تازہ ترین

سنسرشپ کا سامنا کرنے والے ممالک میں پاکستان کا 39واں نمبر

reporters without borders pakistan
  • واضح رہے
  • ستمبر 12, 2019
  • 6:22 شام

آزاد صحافت کیلئے بدترین ملک قرار دیئے گئے ممالک کی فہرست میں 2018 تک پاکستان 42واں درجہ رکھتا تھا، جس میں مزید تنزلی آئی ہے۔

امریکی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے) نے پریس سنسرشپ کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں جن 10 ممالک کا ذکر کیا ہے۔ تقریباً وہی ممالک رپورٹرز وِد آئوٹ بارڈرز نامی فرانسیسی ادارے کے پریس فریڈم انڈیکس میں شامل ہیں۔ سی جے پی نے جہاں ایریٹریا، شمالی کوریا اور ترکمانستان کو آزادی صحافت کیلئے بدترین ممالک قرار دیا ہے، وہیں رپورٹرز ود آئوٹ بارڈرز نے بھی تینوں ممالک کو اپنی فہرست میں آخری نمبروں پر رکھا ہے۔

رپورٹرز وِد آئوٹ بارڈرز کے پریس فریڈم انڈیکس 2019 کے مطابق صحافت پر قدغن لگانے والے زیادہ تر ممالک ایشیائی اور افریقی ہیں۔ مذکورہ فہرست میں پاکستان 39ویں نمبر پر موجود ہے۔ جبکہ اس سے قبل صحافت کیلئے کام کرنے والے فرانسیسی ادارے کی درجہ بندی میں پاکستان تین درجے اوپر تھا۔ مذکورہ درجہ بندی سے ایک برس کے دوران پاکستان میں صحافت کیلئے بڑھنے والی مشکلات میں مزید اضافے کا تاثر ملتا ہے۔ فریڈم انڈیکس میں بھارت کی پوزیشن پاکستان سے تھوڑی بہتر ہے اور وہ 41 ویں نمبر پر ہے۔

اس کے برعکس روس، بنگلہ دیش، وینزویلا، سنگاپور، برونائی، ترکی اور مصر سمیت کئی ممالک میڈیا سنسرشپ کے معاملے میں پاکستان سے بھی زیادہ سخت ہیں۔ واضح رہے کہ کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس نے اپنی رپورٹ میں چین، سعودی عرب، ایران اور بیلاروس کو بھی 10 بدترین سنسرشپ والے ممالک کی فہرست میں شامل رکھا ہے۔ علاوہ ازیں ویت نام کو چھٹے، وسطی افریقہ کے ملک استوائی گنی کو آٹھویں اور کیوبا کو درجہ بندی میں دسویں نمبر پر رکھا گیا ہے۔ جبکہ ایریٹریا، شمالی کوریا اور ترکمانستان بالترتیب پہلے، دوسرے اور تیسرے نمبر پر براجمان ہیں۔

واضح رہے کہ صحافیوں اور صحافتی اداروں پر عائد پابندیوں کے حوالے سے امریکی تنظیم (سی پی جے) نے دو روز قبل 10 بدترین سنسرشپ ممالک کی فہرست جاری کی تھی۔ سی پی جے نے دنیا بھر کے 10 ممالک میں صحافیوں اور صحافتی اداروں کے حوالے سے بدترین ممالک کا جائزہ لیا تھا، جبکہ ان کی فہرست اور رپورٹرز وِد آئوٹ بارڈرز کے پریس فریڈم انڈیکس 2019 میں بے پناہ مماثلت پائی جاتی ہے۔ سی پی جے نے مختلف ممالک میں صحافیوں کے خلاف ریاستی تشدد، ان کی کڑی نگرانی کرنے، انہیں کوریج کی اجازت نہ دینے، اغوا کرنے، تشدد کا نشانہ بنانے سمیت ان کے اہل خانہ کو بھی کڑی نگرانی میں رکھنے اور ان کیخلاف مختلف اقسام کے حربے استعمال کرنے جیسے عوامل کا جائزہ لیا ہے۔

تنظیم نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ بدترین پریس سنسرشپ کے حامل ممالک میں اقوام متحدہ کے 1946 میں منظور کئے جانے والے انسانی حقوق کے عالمی منشور کی شق 19 اے کی خلاف ورزی جاری ہے اور انہوں نے صحافتی اداروں اور صحافیوں پر قدغن لگا رکھی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اکثر ممالک میں صحافیوں کیخلاف ریاستی سرپرستی میں تشدد کے واقعات جاری ہیں اور سوشل میڈیا سمیت ہر طرح ان کی کڑی ڈجیٹیل نگرانی کی جا رہی ہے۔

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے