تازہ ترین

’’انٹرنیشنل کرمنل کورٹ میں کشمیریوں کی نسل کشی کا مقدمہ لڑا جائے‘‘

’’انٹرنیشنل کرمنل کورٹ میں کشمیریوں کی نسل کشی کا مقدمہ لڑا جائے‘‘
  • واضح رہے
  • اگست 18, 2019
  • 12:11 صبح

جسٹس (ر) وجیہہ الدین نے کشمیر کے حوالے سے قائم مشاورتی کمیٹی میں وزیر قانون فروغ نسیم کی عدم شمولیت پر حیرت کا اظہارِ کیا۔ ساتھ ہی خبردار کیا کہ بھارت بین الاقوامی سرحدوں پر محاذ کھول سکتا ہے

بھارتی مظالم اور کشمیریوں کی نسل کشی انٹرنیشنل کرمنل کورٹ میں جانے کا واضح کیس ہیں۔ حکومت نے ملکی و غیر ملکی بین الاقوامی قوانین کے ماہرین سے اب تک کشمیر کی گھمبیر صورتحال پر مشاورت تک گنوارہ نہیں کی۔ تاہم یہ ضرور ہے کہ سلامتی کونسل میں 50 برس بعد کشمیریوں کی آواز پہنچانا پاکستان کی بڑی کامیابی ہے۔ خونخوار اور درندے بھارتی حکمران ملک کے انٹرنیشنل بارڈرز بشمول سمندری حدوں پر حملہ آور ہو سکتے ہیں۔ ہمہ وقت چوکس رہنے سمیت مغربی حدود سے فوجیں ہٹاکر حساس بارڈرز پر تعینات کرنا ضروری ہے۔ یہ بات سپریم کورٹ کے سابق جج اور سیاسی جماعت عام لوگ اتحاد کے چیئرمین جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمد نے ’’واضح رہے‘‘ سے خصوصی انٹرویو میں کہی، جو نذر قارئین ہے:

س: کشمیر میں غیر قانونی آبادکاری کے گھناؤنے بھارتی منصوبے کو ناکام بنانے کیلئے فوری طور پر کن عالمی فارمز سے رجوع کیا جا سکتا ہے؟

ج: عالمی عدالت میں جانے کیلئے بین الاقوامی قوانین کے ملکی و غیر ملکی ماہرین سے مشاورت کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا بھارت کی یکطرفہ کارروائیوں اور سلامتی کونسل کی کئی قراردادوں کی نہ صرف نفی بلکہ ان کی دھجیاں بکھیرنے کے پس منظر میں بھارت کی رضامندی کے بغیر یہ معاملہ عالمی عدالت میں لے جایا جاسکتا ہے یا نہیں۔ تاحال یہ مشاورت تو درکنار ہماری حکومت نے جو 7 رکنی کمیٹی اس سلسلے میں بنائی ہے اس میں اٹارنی جنرل کو تو ضرور رکھا ہے جن کا کام بحث مباحثہ کرنا ہوتا ہے، لیکن آزمودہ قانون دان جو فروغ نسیم کی شکل میں آج کل ہمارا وزیر قانون ہے اسے کسی انجانی مصلحت کی بنیاد پر سربراہی تو کیا اس کمیٹی کی ممبر شپ بھی نہیں دی گئی۔ دوسری بات یہ کہ بھارت نے جب اس نوعیت سے کہ کشمیر میں مسلمانوں کی نسل کشی کی ہوئی ہے اور خود پورے بھارت میں مسلمانوں کی زندگی اجیرن بنا دی گئی ہے۔ ان کی 15 فیصد بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ آبادی کے باوجود ان کی نمائندگی نہ منتخب اداروں میں اور نہ سرکاری دفاتر میں کہیں نظر آتی ہے۔ پھر تقریباً 10 لاکھ فوج اور عسکری قوتیں کشمیر میں لگا کر ایک ایسے علاقے کو خود اپنے آئین کی شقوں 35 اے اور 370 کی نفی کر کے ہڑپ کر جانے کی کوشش، بے حساب لوگوں کا سیکورٹی کے نام پر غائب کر دینا بلکہ صفحہ ہستی سے مٹا دینا، عورت کی عزت تو کیا خود انسانی تقدس کو پامال کر دینا انٹرنیشنل کرمنل کورٹ میں جانے کا واضح کیس بنتا ہے۔ صرف آج سے نہیں بلکہ عرصہ سے یہی معاملہ ہے۔ دیگر امر یہ ہے کہ پاکستان بھارت پر حملہ آور ہونے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ جب کبھی تھا وہ مواقع ہمارے کٹھ پتلی حکمرانوں نے ہوا میں اُڑا دئیے جیتی ہوئی جنگوں کو ہار دیا۔ کشمیر کو آزادی کی طرف لے جا کر ان سے پیٹھ موڑ لی۔ لیکن بھارت کے خونخوار اور درندے حکمران ٹولے سے بالکل یہ توقع ہے کہ وہ کشمیر کا ہوّا دکھا کر ہمارے انٹرنیشنل بارڈرز جیسے سیالکوٹ، لاہور، کھیم کھرن اور سمندری حدود پر حملہ کر سکتا ہے۔ لہٰذا اگر تو افواج کو مغربی سرحدوں سے ہٹاکر کہیں اور تعینات کرنے کا سلسلہ ہے تو کشمیر کے بجائے بین الاقوامی محاذوں کا خیال رکھا جائے۔

س: سفارتی محاذ پر آپ حکومت کی کوششوں کو کامیاب سمجھتے ہیں؟

ج: یقیناً سلامتی کونسل میں پاکستان کا جانا ایک کامیاب عمل ہے۔ جتنا کچھ حاصل کرلیا یہ بھی بڑی بات ہے۔ یہ کام آسان نہیں تھا۔ لیکن اس کو پہلا وار سمجھنا چاہئے۔ ہمیں دوبارہ سلامتی کونسل میں جانے کی تیاری کرنی چاہئے۔ اس میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ سلامتی کونسل کے جو 5 مستقل ممبران ہوتے ہیں ان کی نظر میں ہماری ساکھ بہت اچھی کرنا پڑے گی۔ ان ممالک کے ساتھ ہمارے بہت اچھے تعلقات ہونے چاہئیں۔ ٹرمپ کو ہم نے کسی حد تک رام کرلیا ہے۔ چین کے ساتھ خصوصی تعلقات کو مزید بڑھانا چاہئے۔ سی پیک اور دیگر عوامل کی وجہ سے روس کا بھی ہمارے بارے میں تشخص تبدیل ہوچکا ہے۔ جبکہ فرانس کو موقع شناسی سے ہینڈل کرنے کی ضرورت ہے تو وہاں بھی ہماری بات کا سلسلہ آگے بڑھے گا۔ ادھر برطانیہ میں بہت فعال پاکستانی کمیونٹی ہے اس کو استعمال کرکے برطانوی حکومت کا رجحان بھی اپنی طرف کرنا چاہئے۔ یہ وہ چیزیں جو ہمیں آگے کیلئے سوچنی چاہئیں۔س: آپ کو کشمیر پر سرحد کے دونوں طرف کشیدگی بڑھتی نظر آ رہی ہے؟ج: تاریخ یہ بتاتی ہے کہ کشمیر سے ہٹ کر کے 1965 میں بھی بھارت نے لاہور پر حملے کی ناکام کوشش کی۔ وہ پھر یہ کر سکتا ہے اور اس مرتبہ  مجھے کراچی بھی خطرے میں نظر آتا ہے۔ دفاع کرنے کی اہلیت ہمارے اندر ہے لیکن دشمن کہاں سے حملہ آور ہوگا اس کا بھی ادراک ہونا ضروری ہے۔ خود کشمیر کی جدوجہد کیلئے پیسہ درکار ہے۔ اسلحہ درکار ہے۔ اور محبِ وطن لوگ درکار ہیں جن کی کمی نہیں۔ پیسہ اور مٹیریل وہاں پہنچانا خود کشمیری جو آزاد کشمیر میں بیٹھے ہیں یا بلادِ مغرب میں پھل پھول رہے ہیں، ان کی ذمہ داری ہے۔ جہادی قوتیں موجود ہیں۔ ان کو بروئے کار لائے بغیر کشمیر کے غبارے سے ہوا نکل جائے گی۔ چونکہ براہ راست حملہ نہیں کیا جا سکتا اسی لئے جہادی قوتوں کو بروئے کار لانے کی بہت ضرورت ہے۔ ہم زیادہ سے زیادہ دفاع کر سکتے ہیں اور اس کیلئے بھی آپ کو اندازہ ہونا چاہئے کہ بھارت کہاں منہ مارے گا۔

س: کشمیر میں بھارت ایسی غلطی کیوں نہیں کرے گا؟

ج: کشمیر میں عوام بھی بھارت کیخلاف ہیں۔ آبادیاں بھی ہیں اور ہماری فوج کنٹرول لائن پر موجود ہے، مجھے جو خطرہ لگ رہا ہے وہ یہ ہے کہ سیالکوٹ، لاہور، کھیم کھرن اور کراچی میں بھارت کہیں بھی منہ ماری کر سکتا ہے، اس سے نمٹنے کیلئے ہمیں تیاری کرنی چاہئے۔ یقیناً ہمیں افغانستان کی سرحد پر تعینات فوجوں کو ہٹانا چاہئے اور ان جگہوں پر بھیجنا چاہئے کیونکہ بھارت کشمیر سے توجہ ہٹانے کیلئے کچھ بھی کر سکتا ہے۔ اگر ہم نے کشمیر میں کسی بھی نوعیت کی کارروائی کی، وہاں کے لوگوں کی مدد کی یا مجاہدین کو بھیجا تو بھارت چین سے نہیں بیٹھے گا، کیونکہ وہاں پاگل ٹولہ حکمران بنا بیٹھا ہے۔

س: خودمختار حیثیت کے خاتمے کا بھارتی اقدام کشمیر کیلئے کتنا خطرناک ہے؟

ج: 35 اے اور 370 ختم ہوتا ہے یا نہیں ختم ہوتا بنیادی بات یہ ہے کہ ان دو آرٹیکلز کے ختم ہونے کے بعد وہی صورتحال پیدا ہو گئی ہے جو 1948 میں تھی۔ کشمیر کے بارے میں کوئی کہہ ہی نہیں سکتا ہے کہ وہ متنازع علاقہ نہیں ہے کیونکہ بھارت نے تو 26 اکتوبر 1947 کو مہاراجہ ہری سنگھ سے ہونے والے معاہدے کی بھی نفی کر دی ہے۔ لہٰذا بھارت تو قابض ہے اور قابضین کے ساتھ جو بھی طریق کار بین الاقوامی قوانین کے تحت اختیار کیا جاتا ہے پاکستان اس کا مجاز ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ہم اس کی قابلیت اور اہلیت نہیں رکھتے۔ ہمیں اپنا طریقہ کار کو بدلنا ہوگا۔ ہمیں کشمیریوں کے ذریعے ہی کشمیر میں اندرونی طور پر جو بھی ہم ایک زمانے میں کرتے تھے اسے بہت احسن طریقے سے دوبارہ کرنے کی ضرورت ہے۔

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے