تازہ ترین

خون عطیہ کرنے والے متعدد امراض سے محفوظ رہتے ہیں۔ معین احمد

Blood donate kerne wale mutaddid amraaz se mehfooz rehte hain moin ahmed
  • واضح رہے
  • مارچ 1, 2021
  • 4:47 شام

خون ایک ایسا لفظ ہے جسے سن کر ذہن میں زندگی کا تصور ابھرتا ہے۔ اب جبکہ سائنس ترقی کر چکی ہے پھر بھی بلڈ ڈونیشن کے حوالے سے مزید آگاہی کی ضرورت ہے

پاکستان دنیا کے اُن ترقی پذیر ممالک میں شامل ہے جہاں آج بھی لوگ خون عطیہ کرنے سے ڈرتے ہیں کہ کہیں ان کی طبعیت خراب نہ ہوجائے گی۔ دوسری طرف کم تعداد میں ایسے لوگ بھی ہیں، جو رضاکارانہ طور پر اپنا خون عطیہ کرتے ہیں اور انسانیت کی خدمت کا اخلاقی فریضہ انجام دیتے ہیں۔

اس ضمن میں ''واضح رہے'' نے جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر (جے پی ایم سی) کے بلڈ بینک منیجر معین الدین احمد کا انٹرویو کیا، جنہوں نے خون عطیہ کرنے کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلڈ ڈونیٹ کرنا جہاں ایک بھلائی کا کام ہے وہیں یہ خون دینے والے کی صحت کیلئے بھی مفید ہے۔

معین احمد نے سیف بلڈ کی فراہمی میں جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر (جے پی ایم سی) کے کردار کے حوالے سے بات کی اور یہ بھی بتایا کہ بڑے سرکاری اسپتالوں میں اب خون کی اسکیننگ کی مشینری کسی نامی گرامی پرائیوٹ اسپتال سے کم نہیں ہے۔ قارئین کیلئے انٹرویو پیش خدمت ہے:

واضح رہے: بلڈ کی تاریخ کے حوالے سے بتائیں؟

معین احمد: زمانہ قدیم میں ہر بیماری کا علاج جڑی بوٹیوں سے ہوتا تھا، جیسے جیسے سائنس نے ترقی کی تو 18ویں صدی میں بلڈ گروپ ایجاد ہوا اور 19ویں صدی میں سائنس اتنا آگے بڑھ گئی کہ خون کے حصے مثلاً فریش فروزن پلازما (ایف ایف پی)، پلیٹی لیٹ وغیرہ ایجاد ہوگئے۔

پہلے ایسا ہوتا تھا کہ مریض کو صرف بلڈ گروپ دیکھ کر خون لگا دیا جاتا تھا۔ اب ایسا نہیں ہوتا۔ باقاعدہ ٹیسٹ ہوتے ہیں۔ جسے جس پروڈکٹ کی ضرورت ہوتی ہے اسے وہی دی جاتی ہے۔ اب ہر بیماری کیلئے مختلف component ایجاد ہو چکے ہیں، کسی مریض کو اگر وائٹ سیلز کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ بھی ایجاد ہوچکا۔ جیسے جیسے سائنس نے ترقی کی ہے بہت سارے امراض سے نبرد آزما ہونے کے مختلف ذریعے پیدا ہوگئے ہیں۔

واضح رہے: ہمارے لئے خون دینا کتنی اہمیت کا حامل ہے؟

معین احمد: ایک شخص جب عطیۂ خون کرتا ہے تو وہ تین زندگیاں بچا سکتا ہے۔ کیونکہ خون کی ایک بوتل تین زندگیوں کے کام آتی ہے۔ ہمارے یہاں یہ تاثر ہے کہ عطیۂ خون اُس وقت ضروری ہوتا ہے جب ملک جنگی حالت میں ہو، خدانخواستہ کوئی بم دھماکہ یا حادثہ ہوگیا ہو۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں ہر دن 8 ہزار سے 10 ہزار خون کی بوتلوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ جن لوگوں کو خون نہیں مل پاتا ان کی زندگی داؤ پر لگ جاتی ہے، کیونکہ بہت سارے امراض ایسے ہیں جن میں زندگی کا دارومدار خون کی منتقلی پر ہے۔

واضح رہے: زیادہ تر لوگ خون دینے سے ڈرتے ہیں۔ اس پر رہنمائی فرمایئے گا؟

معین احمد: قدرت نے انسان کے جسم میں اس کی ضرورت سے زیادہ خون رکھا ہے۔ انسان کے جسم میں جو ریڈ سیل ہوتے ہیں ان کی لائف 120 دن ہوتی ہے۔ 120 دن کے بعد وہ باڈی سے ختم ہوجاتے ہیں۔ ہر ایک صحت مند انسان جس کا وزن 50 کلو سے زیادہ ہو اور وہ ذیابیطس اور دل کا مریض نہ ہو، ہر 3 ماہ بعد خون عطیہ کرسکتا ہے۔ یعنی ایک صحت مند انسان (مرد) سال میں 4 مرتبہ بلڈ ڈونیٹ کر سکتا ہے۔ جبکہ خواتین سال میں 3 بار یعنی ہر چار ماہ کے وقفے سے خون عطیہ کرسکتی ہیں۔

وائٹ سیل جس میں پلیٹی لیٹ مشینوں سے الگ کئے جاتے ہیں اور جس میں میگا یونٹ ہوتا ہے۔ وہ ہر 15 دن کے بعد ایک صحت مند انسان دے سکتا ہے۔ اس میں لوگوں کو ہچکچانے کی ضرورت نہیں ہے۔

واضح رہے: جناح اسپتال میں ایک اندازے کے مطابق سالانہ کتنے لوگ خون عطیہ کرتے ہیں؟

معین احمد: شروع میں تو بلڈ ڈونیٹ کرنے کا تصور کم تھا۔ لیکن اب لوگوں میں کافی شعور آگیا ہے۔ دیکھا جائے تو جے پی ایم سی میں 50 سے 60 ہزار افراد ہر سال اپنا خون عطیہ کرتے ہیں۔ لوگ اپنے مریضوں کیلئے بھی اور رضاکارانہ طور پر بھی خون ڈونیٹ کرتے ہیں۔

تاہم گزشتہ برس کورونا وائرس کے خوف کی وجہ سے عطیۂ خون کے رحجان میں نمایاں کمی آئی تھی، جس سے نہ صرف مریض بلکہ ہمارے لئے بھی مشکلات پیدا ہوئیں۔ دراصل جناح اسپتال میں جب کوئی مریض نازک حالت میں لایا جاتا ہے اور اگر اس کے اہل خانہ رقم نہیں دے سکتے تو ہم اسے مفت خون لگا دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ برس رضاکارانہ طور پر خون عطیہ کرنے والوں کی تعداد میں کمی کی وجہ سے پریشانی کا سامنا رہا۔

واضح رہے: بلڈ دینے کے کیا فائدے ہیں؟

معین احمد: خون دینے سے کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ عالمی طور پر تصدیق شدہ تحقیقی رپورٹس ہیں کہ خون دینے سے ہارٹ اٹیک کا خطرہ بہت کم ہوجاتا ہے۔ اسی طرح بلڈ پریشر کا مرض نہیں ہوتا۔ خون عطیہ کرنے والوں کی صحت خون نہ دینے والے لوگوں کے مقابلے میں زیادہ بہتر ہوتی ہے۔ اور وہ زیادہ چاک و چوبند رہتے ہیں۔

عطیہ خون نہ صرف انسانیت کی خدمت اور قلبی اطمینان بلکہ صحت کیلئے بھی مفید

جب انسان مستقل خون دیتا ہے تو باقاعدہ ایک میڈیکل چیک اپ سے گزرتا ہے۔ اس طبی معائنے میں ہیموگلوبن، بلڈ پریشر، وزن سمیت دیگر چیزوں کو چیک کیا جاتا ہے۔ اس طرح انسان کو اپنی صحت کے متعلق مسلسل آگاہی رہتی ہے۔

یہی نہیں عطیۂ خون کے وقت انسان کے بہت سارے ٹیسٹ کئے جاتے ہیں، جن میں ہیپاٹائٹس، ایچ آئی وی، ملیریا، syphilis وغیرہ شامل ہیں۔ لہٰذا اس سے بھی پتا چلتا رہتا ہے کہ ہمارے خون میں کوئی بیماری تو نہیں ہے۔ ویسے یہ بہت مہنگے ٹیسٹ ہیں، اگر کسی اسپتال یا لیباریٹری سے یہ کرانے جائیں تو 5، 6 ہزار کے ٹیسٹ پڑتے ہیں، مگر عطیۂ خون کی وجہ سے یہ ہمیں مفت حاصل ہوجاتے ہیں۔

واضح رہے: خون سے کتنی پروڈکٹس بنتی ہیں، ان کے نام؟

معین احمد: بلڈ سے تین پروڈکٹس بنتی ہیں۔ ان کے نام فریش فروزن پلازما (FFP)، پلیٹی لیٹ اور Packed Cell Volume (PCV) ہیں۔

واضح رہے: خون کی مختلف بیماریوں اور ان کی وجوہات پر روشنی ڈالیئے گا؟

معین احمد: بہت ساری ایسی بیماریاں ہیں، جو موروثی بھی ہیں۔ مثال کے طور پر تھیلسیمیا کا مرض ہے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ ایسے ماں باپ سے پیدا ہونے والے بچے جن کو پہلے سے تھلیسیمیا (Minor) ہوتا ہے، تو ان بچوں کے تھلیسیمیا (Major) کا شکار ہونے کا خدشہ زیادہ ہوتا ہے۔ جب بچے تھلیسیمیا (Major) کا شکار ہوتے ہیں تو ریڈ بلڈ سیلز (RBS) میچور نہیں ہو پاتے اور ان کی زندگی مستقل طور پر بلڈ ٹرانسفیوژن کے مرہون منٹ رہتی ہے۔ ان کی جان بچانے کیلئے متاثرہ بچوں کی بلڈ ٹرانسفیوژن کرنا پڑتی ہے۔

اسی طرح بہت ساری خون کی بیماریاں ہیں جو ''کینسر ڈزیزز'' ہیں۔ hemophilia  بھی ایک مرض ہے، جس میں خون کے جم جانے کا عنصر ہوتا ہے۔ یہ بیماری لوگوں میں بہت زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ anemia ایک بیماری ہے، جو حاملہ خواتین اور دودھ پلانے والی ماؤں کو ہو جاتی ہے۔ حاملہ ہونے کی وجہ سے خواتین کے جسم میں خون کی مقدار کم ہو جاتی ہے۔ اس وقت اگر ان کا مناسب علاج نہ کیا جائے تو یہ جان کیلئے خطرناک بھی ہوسکتا ہے۔ خون کی اس نوعیت کی اور بھی بہت سی بیماریاں ہیں، جو انسان کی زندگی کے خاتمے کا سبب بنتی ہیں۔

واضح رہے: بلڈ گروپس کے بارے میں بتائیں اور کون سا بلڈ گروپ نایاب ہوتا ہے؟

معین احمد: بنیادی طور پر بلڈ کے 4 گروپ ہوتے ہیں، جو AB، B ،A  اور O ہیں۔ دنیا خصوصاً جنوبی ایشیا میں بامبے گروپ (Bombay Group) ایک نایاب بلڈ گروپ ہے۔ اسی طرح ملک میں نیگٹو بلڈ بھی کمیاب ہے۔ یہ دونوں بلڈ نایاب ہوتے ہیں۔

واضح رہے: قارئین کی معلومات کیلئے بتایئے گا کہ کن بیماریوں کا پتا بلڈ ٹیسٹ سے چلتا ہے؟

معین احمد: جن بیماریوں کی تشخیص بلڈ ٹیسٹ سے ہوتی ہے وہ ہیپٹائٹس B اور C، HIV،Venereal Disease Research Laboratory test (VDRL)  اور ملیریا (MP) ہیں۔

واضح رہے: کہا جاتا ہے کہ کراچی میں غیر معیاری بلڈ بینکوں کی بھرمار ہے؟

معین احمد: یہ بہت پرانی بات ہو گئی۔ کراچی میں اس وقت جتنے بھی سرکاری بلڈ بینک ہیں وہ اچھے معیار کے ہیں۔ ان میں جناح اسپتال اور سول اسپتال کے بلڈ بینک سرفہرست ہیں۔ میں آپ کو جناح اسپتال کے حوالے سے بتاتا چلوں کہ یہاں ہم غیر معیاری بلڈ بینک کا خون کسی مریض کو لگاتے ہی نہیں ہیں۔

واضح رہے: بلڈ کی اسکیننگ کے حوالے سے کیا صورتحال ہے؟

معین احمد: جو اسکیننگ مشینیں آغا خان میں ہیں وہی جناح اسپتال میں موجود ہیں۔ میں یہ واضح کر دوں کہ تمام تر احتیاط کے باوجود اگر کسی کا بلڈ Reactive  ہو تو اس کو کال کر کے آگاہ کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ آپ اپنا علاج کرائیں۔

واضح رہے: قارئین کیلئے کوئی پیغام؟

معین احمد: زندگی انسان کو ایک بار ملتی ہے۔ اس میں دوسروں کے کام آئیں۔ ہمیں بڑھ چڑھ کر لوگوں کی خدمت کرنی چاہیئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ راستے سے ایک پتھر ہٹائیں تو اس کا بھی اجر ہے۔ اگر میرے پاس کوئی مریض آئے اور میں اسے اچھا مشورہ دوں تو یہ بھی صدقہ جاریہ ہے۔ میرا اہل وطن کیلئے یہی پیغام ہے کہ ہمیں سال میں کم از کم ایک بار خون عطیہ کرنا چاہیئے، تاکہ زیادہ سے زیادہ قیمتی جانیں بچائی جا سکیں۔ یہ اپیل صرف صحت مند حضرات کیلئے ہے۔

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے