کمیشن کی رپورٹ کے مطابق مبینہ طور پر پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والی اہم کاروباری شخصیت جہانگیر ترین، سابق حکمران شریف خاندان، گجرات کے چوہدری برادران، پنجاب اور سندھ کی حکومتوں نے ’فراڈ اور ہیرا پھیری کی ہے‘۔
کمیشن نے اپنی رپورٹ میں چینی کی برآمدات اور سبسڈی سے متعلق سابق وزیر خزانہ اسد عمر کے بیان کو بھی غیر تسلی بخش قرار دیا ہے۔
وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے وزیر اطلاعات شبلی فراز کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ’کمیشن کی رپورٹ سے واضح ہو جاتا ہے کہ شوگر ملز مالکان نے عام آدمی اور کسان کے ساتھ فراڈ کیا ہے اور انھیں لوٹا ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم یہ بات کرتے تھے کہ ’جو کاروباری ہوتے ہیں وہ حکومت میں نہیں ہوسکتے۔ یہ مفاد کا تضاد ہوتا ہے، اس حوالے سے آج پاکستان کی تاریخ کا اہم دن ہے۔‘
شہزاد اکبر نے بتایا کہ کمیشن رپورٹ کے مطابق جہانگیر ترین کی جے ڈی ڈبلیو ملز پاکستان میں چینی کی پیداوار کا سب سے بڑا گروپ ہے اور یہ کہ انھوں نے مبینہ طور پر ’غیر قانونی طور پر سب سے زیادہ پیداواری صلاحیت بڑھائی ہے۔‘
اس سے متعلق شہزاد اکبر نے کہا کہ ’پیداواری صلاحیت کے اعتبار سے جے ڈی ڈبلیو نے قانون کی خلاف ورزی میں تقریباً آٹھ نو ملز تک کا اضافہ کیا ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ رپورٹ میں شوگر کی پروکیورمنٹ سے لے کر شوگر برآمدات تک سب چیزوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔
ان الزامات کے سامنے آنے کے بعد جہانگیر ترین نے ٹویٹ میں کہا ہے کہ ’جس قسم کے جھوٹے الزامات مجھ پر لگائے گئے ہیں ان کا سن کر دھچکا لگا۔ میں نے ہمیشہ صاف شفاف کاروبار کیا ہے۔ پورا ملک جانتا ہے کہ میں نے ہمیشہ کاشتکار کو پوری قیمت دی ہے۔ میں دو کھاتے نہیں رکھتا۔‘
انہوں نے کہا کہ وہ اپنے ٹیکس ادا کرتے ہیں اور ہر الزام کا جواب دیں گے۔
مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ رپورٹ پڑھنے کے بعد ن لیگ ردعمل دے گی۔
مسلم لیگ ق کے رہنما مونس الہٰی نے کہا ہے کہ ’میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ کسی شوگر مل کے بورڈ یا مینیجمنٹ میں شامل نہیں ہوں۔ کمیشن کی قانون سازی کے لیے سفارشات کی حمایت کرتا ہوں‘۔
رپورٹ میں جن دیگر شخصیات کے نام سامنے آئے ہیں ابھی ان کی جانب سے ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔