تازہ ترین

رزق حلا ل عین عبادت ہے

785091_9418641_food_magazine
  • راجہ فیصل اقبال
  • جون 24, 2020
  • 7:56 شام

قارئین کرام ہمارا مذبہب اور ہمارا معاشرہ کہتا ہے کہ رزق حلال میں برکت ہے ۔ مگر ہم شاہد اس بات کو کم ہی سمجھتے ہیں ۔ اور زندگی کی اس دوڑ کے میں ہم اتنا اآگے نکل گئے ہیں کہ ہم جائز و نا جائز کی تمیز کو بھول گئے ہیں ۔

بس ہم نے اپنی زندگی کا ایک مقصد بنا لیا ہے کہ دولت کمانی ہے چاہئے وہ ناجائز ہی کیوں نہ ہو ۔ مگر ہم شاہد یہ بھول جاتے ہیں کہ جو کچھ ہم کر رہے ہیں یہ آنے والے زندگی میں منفی اثرات ڈالے گا ۔
قارئین کرام دینا میں کوئی بھی انسان بُرا نہیں ہوتا چاہیے وہ کسی بھی مذبہب سے تعلق رکھتا ہے ۔ کیونکہ انسان جب پیدا ہوتا ہے تو بالکل معصوم ہوتا ہے ۔ مگر وہ جن حالات میں پروان چڑھتا ہے

وہ اپنے آنے والی زندگی میں وہی طزز اختیار کرتا ہے ۔ ایک اچھا انسان بننے کے لیے اچھے ماحوال کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھنا بھی ضروری ہوتا ہے کہ ہم اپنے گھر کے اندر جو ماحول پیدا کر رہے ہیں اُس کے لیے ہم کون سے ذرائع استعمال کر رہے ہیں ۔ اگر تو وہ جائز زرائع ہیں تو پھر ٹھیک ہے اگر ہم ناجائز زرائع استعمال کر کے اپنے گھر کے ماحول کو ایک اسلامی طزز ندگی دینا چاہ رہے ہیں تو تو شاہد ایک تو ہم اپنے رب کی بھی نافرمانی کر رہے ہوتے دوسرا اپنے آپ کو بھی ایک بڑے دھوکے میں رکھ رہے ہوتے ہیں ۔ کیونکہ بیج جیسا بویا جاتا ہے پھل بھی ویسا ہی پایا جاتا ہے ۔

دین اسلام چونکہ کامل ومکمل نظام حیات ہے اس لئے اس دین میں حصول رزق کے بارے میں بھی انسانیت کے لئے رہنمائی ہے ۔دین اسلام کے دئیے ہوئے اصول وضوابط کی روشنی میں جو رزق حاصل ہوگا وہ حلال شمار ہوگا ۔اسلام نے اپنے پیروئوں کو رزق حلال کمانے کی ترغیب دی ہے اور حرام رزق سے بچنے کی ترغیب بھی دی اور ترہیب بھی کی ۔نبی کریم کی حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے : ’’اللہ تعالیٰ خود طیب ہے اور وہ اسی چیز کو پسند کرتا ہے جو طیب ہو۔‘‘( مسلم)۔
بخاری میں حضرت مقدام بن سعد یکرب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور سرورِ کائنات نے فرمایا :
’’اُس کھانے سے بہترکوئی کھانا نہیں جس کو کسی نے اپنے ہاتھوں سے کام کرکے حاصل کیا اور بے شک اللہ کے نبی دائود(علیہ الصلوٰۃ والسلام) اپنی دستکاری سے کھاتے تھے۔ ‘‘

اُم المومنین سیدہ طیبہ اماں عائشہ الصدیقہ سلام اللہ علیہا روایت فرماتی ہیں کہ حضور اکرم نے فرمایا :
’’جو تم کھاتے ہو اُن میں سب زیادہ پاکیزہ وہ ہے جو تمہارے کسب سے حاصل ہوااور تمہاری اولاد بھی منجملہ کسب کے ہےـ‘‘(ترمذی،ابن ماجہ)۔
یعنی اولاد کی کمائی بھی انسان کے لئے مالِ حلال میں شمار ہوگی ۔
ایک اور حدیث مبارکہ میں نبی نے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ کے فرائض کے بعد اہم فریضہ کسب حلال ہیـ ‘‘ (کنزالعمال)۔
یعنی نماز،زکوٰۃ ،روزہ ،حج کے بعد مسلمان پر اہم فرض رزق حلال کماناہے ۔اس کے یہ معنی بھی ہوئے کہ مسلمان جب روزی کمانے کی سعی کرتا ہے اور روزی کمانے میں سرگرداں رہتا ہے تو دین اسلام روزی کمانے سے اُسے منع نہیں کرتا بلکہ روزی کمانے کے لئے کچھ حدود وقیود مقرر کرتا ہے تاکہ اُن حدود وقیود کی پابندی کرتے ہوئے وہ اپنے لئے اور اپنے اہل خانہ کیلئے رزق حلال کمائے ـ حلال رزق میں برکت ہوتی ہے اور رزق حرام دیکھنے میں زیادہ، لیکن حقیقت میں اُس میں برکت نہیں ہوتی ۔مثال کے طور پر رزقِ حلال سے تیار کیا گیا 3 افراد کا کھانا5 افراد کھائیں تو کھانا پھر بھی بچ جاتا ہے جبکہ حرام کی کمائی سے تیار شدہ3 افراد کا کھانا3 افراد کی کفایت بھی نہیں کرتا ،

جو بندہ مال حرام حاصل کرتا ہے اگر اس کو صدقہ کرے تو مقبول نہیں اور خرچ کرے تو اس کے واسطے اس میں برکت نہیں اوراپنے بعد چھوڑ مرے تو جہنم جانے کا سامان ہے…الخ۔‘‘(مسند احمد بن حنبل )
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم نے فرمایا:
’’جنت میں وہ گوشت داخل نہیں ہوگا جو حرام کھانے سے بڑھا ہواور ہر وہ گوشت جو حرام خوری سے بڑھا ہو دوزخ کے زیادہ لائق ہے ‘‘۔(مسند احمد بن حنبل ،بیہقی

مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ جب ٹرین پر سفر کرتے تھے تو سامان کا وزن خود کراتے تھے ۔جتنا سامان زیادہ ہوتا اُس اضافی سامان کی رقم جمع کراتے ۔ایک بار ایک ٹکٹ کلکٹر نے کہا کہ حضرت آپ رقم جمع نہ کرائیں ،فلاں اسٹیشن تک میں خود ہوں اُس کے بعد جو ٹکٹ کلکٹر آئے گا میں اُسے کہہ دوں گا ،وہ آپ کو تنگ نہ کرے گا ۔حکیم الامت حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ بھائی وہ کہا ں تک جاتا ہے ،اس ٹکٹ کلکٹر نے کہا حضرت جہاں تک ٹرین جائے گی ،تو حضرت تھانوی ؒ نے فرمایا کہ بھائی مجھے تو اس سے بھی آگے جانا ہے ،اور میری منزل روزِ محشر ہے۔ اگر وہاں تک تمہاری رسائی ہے تو بتلاؤ۔وہ خاموش ہوگیا اور حضرت تھانوی رحمہ اللہ ؒ نے اضافی سامان کی اضافی رقم جمع کرادی ۔
اگر ہم اوپر دی گئی باتوں کا بغور مطالعہ کریں تو یہ بات عیاں ہو گی کہ رزق حلال میں کتنی عبادت ہے مگر افسوس ہمارا معاشرہ لالچ و حرص میں سب کچھ بھلا چکا ہے ۔ اگرچہ اس کے اثرات کا عنصر ہماری زندگی میں نمایاں طور پر سامنے بھی آتا ہے ۔ مگر ہم پھر بھی غافل ہیں ۔

ابھی پچھلے دونوں کے ایک واقعہ کا ذکر کرتا چلوں کہ ایک مشہور سیاستدان کے بیٹے نے اپنے باپ کو گولی مار کر قتل کر دیا ۔ بظاہر تو یہ ایک واقعہ تھا وقتی طور پر سب نے لعن طعن کر کے اس کو بُھلا دیا ۔ مگر حقیقت میں یہ ہمارے لیے ایک سبق تھا ۔ کیونکہ اُس نے اپنی اولاد کی پروش میں ضرور کوئی نہ کوئی ایسی کوتائی کی ہوگی جس کی وجہ سے اُسے اس واقعہ سے دوچار ہونا پڑا ۔ کیونکہ ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ آپ پھو لوں کے بیج بو کر کانٹے پاو ۔ کیونکہ یہ میرے رب کا فیصلہ ہے کہ اگر تم اپنے اولاد کی پرورش رزق حلال سے کرو گے تو وہ دینا اور آخرت دونوں میں تمارے لیے راحت ثابت ہونگے ۔ ایسے بے شمار واقعات رونما ہو چکے ہیں ۔

اسی طرح حرام رزق کے اثرات ہماری زندگی میں مختلف طریقوں سے ظاہر ہوتے ہیں کبھی بیماری کی صورت میں ۔ مگر بجائے ہم ان کو سمجھنے کے دولت و پیسا پانی کی طرح بہاتے مگر اپنے ضیرہ کو جنجوڑ نے کی زحمت گورہ نہیں کرتے ۔ رزق حلال ہمارے زندگی میں نہایت اہمیت کا حال ہے ۔
بس صرف اس کی اہمیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے اگر ہم رزق حلال کی اپنی زندگی میں شامل کر لیں تو شاہد ہم ان مشکلات کا حل تلاش کر سکتے ہیں ۔

راجہ فیصل اقبال

راجہ فیصل اقبال مظفرآباد آزاد کشمیر E-mail raja.faisal1980@yahoo.com

راجہ فیصل اقبال