تازہ ترین

حکومت کان کنوں کی زندگیوں کا تحفظ یقینی بنائے

koyla kaano mai communication ka jadeed nizaam nafiz kiyya jaye
  • محمد قیصر چوہان
  • جولائی 22, 2023
  • 5:58 شام

حکومت کوئلہ کانوں میں کمیونیکیشن کا جدید نظام نافذ کرائے، کان کنوں کا تحفظ یقینی بنانے کیلئے حفاظتی آلات کا استعمال یقینی بنایا جائے،معائنہ سسٹم ڈیجیٹلائزیشن اور ہنگامی حالات کیلئے ریسکیو اسکواڈ قائم کیا جائے ،مائنز انسپکٹروں کی تعداد کو بڑھایا جائے

محنت کشوں کے مفادات اور حقوق کے تحفظ کی جنگ جرات، بہادری اور استقامت کے ساتھ لڑنے والے سلطان محمد خان نے اپنی زندگی ٹریڈ یونین اور مزدوروں کی خدمت کیلئے وقف کر رکھی ہے۔ وہ محنت کشوں کا معیار زندگی بلند کرنے کیلئے کوشاں ہیں اور محنت کش طبقے کی صحت، پیشہ ورانہ تحفظ و سلامتی کے سلسلے میں قانون سازی کے حوالے سے بھی شعور اُجاگر کرنے کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ حیران کن قائدانہ صلاحیتوں کے مالک سلطان محمد خان اپنے مضبوط حوصلوں اور بے مثال کردارکے ذریعے حالات کے دھاروں کا رخ موڑ دیتے ہیں۔ پاکستان اور محنت کشوں سے ان کی بے پناہ محبت ہر مصلحت سے بالاتر نظر آتی ہے، بطور ٹریڈ یونین لیڈر ان کا کیریئر مزدوروں کے مفادات اور ان کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے معرکہ آرائیوں سے بھرا پڑا ہے۔کوئٹہ میں رہائش پذیر سلطان محمد خان جاپان ،آسٹریلیا ، جرمنی اورسری لنکا سمیت درجن سے زائد ممالک کی مائنز کا دورہ کرچکے ہیں۔ گزشتہ دنوں نمائندہ ” واضح رہے “ نے کوئٹہ میں پاکستان سینٹرل مائنز لیبر فیڈریشن کے مرکزی سیکرٹری جنرل اور آل پاکستان لیبر فیڈریشن کے مرکزی صدر سلطان محمد خان کے ساتھ ایک نشست کا اہتمام کیا اس دوران جو بات چیت ہوئی وہ قارئین کی خدمت میں حاضر ہے۔

سوال: پاکستان کے کن علاقوں میں کوئلے کے ذخائر موجود ہیں؟

سلطان محمد خان: پاکستان کوئلے کے ذخائر کے لحاظ سے دنیا کا ساتواں بڑا ملک ہے ۔اس کے چاروں صوبوں میں 185 ارب ٹن سے زائدکے ذخائر موجود ہیں۔ پاکستان میں کوئلہ تھرمل بجلی پیدا کرنے، اینٹیں پکانے اور گھریلو ضروریات پوری کرنے کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ اس وقت پنجاب میں کوہستان نمک کے علاقے میں زیادہ تر کوئلہ ڈنڈوت ،پڈھ ، مکڑوال اور چواسیدن شاہ کے مقامات سے نکالا جاتا ہے۔صوبہ سندھ میں کوئلے کی کانیں تھر، سارنگ اور لاکھڑا میں واقع ہیں۔صوبہ خیبرپختونخوا میں ہنگو، اورکزئی ایجنسی کے علاقوں اپر، لوئر اور سینٹرل اورکزئی کے مقامات پر تقریباً 200 کے قریب کوئلے کے کانیں موجود ہیں۔ تاہم اعلی قسم کا کوئلہ شیخان قبیلے کے علاقے میں پایا جاتا ہے جہاں تقربناً 100 سے زیادہ کانیں پائی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ خادی زئی، مشتی اور کلایہ میں بھی درجنوں کانیں موجود ہیں،صوبہ بلوچستان میںدکی،مچھ،بولان ، سورنج، چملانگ، ہرنائی ،خوست، شارگ ، ڈیگاری اورشیریں آب سمیت دیگر علاقوںمیں کوئلے کی کان کنی ہورہی ہے۔ بلوچستان کے پہاڑوں سے نکلنے والے کوئلے کا شمار بہترین کوئلے میں کیا جاتا ہے۔

سوال: ملک بھر میں کان کنی سے وابستہ مزدوروں کی تعداد کتنی ہے؟

سلطان محمد خان: اس وقت پاکستان میںتقرےباً 5 لاکھ مائنز اےنڈ منرل ورکر ز ہیں جو پہاڑوں کا سینہ چیر کر اس میں سے مختلف دھاتیں نکال کر پاکستان کی معیشت کو مضبوط بنانے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں ۔ کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے سنہرے لوگ جن کے چہروں پر کوئلے کے سیاہ دھبے ہوتے ہیں مگر ان کی آنکھیں اُمید سے روشن ہوتی ہیں، وطن عزیز کو روشن کرنے کی اُمید، ارض پاک کی صنعتوں کا پہیہ چلانے کی آس، پاک سرزمین کو ترقی یافتہ اور خوشحال بنانے کے خواب لئے یہ کان کن سینکڑوں فٹ زیر زمین اپنے کام میں مصروف ہوتے ہیں، جو نہ صرف اپنے وطن کی خدمت میں مصروف ہوتے ہیں بلکہ اپنے گھر والوں کی پرورش کی ذمہ داری بھی ادا کر رہے ہوتے ہیں۔بدقسمتی سے پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں کان کنوں کیلئے حفاظتی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں اور کوئلے کے مزدور کو درپیش بے پناہ مسائل حل کرنے کیلئے کوئی روڈ میپ بھی نہیں ہے۔ پاکستان میں بھی مائنز ورکرزکو صحت اور تحفظ کے حوالے سے بہت ساری مشکلات درپیش ہیں، حادثات کی صورت میں بڑی تعداد میں کان کن جاں بحق ، زحمی اور معذور بھی ہوتے ہیں۔جن کمپنیوں کے ساتھ وہ مزدور وابستہ ہیں وہ ان ورکرز کی صحت و سلامتی کا کوئی خیال نہیں رکھتے۔

سوال:کوئلے کی کانوں میں حادثات کی کیا وجوہات ہیں؟

سلطان محمد خان: غیر قانونی مائننگ کی وجہ سے کوئلے کی کانوں میں حادثات کے باعث اموات کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے محنت کش اپنی جان داو ¿ پر لگا کر کام کرتے ہیں، کوئلے کی کانوں میں حادثات معمول بن گئے ہیں،ٹھیکیداری سسٹم کی وجہ سے کان کنی کے شعبے میں مائنز لیبرسیفٹی قوانین پر عملدرآمد نہیں ہو رہا۔کوئلے کی کان میں پانچ اقسام کی گیس پائی جاتی ہے ،کئی کانیں چار ہزار سے چھے ہزار فٹ گہری ہیں ۔ قانون کے مطابق کان کے اندر جانے والا راستہ 7 بائے 6 فٹ چوڑا ہونا چاہیے لیکن لاقانونیت اور پیسہ بچانے کی وجہ سے نیچے جاتے جاتے یہ راستہ چھوٹے سے چھوٹا ہوتا چلاجاتا ہے۔ انگریزوں کے دور میں قانون پر عمل درآمد ہوتا تھا اور قانون کے مطابق ایک متبادل راستہ بھی بنایا جاتا تھا جسے وینٹی لیشن ”ہوائی “کہتے تھے۔

پاکستان میںکوئلے کی اکثریت کانوں میں وینٹی لیشن یا ہوائی کا مناسب انتظام نہیں ہے اور نہ ہی کانوں میں میتھین گیس اور کاربن مونو آکسائیڈ گیس کی مناسب مانیٹرنگ کا نظام ہے،جس کے سبب اکثر اوقات گیس کے اخراج سے کان منہدم ہونے کے واقعات پیش آتے ہیں جس کے نتیجے میں غریب مزدور شہید ہو جاتے ہیں۔دنیابھر میںکانوں میں گیسوں کی موجودگی کا پتہ لگانے کیلئے ڈیجیٹل ڈیٹیکٹرز ہوتے ہیں لیکن بلوچستان کی کانوں میں ان کے استعمال کو یقینی بنانے کیلئے اقدامات کرنے کی بجائے پرانے طریقوں کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ اگر کان کے اندر 15 سے 20 فیصد گیس ہو تو اس سے ایک بہت بڑا دھماکہ ہو سکتا ہے۔ جس کے نتیجے میں پوری کان بھی بیٹھ سکتی ہے۔وینٹی لیشن ”ہوائی “کا راستہ کسی ایمرجنسی صورت حال میں بھی استعمال کیا جاتا تھا۔لیکن کوئلے کی کانوں کے مالکان اور ٹھیکیداروں نے پیسے بچانے کیلئے یہ متبادل انتظام ختم کردیا ہے۔ اس کے علاوہ کانوں کی چھت اور ڈھانچے کو سہارا دینے کیلئے سفیدے کی لکڑی استعمال کی جاتی ہے جو ہلکا سا جھٹکا بھی برداشت نہیں کرپاتی اور پوری کان منہدم ہوجاتی ہے۔ بلوچستان میں جدید صنعتیں نہ ہونے کی وجہ سے کوئلے کی کان کنی یہاں کی سب سے بڑی صنعت ہے۔ آئے روز ہونے والے حادثات کی روک تھام کیلئے سرکاری سطح پرکسی بھی قسم کے اقدامات نہیں کئے جاتے،جو افسوس ناک امر ہے۔

سوال:کوئلے کی کانوں حادثات کی روک تھام اورکان کنی کے شعبے سے وابستہ مزدوروں کی پیشہ ورانہ صحت و سلامتی کو ممکن بنانے کیلئے کن اقدامات کی ضروت ہے؟

سلطان محمد خان:کوئلے کی کانوں سے ٹھیکیداری نظام ختم کرکے حکومت ، مائنز مالکان، مزدور اورچیف مائنز انسپکٹر اپنی ذمہ داریاں ایمانداری سے نبھائیں تو کوئلے کی کونوں میں حادثات کی روک تھام کے ساتھ ساتھ پیشہ ورانہ صحت و سلامتی سمیت مائنز ورکرز کے حقوق کا تحفظ ممکن ہے۔کوئلے کی کانوں میں پیش آنے والے حادثات کی روک تھام کیلئے ہر ملک کی سیفٹی اینڈ ہیلتھ پالیسی ہونی چاہئے ،ورکرز کو سیفٹی کے تمام آلات فراہم کرنا ،رجسٹرڈ میں نام درج کرناکمپنی مالک کی بنیادی ذمہ دار ہے لیکن پاکستان سمیت دیگر کئی ممالک میں اس پر عمل نہیں ہوتا ۔معدنیات کی کمائی کا دس فیصد حصہ مائنز ورکرز کی صحت وسلامتی کو یقینی بنانے اور انہیں جدید آلات کی فراہمی کیلئے مختص کیا جانا چاہئے۔ مائنز ورکر ز کی صحت و سلامتی کے حوالے سے اقدامات کئے جانے چائیں، حکومت ، محکمہ معدنیات ، مائن مالکان اور مائنز ورکر کے حقوق کیلئے کام کرنے والے اداروں کو متحد ہو کر قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع روکنے کیلئے اقدامات کرنے چاہئے۔

جب تک حکمرانوں ، صنعت ، مائن مالکان ، ٹھیکیدار سمیت ہم سب کا منشور انسانیت نہیں ہو گا ہمارا احساس زندہ نہیں رہ سکتا۔لہٰذاوفاقی و صوبائی حکومتیں کان کنی سے وابستہ محنت کشوں کی زندگیوں کے تحفظ کیلئے عملی اقدامات کریں،کانکنوں کو حفاظتی آلات فراہم کیے جائیں۔کان کنی سے وابستہ محنت کشوں کی صحت وسلامتی کو یقینی بنانے کیلئے کمیونیکیشن کا جدید انتظام نافذ کیا جائے۔کوئلے کی کان میں کام کرنے والے مزدوروں کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے جو اقدامات درکار ہیں ان میں پرسنل پروٹیکٹو ایکوئپمنٹ کام کی مخصوص ضرورت کے مطابق جیسے مائننگ شوز، گمبوٹس، ہیلمٹ، سیفٹی بیلٹ، سیفٹی ہارنس،سیفٹی ہک، ہاتھ کے دستانے، حفاظتی چشمے، کان کے مفس، خود ساختہ سانس لینے کا سامان، زیر زمین کوئلے کی کانوں میں کام کرنے کیلئے ذاتی کیپ لیمپ،ریسٹ شیلٹر، فرسٹ ایڈ سٹیشن اور فرسٹ ایڈ روم اور مائن اسٹیشن،کانوں میں استعمال ہونے والی ارگونومیکلی ڈیزائن کی گئی مشینیں،کانوں میں کام کی کیلئے روشنی اور پانی کے چھڑکاو ¿ کا انتظام،کانوں میں گیسوں کی موجودگی کا پتہ لگانے کیلئے ڈیجیٹل ڈیٹیکٹرز،کارکنوں کی حفاظت کیلئے مناسب وینٹیلیشن کا انتظام،اگر وینٹیلیشن کا مناسب انتظام ہو تو گیسوں کے جمع ہونے کی وجہ سے جو حادثات رونما ہوتے ہیں انہیں روکا جا سکتا ہے۔ کانوں میں میتھین گیس اور کاربن مونو آکسائیڈ گیسیں ہوتی ہیں لیکن ان کی مناسب مانیٹرنگ کا نظام بھی نہیں،اگر گیسوں کی مانیٹرنگ کا جدید نظام ہو تو ان کی موجودگی کا پتہ لگا کر ان کو کلیئر کرنے کے بعد کان کنوں کو بھیجا جا سکتا ہے جس کے نتیجے میں وہ محفوظ رہ سکتے ہیں اگر کان میں بھی متبادل راستہ موجود ہوتو حادثے کی صورت میںغریب کان کن بچ سکتے ہیں۔

اس کے علاوہ کانوں کی چھت اور ڈھانچے کو سہارا دینے کیلئے پہلے کیکر کی مضبوط لکڑی استعمال کی جاتی تھی لیکن اب پیسے بچانے کیلئے سفیدے کی لکڑی استعمال کی جاتی ہے جو ہلکا سا جھٹکا بھی برداشت نہیں کرپاتی اور پوری کان منہدم ہوجاتی ہے، اسی لئے سفیدے کی بجائے کیکر کی لکڑی استعمال کی جائے۔ علاوہ ازیں کوئلہ کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کیلئے کام کی جگہ کے قریب رہائش کی سہولیات،کینٹین، ریسٹ شیلٹرز ،پینے کیلئے صاف پانی کی فراہمی،کوئلہ کانوں کے مختلف حصوں میں ڈسپنسری کی سطح سے لے کر مرکزی اور اپیکس ہسپتالوں تک مختلف طبی اداروں کے ذریعے ملازمین اور ان کے اہل خانہ کو مفت طبی سہولیات،کان کنوںکے بچوں کیلئے سکول،کارکنوں کی رہائشی کالونیوں کے قریب تفریحی اور کھیلوں کی سہولیات موجود ہیں تاکہ کارکنوں اور ان کے خاندانوں کی اچھی صحت کو یقینی بنایا جا سکے۔ کوئلے کی کانوں میں سستی قیمت پر اشیائے ضروریہ کی فراہمی ممکن بنانے کیلئے کوئلہ کانوں کے علاقوں میں سینٹرل کوآپریٹو اور پرائمری کوآپریٹو اسٹورز بنائے جائیں۔اگر تمام لیبر یونینز کے عہدیدار اپنی ڈیوٹی پوری ایمانداری کے ساتھ سر انجام دیں تو مزدوروں کو صحت و سلامتی سمیت دیگر حقوق مل سکتے ہیں۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کے کنونشن C-176 کی توثیق کی جائے کیونکہ یہ مزدوروں کی صحت و سلامتی کا قانون ہے اس پر عمل درآمد ہونا چاہیے۔

koyla kaano mai communication ka jadeed nizaam nafiz kiyya jaye

سوال: مائننگ کے حوالے سے کون سے قوانین موجود ہیں؟

سلطان محمد خان:کوئٹہ میں کوئلہ اٹھارویں صدی میں دریافت ہوا تھا، لیکن اس کیلئے قانون سازی 1923ءمیں کی گئی اس وقت سے اب تک ان مزدورں کے کیلئے کوئی خاطر خواہ قانون سازی نہیں کی گئی۔ انگریز سرکار نے کان کنی کے حوالے سے مائنز ایکٹ مجریہ 1923ءبنایا تھا جس پر وہ عمل درآمد بھی کرتا تھا۔ اس قانون میں کان کن کی صحت، جان کی حفاظت، اوقات کار وغیرہ سب طے شدہ ہیں لیکن اب پاکستان کے دیگر قوانین کی طرح اس قانون پر عمل درآمد بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔ 1923 میں انگریز سرکار نے مائین ایکٹ بنایا تھا، اس ایکٹ کے تحت ضروری ہے کہ کوئلہ کان کے نزدیک ہر وقت ایمبولینس موجود رہے۔ اس کے علاوہ کوئلہ کان کے نزدیک ایک ڈسپنسری اور کوالیفائیڈ ڈاکٹر کا ہونا بھی ضروری ہے۔ یہ بھی ایکٹ میں کہا گیا ہے کہ کان کنوں کیلئے پینے کا صاف پانی ہونا چاہیے، لیکن ایسا کوئی انتظام کوئلہ کانوں کے قریب نظر نہیں آتا۔ ایکٹ میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ کان کن آٹھ گھنٹے سے زیادہ کام نہیں کر سکتا لیکن اس سے 10 سے 12 گھنٹے تک کام کرایا جاتا ہے۔مائن ایکٹ کو بنے ہوئے ایک صدی ہو چکی ہے لہٰذااب مائن ایکٹ 1923ءمیں ترامیم کرنے کی ضرورت ہے اس کے علاوہ حکومت مائننگ کے شعبے کو انڈسٹری کا درجہ دے۔

سوال: کان کنی سے وابستہ محنت کش کو کتنی دیہاڑی ملتی ہے ؟

سلطان محمد خان: اس ملک میں مائن مالکان کی حالت بادشاہوں جیسی ہے۔ وہ محلات میں رہتا ہے لیکن کان کنی سے وابستہ مزدوروں کے پاس رہنے کو چھت نہیں ہے ، دو وقت کی روٹی کھانا محال ہو چکا ہے۔

سوال:چائلڈ لیبر کے حوالے سے آپ کیا کہیں گے ؟

سلطان محمد خان:دنیا بھر میں مجبوری کے سبب بچے مختلف شعبوں میں اپنے گھر کی کفالت کیلئے مزدوری کرتے ہیں،پاکستان میں بچوں کی بھی ایک بڑی تعداد مختلف شعبوں میں محنت مزدوری کرتی ہے ،جنہیں ان گنت مسائل کا سامنا ہے۔مزدوری کے سبب بچوں کا بچپن تباہ کیا جا رہا ہے۔ان کے کھیلنے کودنے اور تعلیم حاصل کرنے کی عمر میںان سے سخت کام کرایا جا رہا ہے ۔بچوں کے ساتھ بدسلوکی اور ان کا استحصال کیا جا رہا ہے اس صورتحال پر حکومت اور حکومتی ادارے خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ چائلڈ لیبر کا خاتمہ یقینی بنانے کیلئے آل پاکستا ن لیبر فیڈریشن حکومت کو تجویز دیتی ہے کہ ملک بھر میں چائلڈ لیبر کا سروے کرایا جائے اور اس کے بعد ان بچوں کی فیملی کو بیت المال ، بے نظیر انکم سپورٹ فنڈ اور ذکوٰة فنڈ کے ساتھ منسلک کیا جائے ۔چائلڈ لیبر کی بنیادی وجوہات کا تعین کر کے ان کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔

سوال:کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے مزدور کن بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں؟

سلطان محمد خان:کان کنی سے وابستہ مزدور 50 سال تک کی عمرمیں ناکارہ ہو جاتے ہیں کیونکہ مائنز میں گیسز اور گرد سے بچنے کیلئے حفاظتی اقدامات نہ ہونے سے ان کے پھیپھڑے اور گردے کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں انہیں جلد کی بیماریاں لاحق ہو جاتی ہیں ۔

سوال:کا ن کنی کے پیشے سے وابستہ مزدوروں کو صحت کی کیا سہولیات ملتی ہیں؟

سلطان محمد خان:کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے محنت کش صحت کی بنیادی سہولتوںسے محروم ہیں ۔کول مائنز میں کام کرنے والے ورکرز دوران کام جب بیمار ہوتے ہیں تو ان علاقوں میں دور دور تک کوئی طبی سہولیات میسر نہیں ہوتیں، اس صورتحال کومدنظر رکھتے ہوئے وفاقی وصوبائی حکومتیں اور محکمہ معدنیات کان کنوں کو صحت عامہ کی معیاری سہولیات کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے مائننگ ایریاز میں سٹیٹ آف دی آرٹ مائنز لیبر ویلفیئر ڈسپنسریاں بنائیں اور کان کنوں کیلئے موبائل ہیلتھ یونٹ بھی قائم کیے جائیں تاکہ علاقہ کے مائنز ورکرز کو صحت کی بروقت سہولیات ان کی دہلیز پر میسر ہوں گی۔ حکومت کان کنوں کی زندگی کا تحفظ یقینی بنانے کیلئے معائنہ سسٹم کی ڈیجیٹلائزیشن کرے اور کان کنی کے دوران ہنگامی حالات سے نمٹنے کیلئے ریسکیو اسکواڈ قائم کیا جائے ، کان کنوں کے بچوں کے تعلیمی وظائف کی گرانٹ میں اضافہ کیا جائے جبکہ معذور کان کنوں کو پچیس ہزار روپے ماہانہ گرانٹ دی جائے جبکہ کان کنی کے شعبے کو انڈسٹری کا درجہ دیا جائے۔

سوال : ورکر ویلفیئر بورڈ مائنز ورکرز کی کےا مدد کررہاہے؟

سلطان محمد خان: ۔ ورکر ویلفیئر بورڈ کے اقدامات مزدور دُشمنی پر مبنی ہیں۔ورکر ویلفیئر بورڈ کرپشن کی آماجگاہ بن چکا ہے۔مائنز ورکروں کوجو سہولتےں مل رہی تھےںاس میں بھی مزیدکمی کی جارہی ہے۔جو کمپنیاں دو فیصد ویلفیئر فنڈ نہیں دے رہی ہیں اس کی سہولتےں ختم ہونے کی باتےں کی جا رہی ہیں،اگر کوئی دو فیصد ویلفیئر فنڈ نہیں دے رہی ہیں تو اس مےں ورکروں کا تو کوئی قصور نہیں ہے ؟ جو کمپنی ورکر ویلفیئر بورڈ کو دو فیصد ویلفیئر فنڈ نہیں دے رہی ہیں، اس کمپنی کی الاٹمنٹ کینسل کی جائے۔ ورکرز ویلفیئر بورڈ میں افسران اپنے میڈیکل بلز، بچوں کے تعلیمی وظائف، ٹی اے ڈی اے سمیت دیگر مراعات بروقت وصول کررہے ہیں لیکن محنت کشوں کا استحصال کیا جا رہا ہے۔

سوال : ڈائرےکٹر جنرل مائنز بلوچستان کی کارکردگی کےسی ہے؟

سلطان محمد خان: ڈائریکٹر جنرل مائنز بلوچستان عرصہ دارز سے کرسی پر براجمان ہیں،مائننگ کے شعبے کو درپیش مسائل کا حل، اورمائن ورکرز کی فلاح و بہبود سمیت دیگر کام ان کے فرائض میں شامل ہیں لیکن بدقسمتی سے انہوں نے اپنے فرائض پوری ایمانداری سے سر انجام نہیں دیئے۔ان کی غفلت اور لاپرواہی کی بدولت کانوں میں حادثات کی تعداد دن بدن بڑھ رہی ہے ،

کان کنوں کی صحت و صلامتی کے حوالے سے انہوں نے آج تک کوئی اقدام نہیں کیا۔ہمارا مطالبہ ہے کہ موجودہ ڈائریکٹر جنرل مائنز بلوچستان کو عہدے سے ہٹا کر ایماندار ڈی جی کو تعینات کیا جائے تو کان کنی سے وابستہ محنت کشوں کو اور کان کنی کے شعبے کو بھی فائدہ ہو گا۔ چاروں صوبوں میں ڈائریکٹر جنرل مائنز کے دفاترز کرپشن کے گڑھ بن چکے ہیں ،ہر صوبے میں مائنز ایکٹ کی دھجیاں اُڑاتے ہوئے مائنز کی الاٹمنٹ کی جا رہی ہے ،مائن مالکان اور ٹھیکیدار کان کنوں کی ای او بی آئی میں رجسٹریشن نہیں کراتے جو مزدوروں کے ساتھ ظلم کے مترادف ہے۔ مائن الاٹمنٹ کے وقت یہ شر ائط ر کھی جائے کہ کمپنی اپنے ورکرز کی ای او بی آئی میں رجسٹریشن یقینی بنائے گی۔

شنید ہے کہ ورکرز ویلفیئر فنڈ میںدو فیصدٹیکس ادا نہ کر نے والی کمپنی کے محنت کشوں کو ڈیتھ گر انٹ ، اسکالر شپ اور دیگر سہولیات سے محروم رکھا جا ئے گا جو غریب کان کن کے ساتھ ظلم کے مترادف ہوگا ،پاکستان سینٹرل ما ئنز لیبر فیڈریشن حکومت سے سوال پوچھتی ہے کہ ورکر ز ویلفیئر فنڈ اور ای او بی آئی میں کنٹربیوشن دو فیصد ٹیکس ادا کرنا صوبائی حکومتوں کا کام یے یا پھر غریب کان کنوں کا؟اسی لئے پاکستان سینٹرل ما ئنز لیبر فیڈریشن کا مطالبہ ہے کہ جو مائنز ٹیکس ادا نہیں کر رہیں ان کی الاٹمنٹ فوری طور پر منسوخ کی جائے۔علاوہ ازیں بلوچستان میں محنت کشوں کی لیبر کالونیوں کو بھی بغیر کسی الاٹمنٹ کے من پسند افراد کے حوالے کیا جا رہا ہے ،جو محنت کش طبقے کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کے متراد ف ہے،پاکستان سینٹرل ما ئنز لیبر فیڈریشن اور آل پاکستان لیبر فیڈریشن وفاقی حکومت سمیت صوبائی حکومتوں سے مطالبہ کرتی ہے کہ کان کنی سے وابستہ لاکھوں محنت کشوں سمیت ملک بھر کے سات کروڑ سے زائد مزدوروں کا استحصال فوری طور پر بند کیا جائے اور پاکستانی آئین کے مطابق مزدوروں اور کسانوں کو بنیادی حقوق کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔

سوال:مائن میں ہونے والے حادثات کی روک تھام اور کاکن کنوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کیلئے پاکستان سینٹرل مائنز لیبر فیڈریشن کا کیا کردار ہے؟

سلطان محمد خان:پاکستان سینٹرل مائنز لیبر فیڈریشن کوئلہ کانوںمیں کام کرنے والے مزدوروں کو حادثات سے بچنے اور حفاظتی تدابیر کے متعلق آگاہی دینے کے حوالے سے انڈسٹری آل گلوبل یونین کے تعاون سے مختلف ورکشاپس کااہتمام کرتی ہے اور کان کنوں کو ریسکیو کے مختلف مراحل کے متعلق ٹریننگ بھی دی جاتی ہے تاکہ وہ ان تکنیکی مہارتوں کو بروئے کار لاکر حادثے کی صورت میں متبادل راستوں سے ریسکیو کا کام بخوبی طور پر انجام دیکر قیمتی جانیں بچانے میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ اس کے علاوہ جب بھی کسی ماین میں کوئی حادثہ ہوتا ہے تو ٹھیکیدار اس کو چھپاتا ہے جبکہ پاکستان سینٹرل مائنز لیبر فیڈریشن ملک کے کسی بھی حصے میں کسی حادثے کے نتیجے میں مائنز ورکر ز کی اموات پر حکومت سے احتجاج کرتی ہے اور میڈیا کے ذریعے ان حادثات اور اس کے نتیجے میں ہونے والی جانی ومالی نقصان بارے حکومت اور عوام کو آگا ہ بھی کرتی ہے۔اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں مائنز ورکرز کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک پر صدائے احتجاج بلند کرتی ہے۔

پہلے بلوچستان کے مائنز ورکرز کی ڈیتھ گرانٹ اور معاو ¿ضہ اُونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر ہے ،پاکستان سینٹرل مائنز لیبر فیڈریشن کی جدوجہد کے نتیجے میں بلوچستان میں یہ معاوضہ پانچ لاکھ روپے ہوگیا ہے۔ اس کے علاوہ کان میں کام کرنے والے کان کن حادثات یا کان کنی سے لگنے والی مختلف بیماریوں کے باعث کم عمری میں انتقال کرجاتے ہیں، ان کی موت سے لے کر ان کی عمر 55 سال (قابلِ پنشن) ہونے تک انہیں کم از کم پنشن کی ادائیگی کے حوالے سے بھی کام کیا ہے۔بلوچستان سمیت ملک بھر کے ہزاروں کان کنوں کو ایمپلائیز اولڈ ایج بینیفٹس انسٹی ٹیوشن (ای او بی آئی)میں رجسٹرڈ کرایا ہے تاکہ وہ پنشن جیسی سہولت سے مستفید ہو سکیں۔مائن مزدوروں کے بچوں کو اسکالر شپ ،صحت کی سہولیات کی فراہمی اور شادی گرانٹ دلانے کے حوالے سے بھی کامیاب ہوئے ہیں۔اب پاکستان سینٹرل مائنز لیبر فیڈریشن کا مطالبہ ہے کہ کان کنی کے دوران ہنگامی حالات سے نمٹنے کیلئے ریسکیو اسکواڈ قائم کیا جائے ، کان کنوں کے بچوں کے تعلیمی وظائف کی گرانٹ میں اضافہ کیا جائے جبکہ معذور کان کنوں کو پچیس ہزار روپے ماہانہ وظیفہ دیا جائے۔ وفاقی وصوبائی حکومتیں اور محکمہ معدنیات کان کنوں کو صحت عامہ کی معیاری سہولیات کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے مائننگ ایریاز میں سٹیٹ آف دی آرٹ مائنز لیبر ویلفیئر ڈسپنسریاں بنائے اور کان کنوں کیلئے موبائل ہیلتھ یونٹ بھی قائم کیے جائیں تاکہ علاقہ کے مائنز ورکرز کو صحت کی بروقت سہولیات ان کی دہلیز پر میسر ہوں گی۔

koyla kaano mai communication ka jadeed nizaam nafiz kiyya jaye

سوال:گڈانی میں شپ برینکنگ سے وابستہ مزدوروں کے مسائل پر کیا تبصرہ کریں گے؟

سلطان محمد خان:پاکستان میں ہونے والی شپ بریکنگ خطے میں قدیم ترین جہاز توڑنے کی صنعت ہے، لیکن آج یہ حکومت اور مالکان کی نااہلی کی وجہ سے تنزلی کا شکار ہے۔بلوچستان کے علاقے گڈانی میں واقع شپ بریکنگ صنعت ملکی فولاد کی ضروریات کا 30 فیصد فراہم کرتی ہے، اس صنعت سے ہزاروں محنت کشوں کا روزگار وابستہ ہے ۔ گڈانی شپ بریکنگ پر کام کرنے والے مزدور بے پناہ مسائل کا شکار ہیں۔جہاز پر آگ لگنے، بوائلر پھٹنے اور خطرناک گیسوں کے اخراج سے مزدوروں کی زندگیوں کو درپیش خطرات کی اصل وجہ لیبر قوانین سے رو گردانی اور صحت اور حفاظت کے اقدامات سے پہلوتہی ہے۔شپ بریکنگ یارڈ میں مالکان اور ٹھیکیداروں نے اتحاد کر رکھا ہے جس کے ذریعے مزدوروں کو مسلسل غلامی کے ماحول میں کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے اور اس سے بھی زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ شپ بریکنگ کے ٹھیکیدار جو کہ خود کروڑ پتی اور ارب پتی ہیں، انہوں نے مالکان کی پشت پناہی سے مزدوروں کے نام پر یونین بنائی ہوئی ہے جس کی وجہ سے محنت کش طبقے کے حقیقی مسائل کے حل نہیں ہوتے۔گڈانی میں یکم جولائی 2016ءکے المناک سانحہ سے لے کر آج تک سیکڑوں چھوٹے بڑے حادثات ہوچکے ہیں، جس میں کئی ایک مزدور ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں۔

اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جہاز مالکان کام کے دوران حفاظتی اقدام کو کوئی اہمیت نہیں دیتے اور ملکی لیبر قوانین کو روندتے ہیں ۔ 2016 میںگڈانی میں بحری آئل ٹینکر میں آگ کے بعد 26 مزدوروں کی ہلاکت کے بعد حکومت نے اعلان کیا تھا کہ تمام شپ بریکنگ یارڈ زکو رجسٹرڈ کیا جائے گا اور ورکرز کو خصوصی کارڈ جاری کرنے کیسا تھ ساتھ سوشل سیکورٹی اور پنشن کے اداروں سے رجسٹرڈ کیا جائے گا۔ یہ وعدہ بھی کیا گیا تھا کہ ہیلتھ اور سیفٹی کے اقدامات کو یقینی بنایا جائے گا لیکن اتنے سال گزرنے کے باوجودیہ محض وعدے ہی ثابت ہوئے۔گڈانی شپ بریکنگ یارڈ ہزاروں مزدوروں کے ساتھ ساتھ ٹرانسپورٹرز کے روزگار کا زریعہ ہے جس وابستہ ہزاروں گھرانوں کے چولہے جلتے ہیں جبکہ شپ بریکنگ یارڈ حکومت کو بھی سالانہ اربوں روپے ریونیو کے مد میں ادا کرتے ہیں مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ اس اہم صنعت پر حکومت کی توجہ نہیں اس وقت شپ بریکنگ یارڈبے پناہ مسائل کا شکار ہے۔

سوال: گڈانی میں واقع شپ بریکنگ یارڈ میں حادثات کی روک تھام کیسے ممکن ہے؟

سلطان محمد خان:شپ بریکنگ کے دوران بحری جہاز کے قریب چھوٹی کشتیاں کھڑی کی جائیں تاکہ جہاز پر آگ لگنے کی صورت میں مزدور ان کی مدد سے اپنی جان بچا سکیں ۔ اس کے علاوہ لیبر قوانین پر سختی سے عملدرآمد کیا جائے، صحت اور تحفظ کے انتظامات کو یقینی بنایا جائے، مزدوروں کی سلامتی اور تربیت کو یقینی بنانے کیلئے ربڑ کے جوتوں، دستانوں، ہیلمٹ، اور ڈانگری لباس کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔حادثات کی صورت میں ایمبولینس کی موجودگی کو یقینی بنائی جائے، شپ بریکنگ مزدوروں کیلئے ہسپتال اور برن وارڈ تعمیرکی جائے۔ مزدوروں کی اکثریت لکڑی کے کیبنوں میں مقیم ہے جو جہاز کی ناکارہ لکڑی سے بنائے گئے ہیں لہٰذامزدوروں کیلئے کوارٹروں کی تعمیر یقینی بنائی جائے۔ گڈانی میں پینے کے میٹھے پانی کی سہولت دستیاب نہیں ہے۔ یارڈز میں مالکان پانی کے ٹینکر منگواتے ہیں جبکہ مزدورں کی رہائشی علاقے میں کنویں کھودے گئے ہیں جن کا پانی کھارا ہوتا ہے۔لہٰذاپینے کیلئے صاف پانی کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔شپ بریکنگ کے تمام مزدوروں کو سوشل سیکیورٹی اور ای او بی آئی سے رجسٹرڈ کیا جائے۔ گڈانی میں مزدوروں کیلئے ہسپتال، رہائشی کالونی، سکول اور کینٹین کا فی الفور انتظام کیا جائے، مزدوروں کو یونین سازی اور اجتماعی سوداکاری کا حق دیا جائے۔ شپ بریکنگ میں حالات کار اور اوقات کار کو بہتر بنانے کیلئے انٹرنیشنل لیب آرگنائزیشن ( آئی ایل او )کی جنوبی ایشیا کیلئے شپ بریکنگ کی رہنمائی پر عملدرآمد کیا جائے اور ہانگ کانگ کنونشن برائے شپ بلڈنگ اور شپ بریکنگ کی توثیق کی جائے۔

سوال:بجلی کی غیر اعلانیہ طویل لوڈ شیڈنگ نے ملک بھر کی عوام کو اذیت میں مبتلا کر رکھا ہے ،آپ کے خیال میں توانائی بحران کا خاتمہ کس طرح ممکن ہے؟

سلطان محمد خان:توانائی بحران کے سبب ملک بھر میں ہزاروں صنعتی یونٹس اور فیکٹریاں بند ہونے سے لاکھوں مزدور بے روز گار ہو چکے ہیں لہٰذا حکومت توانائی بحران سے نجات حاصل کرنے کیلئے خود مختار پاور پروڈیوسرز ( آئی پی پیز) کے ساتھ کیے جانے والے معاہدے ختم کرے، خود مختار پاور پروڈیوسرز ( آئی پی پیز) کے ساتھ کیے جانے والے معاہدوں کی وجہ سے پاکستان میں بجلی کی پیداواری استعداد میں اضافے پر حکومت سے اس بجلی کی ادائیگی وصول کرنا جو وہ پیداواری کمپنیوں سے خرید نہیں رہی ہے ملک کی غریب عوام کے ساتھ ظلم کے متراد ف ہے۔ ملک بھر میں لوڈ شیڈنگ کی بنیادی وجہ تقسیم اور ترسیل میں ضائع ہونے والی بجلی ہے، پاور پلانٹس میں پیدا ہونے والی بجلی کو ملک بھر میں ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے ذریعے تقسیم اور ترسیل کیا جاتا ہے تاہم یہ ڈسٹری بیوشن کمپنیاں تقسیم اور ترسیل کے عمل میں ہونے والے نقصانات سے بچنے کیلئے بجلی کی لوڈ شیڈنگ کرتی ہیں۔

پاکستان میں بجلی کی ترسیل اور تقسیم کے نظام میں خرابی کی وجہ سے گردشی قرضے میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کی جانب سے فراہم کردہ بجلی ترسیل اور تقسیم کے مرحلے میں ضائع ہو جاتی ہے جس کی ادائیگی بھی حکومت کو کرنا پڑتی ہے لہٰذا بجلی کو ضائع ہونے سے محفوظ رکھنے کیلئے بجلی کی ترسیل اور تقسیم کا نظام بہتر بنایا جائے ۔اور کول مائننگ والے علاقوں میںکوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹ لگائے جبکہ مائننگ ایریاز میں سیمنٹ فیکٹریاں بھی لگائی جائیں تاکہ ان علاقوں میں روزگار کے مواقع پیدا ہوں۔کوئلے کے پاور ہاوسزایسے علاقوں میں بنائے جائیں پہلے سے بجلی کی 220KV کی لائنیں ہوں اس کیلئے مچھ اور میخترموزوں ترین ہیںجہاں پر آسانی سے کوئلے سے چلنے والے پاور ہاو ¿سز بنائے جاسکتے ،اس سے سستی بجلی کی پےداوار مےں اضافہ ہوگا اور روزگار کے نئے مواقع پےدا ہوں گے جس سے شہروں پر آبادی کا بوجھ بھی کم ہو گا۔

محمد قیصر چوہان

سینئر صحافی،مصنف اورنیشنل وانٹرنیشنل امور،سپورٹس سمیت دیگر موضوعات پر لکھتے ہیں جبکہ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے انٹرویوز بھی کرتے ہیں۔

محمد قیصر چوہان