیات کی لعنت سے بچانا، نوجوانوں کو قیام امن کیلئے کوشاں کرنا، نوجوانوں کی کیریئر کونسلنگ، بے روزگاری کے خاتمے کیلئے عملی کاوشیں، قدرتی آفات میں خلق خدا کی خدمت، نوجوانوں میں جمہوری ریوں او رقائدانہ صلاحیتوں کا فروغ ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنے کیلئے عملی کاوشیں کرنا شامل ہے۔
گرین پاکستان موومنٹ پارٹی ایک علاقائی یا خاص قسم کے مذہبی یا سیاسی نظریاتی افکار رکھنے والی پارٹی نہیں بلکہ یہ پاکستان میں بلا امتیاز رنگ و نسل، علاقہ کے معاشرے میں امن، محبت، تشکیل کردار، خدمت انسانیت، تعمیر وطن اور اصلاح معاشرہ کیلئے مصروف عمل پارٹی ہے۔ جو نوجوان نسل کی روحانی، فکری، نفسیاتی، علمی، فنی، معاشی اور سماجی تربیت کا فریضہ سر انجام دے رہی ہے۔ نشہ کی لعنت نوجوانوں کو سماجی برائیوں کی طرف دھکیل دیتی ہے اور کئی گھرانوں کی تباہی کا باعث بنتی ہے۔ گرین پاکستان موومنٹ پارٹی آگاہی مہم چلاتی ہے جس کے تحت نشہ کے خلاف نوجوانوں کو شعور دیا جاتا ہے۔
واضح رہے: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ پاکستانی معاشرے میں جمہوریت پروان چڑھ رہی ہے؟
عبدالہادی کاکڑ: بدقسمتی سے پاکستانی معاشرہ حقیقی جمہوریت سے ناآشنا ہے، حکمرانوں اور سیاستدانوں کے رویوں میں جمہوریت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ غریب کے ووٹ سے منتخب ہو کر صوبائی اور قومی اسمبلی میں پہنچنے والے اراکین غریب عوام کی فلاح و بہبود کیلئے قانون سازی اور اقدامات کرنے کے بجائے ان کا استحصال کر رہے ہیں۔ ان کرپٹ سیاستدانوں نے غریب عوام کو پینے کے صاف پانی، تعلیم و صحت سمیت دیگر ضروریات زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم رکھا ہوا ہے۔ موجودہ سیاسی اور معاشی نظام بالکل ناکارہ، گلا سڑا، فرسودہ اور عوام دُشمن ہے۔ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔
ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کا سارا وقت اقتدار کی جنگ لڑنے میں صرف ہو جاتا ہے انہیں عوامی فلاح کی کوئی فکر نہں۔ آئین و قانون کی بالا دستی اور احترام نہ ہونے سے ہی مارشل لاء لگے اور وی آئی پی کلچر پروان چڑھا ہے۔ ملک کا آئین قرآن و سنت کو سپریم لاء قرار دیتا ہے اور یہ آئین ملک میں اسلامی قوانین کے نفاذ کا حکم دیتا ہے لیکن بد قسمتی سے کسی حکمران نے پاکستان کے آئین پر اس کی روح کے مطابق عمل نہیں کیا۔ شخصیت پرستی پر مبنی سیاست پاکستان میں آئین و قانون کی بالادستی اور عوام کی خوشحالی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
واضح رہے:آپ نے جن مسائل کی نشاندہی کی ہے ان سے عوام کو نجات کس طرح مل سکتی ہے؟
عبدالہادی کاکڑ: دیانتدار، باصلاحیت، مخلص اور محب وطن حکمران ملک کو گھٹا ٹوپ تاریکیوں، جہالت، غربت اور افلاس کی چکی سے نکال کر عوام کو ترکی، سنگاپور، ملائیشیا، کے برابرمعیار زندگی مہیا کر سکتے ہےں۔ پاکستان کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے والی بیورو کریسی، ٹیکس چوروں، موجودہ و سابق ارکان اسمبلی سے ہڑپ کردہ قومی دولت کو سپریم کورٹ نکلوانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ قومی اداروں میں اربوں روپے کی کرپشن کر کے بنائے گئے اثاثوں کو بحق سرکار ضبط کیا جائے۔ میرٹ پر بھرتیاں کی جائیں۔ عوام کو انصاف ان کے گھر کی دہلیز پر دیا جائے۔
واضح رہے:پاکستان کا سیاسی نظام درست کرنے کیلئے کس قسم کے اقدامات ہونے چاہئیں؟
عبدالہادی کاکڑ: الیکشن کے نظام کو بدلنا ہوگا۔ ایسی قانون سازی ہونی چاہیے جس کے مطابق تمام سیاسی پارٹیاں الیکشن کمیشن کو اپنے اُمیدواروں کی لسٹ فراہم کریں۔ جس میں متناسب نمائندگی کا نظام متعارف کرایا جائے تمام پارٹیاں معاشرے کی ہر کلاس پر مشتمل لوگوں کو اُمیدواروں کی لسٹ میں شامل کریں تاکہ معاشرے کے تمام طبقات کو صوبائی وقومی اسمبلی میں نمائندگی کا موقع مل سکے۔ اسی طرح پاکستان میں ہر دو کروڑ کی آبادی پر ایک صوبہ بنایا جائے، تاکہ ضلع لیول پر ترقی کی تحریک شروع ہوسکے۔
اگر آپ یورپ کے ممالک کو دیکھیں تو کئی ممالک کی آبادی دو کروڑ سے بھی کم ہے۔ صوبے کا گورنر امریکہ کی طرح عوام کے ووٹ سے منتخب ہو۔ اسی طرح ضلع میں منتخب ڈسٹرکٹ چیئرمین ہو، ہریونین کونسل 50 ہزار آبادی پر مشتمل ہو۔ جہاں پرگریڈ 17 کا زراعت آفیسر بھی موجود ہو۔ ہریونین کونسل اپنی آبادی کا کمپیوٹرائزڈ ریکارڈ رکھے گا اور تمام تر ترقیاتی کام کرانے کی پابند ہو گی۔
واضح رہے: پاکستان کو کرپشن فری بنانے کیلئے آپ کے پاس کیا فارمولا ہے؟
عبدالہادی کاکڑ: خرابیوں کی اصل جڑ کرپشن اور کرپشن کے بل بوتے پر قائم یہ ظالمانہ نظام ہے۔ کسی بھی ملک کی معیشت کا دارومدار محب وطن قیادت کے فیصلوں اور ان پر عملدرآمد پر ہوتا ہے۔ پاکستان کو وجود میں آئے 73 برس بیت گئے ہیں مگر بد قسمتی سے آج تک اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہو سکا۔ اس کی بنیادی وجہ حکمرانوں کے اللے تللے، قومی خزانے کی لوٹ مار، کرپشن اور اختیارات کا ناجائز استعمال ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس وقت تک پاکستان کی ترقی اور اس کے عوام خوشحال نہیں ہو سکتے جب تک میرٹ کی پاسداری، کرپشن کا خاتمہ اور کرپٹ عناصر کا مکمل قلع قمع نہیں کردیا جاتا۔