تازہ ترین
نئی حکومت کو درپیش بڑے چیلنجزکشمیراورفلسطین میں قتل عام جاریبھارتی دہشت گردی نے کشمیر کوموت کی وادی بنا دیاووٹ کا درست استعمال ہی قوم کی تقدیر بد لے گادہشت گرد متحرکنئے سال کا سورج طلوع ہوگیااسٹیبلشمنٹ کے سیاسی اسٹیج پر جمہوری کٹھ پتلی تماشاحکومت آئی ایل او کنونشن سی 176 کوتسلیم کرےجمہوریت کے اسٹیج پر” کٹھ پتلی تماشہ“ جاریدہشت گردی کا عالمی چمپئنالیکشن اور جمہوریت کے نام پر تماشا شروعافریقہ، ایشیا میں صحت بخش خوراک عوامی دسترس سے باہردُکھی انسانیت کا مسیحا : چوہدری بلال اکبر خانوحشی اسرائیل نے غزہ کو فلسطینی باشندوں کے قبرستان میں تبدیل کر دیا”اسٹیبلشمنٹ “ کے سیاسی اسٹیج پر ” نواز شریف “ کی واپسیراکھ سے خوشیاں پھوٹیںفلسطین لہو لہو ۔ ”انسانی حقوق“ کے چمپئن کہاں ہیں؟کول مائنز میں انسپکشن کا نظام بہتر بنا کر ہی حادثات میں کمی لائی جا سکتی ہےخوراک سے اسلحہ تک کی اسمگلنگ قومی خزانے کو چاٹ رہی ہےپاک فوج پاکستان میں زرعی انقلاب لانے کیلئے تیار

’’انتھونی کوئین میرے پسندیدہ اداکار ہیں‘‘

حنا دل پذیر المعروف مومو
  • حیدر علی
  • اپریل 8, 2019
  • 10:26 شام

ڈرامہ سیریل بلبلے میں ’’مومو‘‘ اور قدوسی صاحب میں بیک وقت متعدد کردار ادا کرنے والی حنا دل پذیر کسی تعریف کی محتاج نہیں۔ پاکستان کی معروف اداکارہ حنا دل پذیر نے شوبز کیریئر کا آغاز 2008 میں کیا۔

انہیں ٹیلی ویژن پر سب سے پہلے ’’برنس روڈ کی نیلوفر‘‘ نامی ڈرامہ سیریل میں بطور سعیدہ کام کرنے کا موقع ملا، جس میں ان کی اداکاری کو بے حد سراہا گیا۔ کچھ ہی عرصے بعد انہیں مشہور ڈرامہ سیریز بلبلے میں ’’مومو‘‘ بننے کی آفر ہوگئی۔ ابتدائی طور پر یہ ڈرامہ سیریل 15 قسطوں پر محیط تھا، جو اس قدر مقبول ہوا کہ انتظامیہ نے اسے مسلسل جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ آج بھی یہ ڈرامہ ٹی وی پر دیکھا جاتا ہے۔

حنا دل پذیر المعروف مومو کا ایک یادگار انٹرویو ’’واضح رہے‘‘ کی قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے:

س: اداکاری کا شوق بچپن سے تھا؟

ج: اداکاری کا شوق بچپن سے ہی تھا مگر میں نے اداکاری کو اپنا پیشہ بنانے کے بارے میں کبھی سوچا نہیں تھا۔ نہ ہی تصور کیا تھا کہ میں کبھی ٹیلی ویژن پر کام کروں گی اور نہ ہی اس کیلئے کبھی کوشش کی۔ اتفاقیہ طورپر مجھے’’ بزنس روڈ کی نیلوفر‘‘ میں سعیدہ کا کردار ادا کرنے کا موقع ملا اور یوں میرا اداکاری کا کیریئر شروع ہوا۔

س: آپ اب تک کتنے ڈرامہ سیریلز میں اداکاری کے جوہر دکھا چکی ہیں؟

ج: یہ تو مجھے ٹھیک سے یاد نہیں مگر ایک محتاط اندازے کے مطابق میں اب تک سو سے زائد سیریلز مکمل کر چکی ہوں۔

س: آپ کی شوبز زندگی کا ایسا کوئی کردار جس پر آپ کو آج بھی ناز ہو؟

ج:میں اپنے کسی کردار کے بارے میں قطعی طور پر یہ نہیں کہہ سکتی کہ فلاں کردار میں، میں نے بہت اچھا اور بہترین کام کیا۔ البتہ اللہ کی بڑی کرم نوازی اور مہربانی ہے کہ میں جو بھی کردار ادا کرتی ہوں وہ میرے ناظرین کو پسند آتا ہے۔

س: شوبز میں ڈرائریکشن اور پروڈکشن سمیت اور بھی کافی شعبے ہیں۔ آپ کا اداکاری کے علاوہ کس طرف زیادہ رحجان ہے؟

ج: کام تو سارے ہی اپنی جگہ اہمیت رکھتے ہیں۔ البتہ اداکاری کے علاوہ میرا رحجا ن ڈائریکشن کی جانب بھی رہا اور اگر اللہ نے فضل وکرم سے میں اپنا یہ شوق بھی 2016 میں پورا کر چکی ہوں۔

س: شوبز کے مصروف شیڈول کے باعث آپ خاصی مصروف رہتی ہوں گی، کیا اس دوران اپنے گھر والوں کو وقت دے پاتی ہیں؟

ج: میری سب سے پہلی ترجیح میرے گھر والے ہیں۔ گھر میں سکون ہوتا ہے تب ہی میں ریکارڈنگ کیلئے نکلتی ہوں۔ گھر میں کوئی مسئلہ ہوتو شوٹنگ اور دیگر کاموں کی طرف فوکس نہیں رہتا۔ شوبز میری دوسری ترجیح ہے، سب سے پہلے مجھ پر میرے گھر والوں کا حق ہے۔

س: آپ کے کتنے بچے ہیں؟

ج: اللہ تعالیٰ نے مجھے چاند جیسا بیٹا عطا کیا ہے، جو مجھے بہت پیارا ہے۔ اس کا نام مصطفیٰ ہے، جو میں نے بڑی محبت سے رکھا ہے۔ مصطفی ٰماشاء اللہ سے 22برس کا ہوگیا ہے اور اب اعلیٰ تعلیم کے حصول کیلئے امریکہ میں ہے۔

س: آپ اصلی زندگی میں بھی ہنس مکھ ہیں یا پھر سخت مزاج ہیں؟

ج:میرا ماننا ہے کہ زندگی کے تمام معاملات نبھانے کیلئے خوش اصلوب اور نرم مزاج ہونا ضروروی ہے۔ لیکن وقت کی مناسبت کے ساتھ آپ کو سخت مزاج بھی ہونا پڑتا ہے۔

س: آپ خود ایک بہترین اداکارہ ہیں، لیکن ہر کسی کا کوئی نہ کوئی فیورٹ ہوتا ہے۔آپ کا پسندیدہ اداکار یا اداکارہ کون ہے؟

ج: امریکی میکسیکن اداکار انتھونی کوئین میرے پسندیدہ اداکار ہیں۔ایک عرصے تک ان کی شخصیت کا سحر مجھ پر طاری رہا۔ جبکہ ان کے علاوہ ہماری پاکستانی انڈسٹری میں عظمیٰ گیلانی، بشریٰ آپااور بے شمار باکمال لوگ ہیں، جو مجھے بے حدپسند ہیں۔

س: سنا ہے آپ ڈرامہ سائن کرنے سے پہلے اسکرپٹ کا باریک بینی سے جائزہ لیتی ہیں؟

ج: جی ہاں! اصل میں یہی ایک وجہ ہے کہ میں بہت کم سیریلز میں کام کرتی ہوں۔ میں اس وقت تک کنٹریکٹ سائن نہیں کرتی جب تک اسکرپٹ پڑھ کر خود کو مطمئن نہ کرلوں۔

س: سیاست میں کس قدر دلچسپی رکھتی ہیں؟

ج: دیکھیں سیاست ایک بہترین سبجیکٹ ہے۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں سیاست کو انتہائی برے لفظوں میں جانا جاتا ہے۔ ہمارے یہاں چالاکی اور مکاری کو سیاست کہاجاتا ہے۔ پولیٹیکل سائنس ایک ایسا سبجیکٹ ہے جس کی مدد سے آپ دنیا کو بہترین طریقے سے چلانے کا ہنر سیکھ سکتے ہیں۔

س: کھانے میں کیا پسند کرتی ہیں؟

ج: کھانے میں بہت سادہ غذا استعمال کرتی ہوں، لیکن دیسی کھانے انتہائی پسند ہیں۔ خاص طور پر سرسوں کا ساگ، مکئی کی روٹی اور کریلا گوشت وغیرہ۔

س: کھانا گھر کا پسند کرتی ہیں یا باہر کا؟

ج:باہر کے کھانے سے بچنے کی کوشش کرتی ہوں۔ گھر کے کھانے کا اپنا ہی مزہ ہے۔ گھر کی مرغی ہو یا دال بڑے شوق سے کھاتی ہوں۔

س:آپ نے مختلف کردار ادا کئے سب سے بہترین کون سا لگتا ہے؟

ج: میرے نزدیک میں نے آج تک جتنے بھی کردار ادا کئے ہیں، وہ تمام اچھے ہیں اور میرے من پسندہیں۔ کوئی کردار کسی سے کم نہیں اور نہ ہی کوئی کسی سے زیادہ اہم ہے۔

س: نوجوان اداکاروں کو میڈیا میں اچھی ساکھ بنانے کیلئے کیا مشورہ دیں گی؟

ج:میں پاکستان کی پوری نوجوان نسل کو یہ پیغام دینا چاہتی ہوں کہ کوئی بھی کام کرنے سے پہلے خود کو ایک بہترین انسان ثابت کریں۔ اچھی نیت سے آپ کو ہمیشہ وہ راستہ دستیاب ہوگا جو آپ کو ترقی کی راہ پر لے جائے گا۔ آپ کا کام چھوٹا ہو یا بڑا اسے پوری لگن اور دیانتداری سے کریں۔

س: ڈراموں میں آپ اکثر اردو، پنجابی کے علاوہ کئی زبانیں بولتی نظر آتی ہیں، کُل کتنی زبانوں پر عبور حاصل ہے؟

ج: مجھے بہت سی زبانیں آتی ہیں اور ان کے علاوہ بھی نئی زبانیں سیکھنے کا شوق ہے۔ اسی شوق کے سبب کسی بھی نئی زبان کے لہجے کا کردار ادا کرنے کیلئے زیادہ ہوم ورک نہیں کرنا پڑا اور جلد ہی نئے لب و لہجے کو اختیار کرلیتی ہوں۔ مجھے نئی زبانوں کے آداب جاننے اور سیکھنے سے لطف آتا ہے۔

س: آپ کی مادری زبان کون سی ہے؟

ج: میری والدہ کا تعلق بھارتی ریاست اتر پردیش کے شہر مراد آباد سے ہے، جبکہ میرے والد ایبٹ آباد کے تھے۔ مادری زبانیں تو دونوں کی الگ تھیں مگر دونوں کی اردو بہت سلیس اور خوبصورت تھی، جس کے سبب شروع سے ہی ہمارے گھر میں اردو بولی جاتی ہے۔

س: ڈرامہ رائٹنگ کے حوالے سے کسے سب سے زیادہ پسند کرتی ہیں؟

ج: مجھے پرانے ڈرامے اور پرانے رائٹرز بہت ہی اچھے لگتے ہیں۔ مثلاً بانو قدسیہ صاحبہ کے لکھنے میں ایک کمال تھا۔ بندہ ان کی کہانی کے سحر میں جکڑ سا جاتا تھا۔ اشفاق احمد خان صاحب کی کہانیوں کو بھی بے حد پسند کرتی ہوں۔ پاکستان کی تاریخ میں ایسے بے شمار رائٹرز ہیں جن کا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔

حیدر علی

حیدر علی