تازہ ترین
اج جو ترمیم پیش کی گئی قومی اسمبلی میں اس سے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہونگے۔عدلیہ کے پنکھ کٹ گئے۔فضل الرحمان کہتے ہیں کہ اتحاد نے آئینی ترمیم کی مخالفت کو مؤثر طریقے سے بے اثر کیا۔قومی اسمبلی نے صبح سویرے 26ویں آئینی ترمیم کا بل منظور کرلیااشرافیہ، ثقافتی آمرانہ پاپولزم اور جمہوریت کے لیے خطراتوسکونسن کی ریلی کے بعد کملا ہیرس کو اینٹی کرائسٹ کہا جا رہا ہے۔عالمی جغرافیائی سیاست کے تناظر میں نیا اقتصادی مکالمہالیکشن ایکٹ میں ترمیم 12 جولائی کے فیصلے کو کالعدم نہیں کر سکتی، سپریم کورٹ کے 8 ججوں کی توثیقحماس کے رہنما یحییٰ سنوار غزہ میں اسرائیلی قبضے کے خلاف مزاحمت کے دوران مارے گئےامریکہ نے انسانی ڈھال کی رپورٹ کے درمیان اسرائیل کے احتساب کا مطالبہ کیاکینیڈا میں بھارت کے جرائم اور ان کے پیچھے مبینہ طور پر سیاستدان کا ہاتھ ہے۔گجرانوالہ میں پنجاب کالج کے طلباء کی گرفتاریاں: وجوہات، واقعات اور اثراتپاکستان ایشیائی ترقیاتی بینک کے بانی ژاؤ چن فان کا نام لے لیا گیا۔اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی کو ایک سال بیت گیاگریٹر اسرائیل قیام کامنصوبہغزہ کو کھنڈر بنانے کے بعد اسرائیل کی خوفناک ڈیجیٹل دہشت گردیآئی پی پیز معاہدے عوام کا خون نچوڑ نے لگےایٹمی پاکستان 84 ہزار 907 ارب روپے کا مقروضافواج پاکستان کی ناقابل فراموش خدماتراج مستری کے بیٹے ارشد ندیم نے پیرس اولمپکس میں تاریخ رقم کردی

کراچی کی سینٹرل جیل 6 بھارتی قیدیوں کی میزبان

central jail karachi
  • واضح رہے
  • اپریل 25, 2019
  • 10:27 شام

بنگلہ دیش، برما اور نائجیریا کی حکومتیں بھی اپنے شہریوں کی پیروی کرنے میں سنجیدہ نظر نہیں آ رہیں، جو کہ سالہا سال سے جیل کاٹ رہے ہیں۔

کراچی کی سینٹرل جیل عرصہ دراز سے بھارتیوں سمیت 11 غیر ملکی قیدیوں کی میزبانی کر رہی ہے۔ جبکہ اپنے اپنے ممالک کی جانب سے نظر انداز کئے جانے پر قیدیوں میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ قیدی سمجھتے ہیں کہ ان کی حکومتوں نے انہیں ایک دوسرے ملک کے قید خانے میں لاوارث چھوڑ دیا ہے۔ ادھر پاکستانی حکام کے آگاہ کرنے کے باوجود قونصل خانوں نے قیدیوں کو اپنے اپنے ملک واپس بھیجنے کیلئے  اقدامات ہی نہیں اٹھائے۔ مسلسل نظر انداز کئے جانے پر غیر ملکی قیدی خدمت گار کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔

بھارت، بنگلہ دیش، نائجیریا اور برما کے 11 قیدیوں کو حکومت پاکستان کے خرچے پر وکلا کی خدمات بھی فراہم کی گئیں تھیں۔ تاہم مذکورہ ممالک کے قونصل خانوں کی انتظامیہ نے قیدیوں کو واپس اپنے ملک بھجوانے کیلئے اقدامات ہی نہیں کیے ہیں۔ نہ ہی دستاویزات جمع کرائی ہیں اور نہ ہی اپنا شہری تسلیم کرنے کے حلف نامے جمع کرائے ہیں، جس پر قیدیوں میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ قیدی ماتحت عدالتوں سے بغیر دستاویزات سفر کرنے، منشیات کی اسمگلنگ وغیرہ جیسے الزامات میں ملنے والی سزائیں بھی کاٹ چکے ہیں۔

ان قیدیوں میں سے 6 کا تعلق بھارت سے ہے۔ عدالتوں نے غیر ملکی قیدیوں کو جرم ثابت ہونے پر 3 سال، ڈیڑھ سال، 1 سال اور 6 ماہ قید و جرمانے کی سزائیں سنائی تھیں، جو ختم ہونے کے باوجود قیدی سینٹرل جیل میں قید ہیں۔ چاروں ممالک کی جانب سے قیدیوں کو اپنا شہری تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے ان کی اپنے اپنے وطن واپسی کا تاحال بندوبست نہیں ہو سکا ہے۔ سینٹرل جیل میں غیر ملکی قیدی گزر بسر کرنے کیلئے خدمت گار کے فرائض انجام دے رہے ہیں، کیونکہ ان کے قونصل خانوں کی انتظامیہ نے قیدیوں کو سہولیات فراہم نہیں کی ہیں نہ ہی قیدیوں کو مقدمات کے ٹرائل کے دوران وکلا کی خدمات فراہم کی گئی تھیں۔ ان کے کھانے پینے کا بندوبست تک نہیں کیا گیا تھا۔

قانون کے مطابق قونصل خانوں کی انتظامیہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے قیدیوں کو انصاف کی فراہمی کیلئے وکلا کی خدمات فراہم کریں، ان کے کھانے پینے کا بندوبست کریں اور اہلخانہ سے ملاقاتوں کا بندوبست کریں۔ یہاں تک کے قونصل خانوں کی جانب سے مقدمات کے ٹرائل کے دوران شہری تسلیم کرنے کے حلف نامہ بھی جمع نہیں کرائے گئے تھے، جس پر عدالتوں نے قیدیوں کو ٹرائل کے دوران سرکاری وکلا کی خدمات فراہم کیں اور حکومت پاکستان نے ہی قیدیوں کے وکلا کی فیسیں ادا کیں۔

مذکورہ ممالک کی حکومتوں کی غیر سنجیدگی کے باعث قیدی عرصہ دراز سے جیل میں قید ہیں۔ جب کوئی صاحب حیثیت قیدی جیل میں آتا ہے تو غیر ملکی قیدی جیل انتظامیہ کو درخواست کرتے ہیں کہ انہیں اس کے خدمت گار کے طور پر لگا دیا جائے تاکہ گزر بسر ہو سکے۔ اس کے بدلے صاحب حیثیت قیدی سے وہ کچھ پیسے، کپڑے اور کھانے پینے کی اشیاء لے لیتے ہیں۔

محکمہ داخلہ سندھ نے گزشتہ ماہ قیدیوں کی سزائیں ختم ہونے پر متعلقہ قونصل خانوں کو خطوط تحریر کئے تھے کہ قیدیوں کو اپنے ممالک واپس بھجوانے کیلئے اقدامات کیے جائیں لیکن ابھی تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔ مذکورہ ممالک نے قیدیوں کی رہائی کا بروقت بندوبست نہیں کیا تو سینٹرل جیل کے حکام متعلقہ عدالتوں میں حراست کی مدت بڑھانے کی درخواستیں دیں گے۔

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے