تازہ ترین

کاروبار دیر سے کھولنا بھی ہمارے زوال کا سبب ہے: شرجیل گوپلانی

karobar deir se kholna bhi hamare zawal ka sabab hai sharjil goplani
  • محمد علی اظہر
  • مئی 11, 2021
  • 3:52 شام

دین نے تجارت و کاروبار سمیت زندگی گزارنے کے تمام اصول وضع کئے ہیں، لیکن ہم انہیں اپناتے نہیں ہیں اور خود ہی اپنے لئے مسائل پیدا کرتے ہیں

آل سٹی تاجر اتحاد (رجسٹرڈ) کے چیئرمین اور پاکستان ٹمبر ٹریڈرز ایسوسی ایشن کے صدر شرجیل گوپلانی ان چند تاجر رہنماؤں میں شامل ہیں، جو اپنی مذہبی رائے کا برملا اور دوٹوک اظہار کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ تاجر بھی دین کی تبلیغ کا ذریعہ ہیں، کیونکہ ان کا معاشرے کے ہر طبقہ کے افراد سے واسطہ پڑتا ہے۔

شرجیل گوپلانی کو اس امر پر بھی حیرت ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں دینی قوتوں کو کبھی پنپنے نہیں دیا گیا۔ اور یہود و نصاریٰ کی منشا کے تحت ملک کو چلایا جا رہا ہے۔ انہوں نے ’’واضح رہے‘‘ سے خصوصی انٹرویو میں مختلف دینی، سماجی اور تجارتی موضوعات پر جو گفتگو کی وہ نذر قارئین ہے:

واضح رہے: اسلام اور تجارت یا کاروبار کا آپس میں کتنا گہرا تعلق ہے؟

شرجیل گوپلانی: اسلام اور تجارت کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے۔ اسلام نے تجارت کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔ سود میں جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ اپنا پیسہ انویسٹ کرتے ہیں اور آگے سے منافع لیتے ہیں۔ جبکہ تجارت ایک ایسا ضابطہ عمل ہے، جس میں انسان مال خرید کر فروخت کرتا ہے اور اس سے منافع کماتا ہے۔ اس منافع کو اللہ تعالیٰ نے حلال قرار دیا ہے اور اس میں برکت ہے۔

واضح رہے: ایک عام تاثر ہے کہ جب کسی نے کاروبار کرنا ہوتا ہے تو وہ داڑھی رکھ لیتا ہے۔ اور ظاہر سی بات ہے بہت سے لوگ جھوٹ بول کر بھی اپنا سامان بیچتے ہیں۔ اس حوالے سے آپ کی کیا رائے ہے؟

شرجیل گوپلانی: اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ کاروبار یا تجارت کرنے کی غرض سے لوگ داڑھی رکھتے ہیں تو یہ بات غلط ہے۔ کوئی تاجر داڑھی رکھ کر اپنا مال بیچتا ہے اور اس کا عیب نہیں بتاتا یا بے ایمانی کرتا ہے تو یہ حرکت اللہ تعالیٰ کو بالکل بھی پسند نہیں۔ میرے خیال سے ایسا شخص تاجر کہلانے کے لائق نہیں ہے۔ اسے تاجر کی گنتی میں شمار نہیں کرنا چاہیئے۔ اور ہر جگہ پر اچھے برے لوگ موجود ہوتے ہیں، لیکن یہ تاثر دینا کہ باریش تاجر غلط مال بیچ رہے ہیں، مناسب نہیں ہے۔ ایسے بھی تاجر ہیں جو داڑھی رکھ کر اچھا کام کر رہے ہیں۔ لہٰذا ان چیزوں کو ہمیں مثبت انداز میں دیکھنا چاہیئے۔

واضح رہے: دین کہتا ہے کہ صبح کے وقت میں اپنا رزق تلاش کرو، لیکن پاکستان میں تو کاروبار ہی 12 بجے کھلتا ہے۔ اس پر کوئی فکر انگیز تبصرہ؟

شرجیل گوپلانی: جی بالکل! دین کہتا ہے کہ فجر کی نماز پڑھ کر زرق تلاش کرو اور اپنے کاموں یا کاروبار پر جاکر بیٹھ جاؤ۔ قدرت کا معاملہ بھی یہی ہے۔ آپ دیکھیں کہ چرند پرند صبح صبح اپنے گھونسلوں سے نکل پڑتے ہیں، اللہ تعالیٰ انہیں زرق دیتا ہے۔ اسی طرح دنیا کی دیگر قومیں مثلاً چینی، ملائیشینز، یوپینز جنہوں نے ترقی کی ہے، یہ تمام لوگ صبح سویرے کاروبار پر نکل جاتے ہیں اور دوپہر تک ان کا کام تقریباً سمٹ چکا ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں جو 12 بجے کاروبار کھولنے کا وطیرہ ہے یہ بالکل بھی اچھا نہیں ہے، کیونکہ 12 بجے تو ززوال کا وقت ہوتا ہے۔ ہم عروج کے بجائے جو زوال کی طرف جا رہے ہیں اس کی ایک وجہ بھی یہی ہے۔

واضح رہے: چودھویں اور پندرہویں صدی میں جب عرب باشندے تجارت کی غرض سے جنوب مشرقی ایشیا اور دور افتادہ علاقوں کا رخ کیا کرتے تھے تو ان کے طرز زندگی سے متاثر ہو کر مقامی لوگ اسلام کی طرف راغب ہوتے تھے۔ کیا آج کل کے تاجروں میں ایسی خصوصیات ہیں؟

شرجیل گوپلانی: میں خود انڈونیشیا میں رہا ہوں اور وہاں جو اسلام پھیلا ہے وہ عرب تاجروں کی وجہ سے فروغ پایا ہے۔ اور وہاں پر ان کی بڑی عزت کی جاتی تھی۔ اب ہمارے تاجر ہی نہیں بلکہ مسلمانوں میں وہ خوبی نہیں رہی کہ اسلام سے لوگ متاثر ہوں۔ اب بے ایمانی کا دور دورہ ہے اور لوگوں میں ہوس و حرص بڑھ چکی ہے۔ ہم بہت سی چیزوں میں ایسی غلطیاں کر جاتے ہیں جس کی وجہ سے کاروبار میں بے برکتی ہو رہی ہے اور ہم پر جو مذہبی ذمہ داری ہے اس میں بھی غفلت ہو رہی ہے۔

زمانہ قدیم میں تبلیغ علمائے کرام کے ساتھ ساتھ تاجروں کے ذریعے بھی ہوتی تھی۔ جبکہ جہادی لشکر بھی صلہ رحمی سے پیش آکر دین کی تبلیغ میں کلیدی کردار ادا کرتے تھے، مگر اب ان تینوں معاملات میں بہت زیادہ کمی آگئی ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت ہماری تاجر برادری بھی ایسی نظر نہیں آرہی کہ جس سے متاثر ہوکر غیر مذاہب کے لوگ اسلام کی طرف مائل ہوں۔

واضح رہے: گزشتہ دنوں آپ نے ایک سیاسی مذہبی جماعت کیخلاف حکومتی کریک ڈاؤن کو ظلم قرار دیا۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ حکومت مذہبی قوتوں کیخلاف سخت پالیسی کیوں اپنا ہوئے ہے؟

شرجیل گوپلانی: جس جماعت کے متعلق آپ نے سوال کیا ہے اس پر حکومتی کریک ڈاؤن کی ہم شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔ بنیادی طور پر ہمارے ملک میں یہود و نصاریٰ کی پالیسی چل رہی ہے۔ اور ہمارا جو لبرل طبقہ ہے وہ حکومت پر اثر انداز ہو چکا ہے اور اس وقت سارے معاملات ان کے کنٹرول میں ہیں۔ اشرافیہ اور سیاستدانوں کے بچے یورپی ممالک میں پڑھتے ہیں، ویسا ہی ان کا رہن سہن ہے، وہ اُنہی کے معاملات سے متاثر ہیں، جس کی وجہ سے انہیں مذہبی لوگوں سے نفرت ہے۔ جب بھی انہیں موقع ملتا ہے وہ اس نفرت کا اظہار کرتے ہیں۔

آپ دیکھیں کہ 1952ء اور 1972-73ء میں جو تحریک چلی اسے کس طرح دبایا گیا۔ ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کیلئے بننے والے دینی گروپ، تنظیموں یا جماعتوں کو ہمیشہ ہی دبایا گیا اور ان پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے۔ میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ حکومت میں جو لوگ بیٹھے ہیں انہیں مذہبی طبقے سے نفرت ہے۔ اس کا اظہار جب بھی موقع ملتا ہے، وہ کرتے ہیں۔ وہ خود تو دین کی طرف آنا نہیں چاہتے اور اپنی کوتاہی کی وجہ سے دینی قوتوں سے نفرت کرتے ہیں۔

واضح رہے: فرانس اور اس کے ملعون صدر ماکرون کی جانب سے حضورؐ کی شان میں گستاخی کے بعد ملک میں فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم چلی، جو وقت کے ساتھ ساتھ اپنی شدت کھو رہی ہے۔ اس حوالے سے آپ کا کیا کہنا ہے؟

شرجیل گوپلانی: ایک بہت چھوٹا سا طبقہ فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ کر رہا ہے۔ لبرل طبقہ کبھی بھی اس طرف نہیں آتا۔ ان کی سوچ یہی ہے کہ دین کو باقی معاملات سے الگ رکھا جائے۔ ان کا دین سے واسطہ صرف عید کی نماز، نماز جمعہ یا زیادہ سے زیادہ نمازِ جنازہ تک ہے۔

ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ لوگوں کو آگاہی دی جاتی کہ یہود و نصاریٰ کی مصنوعات کی خریداری سے بچیں، کیونکہ یہی پیسہ ہمارے خلاف استعمال ہوتا ہے۔ اور یہ کہ انتہائی ضروری پروڈکٹس مثلاً جان بچانے والی ادویات کو استعمال کیا جائے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔

مسلمانوں کو ایسی پروڈکٹس کی تیاری میں خود کفیل بنانا چاہیئے، جو یہاں نہیں بنتیں۔ اگر پاکستان میں کوئی چیز نہیں بن رہی تو اسے دیگر مسلمان ممالک سے درآمد کیا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر چاکلیٹس ہیں۔ ایران اور ترکی میں بہترین چاکلیٹس بنتے ہیں، لیکن ہمارے مارکیٹ میں ابھی تک ان کی رسائی نہیں ہے۔

دراصل یہود و نصاریٰ اپنی پروڈکٹ بیچنے کیلئے اس کی قیمت سے زیادہ پیسہ اس کی تشہیر پر خرچ کرتے ہیں۔ ان کی پروڈکٹ کی قیمت اگر ایک روپیہ ہے تو وہ 10 روپے میں اس لئے فروخت ہوتی ہے کیونکہ 6 روپے اس کی ایڈورٹائزمنٹ پر لگتے ہیں۔ ہمارے مسلمان ممالک میں پروڈکٹ کی موثر مارکیٹنگ کا فقدان ہے، لہٰذا اس اہم شعبے کی طرف توجہ دینی چاہیئے۔

واضح رہے: کیا آپ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ حکومت کو اس انتہائی حساس معاملے پر واضح پالیسی اپنانی چاہیے؟

شرجیل گوپلانی: جب تک حکومت اللہ پر توکل نہیں کرے گی ہم کسی بحران سے نہیں نکل سکتے۔ آج ہم جن بحرانوں کا شکار ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے دین کو چھوڑ دیا ہے، اللہ اور اس کے رسولؐ کے رستے کو چھوڑ دیا ہے۔ حکومت کو ایک واضح حکمت عملی اپناتے ہوئے فرانس سے بالکل قطع تعلق کر لینا چاہیئے تھا۔ فرانس جب مسلمانوں کے احساسات زک پہنچا رہا تھا تو حکومت کو جذبہ ایمانی کا ثبوت دینا چاہیئے تھا اور یقیناً اللہ کی مدد آتی، جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔

واضح رہے: بالفرض حکومت فرانس سے تجارتی تعلقات منقطع کرنے کے حق میں نہ ہو تو کم از کم عوام کو ایسا کیا کرنا چاہیے کہ فرانسیسی مصنوعات پر ان کے گھر کے دروازے ہمیشہ کیلئے بند ہو جائیں؟

شرجیل گوپلانی: اس ضمن میں ہمیں اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کرنی پڑے گی۔ یہود و نصاریٰ کا اپنی چیز بیچنے کا طریقہ ظاہری زیبائش ہے، جس کی طرف سادہ لوح افراد کھینچے چلے جاتے ہیں۔ یہ لوگ ہمارے دین کے بھی دشمن ہیں اور مسلمانوں کے بھی دشمن ہیں۔ ہم ان سے جو پروڈکٹ خریدتے ہیں وہ سارا پیسہ ہمارے ہی خلاف استعمال ہوتا ہے۔

تمام تاجر تنظیموں کو اس حوالے سے عوام اور کاروباری افراد کو آگاہی دینے کی ضرورت ہے۔ تمام ایسوسی ایشنز وقتاً فوقتاً اپنی اپنی مارکیٹوں کا دورہ  کریں اور فرانسیسی پروکٹس کی نشاندہی کرکے انہیں بازاروں سے ہٹوائیں۔ پاکستان میں فرانسیسی مصنوعات دو یا ڈھائی فیصد بھی نہیں آتی ہوں گی۔ لیکن اسے بھی روکنا ہوگا اور یہ کام بہت آسان ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ تمام تاجر تنظیمیں حضورؐ کی ناموس کیلئے اپنی مارکیٹوں سے فرانسیسی مصنوعات کا خاتمہ کرا دیں۔

واضح رہے: قارئین کیلئے کوئی پیغام یا دل کی بات کرنا چاہیں گے؟

شرجیل گوپلانی: خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا۔ ہمیں دین نے بہت ہی واضح انداز سے زندگی گزارنے کے اصول بتا دیئے ہیں۔ شرعیت کو ہمیں ہر لحاظ سے اپنی ذاتی زندگی میں لاگو کرنا پڑے گا۔ حکومت شرعیت لاگو کرے نہ کرے ہم اپنے گھروں میں لازمی شرعیت لاگو کریں۔ مثلاً پانچ وقت کی نماز، حق حلال کا کاروبار، رشوت حتی الامکان بچیں، اللہ سے توبہ کریں اور اسی سے مدد مانگیں۔

انشاءاللہ وہ دن دور نہیں ہے کہ جس طرح اسلام آج سے دو صدی پہلے تک دنیا میں چھایا ہوا تھا، دوبارہ اس کی سربلندی ہوگی۔ صرف سو ڈیڑھ سو سال پہلے سلطنت عثمانیہ زوال پذیر ہوئی، ورنہ 6 سے زیادہ براعظموں میں اسلام کا پرچم لہرا رہا تھا، مسلمانوں کی حکومت تھی اور لوگ خوشحال تھے۔

ستم ظریفی یہ کہ مسلمانوں کی حکومت ختم کرنے کے بعد یہود و نصاریٰ پیپر کرنسی لے آئے۔ اسلامی دور میں سونے (گولڈ) میں لین دین ہوتا تھا، جو خالص کاروباری طریقہ ہے اور اسلام ہمیں اس میں کاروبار کرنے کا حق دیتا ہے۔ یہود و نصاریٰ سونے کی کرنسی ختم کرکے پیپر کرنسی لے آئے۔ پھر اس کے بعد پلاسٹک کرنسی اور numerical کرنسی لے آئے۔ آج فٹیف کی ہم پر جو تلوار لٹک رہی ہے وہ اسی کا شاخسانہ ہے۔ بنیادی طور پر پلاسٹک اور نیومیریکل کرنسی پاکستان میں فیل ہو چکی ہے، کیونکہ شرعیت ہمیں کاروبار رقم کے لین دین میں کرنے کا حکم دیتی ہے۔

اس وقت جو جنگ ہے وہ اسلام اور یہود و نصاریٰ کی جنگ ہے۔ اس میں اگر مسلمانوں نے کامیاب ہونا ہے تو شرعیت کو اپنے گھر، کاروبار اور زندگی میں لاگو کرنا ہوگا۔ میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ آئندہ دور سونا، مال مویشی اور زراعت کا آ رہا ہے، اس کے بغیر معیشت نہیں چل سکے گی۔

محمد علی اظہر

محمد علی اظہر نے ایک دہائی کے عرصے میں سب ایڈیٹنگ سمیت اسپورٹس اور کامرس رپورٹنگ میں اپنی صلاحیت منوائی ہے۔ وہ کراچی پریس کلب کے ممبر ہیں اور اردو نیوز ویب سائٹ "واضح رہے" کے بانیوں میں سے ہیں۔

محمد علی اظہر